• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی

آج ہم اپنی اس کم زوری کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم فطرتاً ’’حیرت پروف‘‘ ہیں اور بڑے سے بڑے واقعے پر بھی حیران نہیں ہوتے۔ مثلاً کوئی سیاست داں کبھی حادثاتی طور پر سچ بول دے، تو ہم’’بندہ ٔبشر‘‘کہہ کر اُسے نظر انداز کردیتے ہیں۔ ماضی قریب کے کراچی میں چند روز دھماکے نہ ہوتے، تو ہم یہ سوچ کر پُرسکون رہتے کہ آخر ’’خود کش حضرات‘‘ کو بھی تو کچھ آرام درکار ہے،لیکن ہم جب بھی بوتل میں پڑا ہوا انڈا دیکھتے ہیں، تو چکرا جاتے ہیں کہ یہ اس کے تنگ گلے میں سے کیسے گزر گیا؟کچھ ایسا ہی اچنبھا گزشتہ دِنوں ہمارے ایک دوست کو ہوا، جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور ہر چیز حتیٰ کہ باورچی خانے کے چمٹے اور پُھکنی کو بھی تیکنیکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ انسانی جسم بھی جینیاتی انجینئرنگ (Genetic Engineering) کا ایک نمونہ ہے۔ہمارے ان ہی دوست کی بیوی نے اگلے روز ان کے بارے میں ایک عجیب و غریب کہانی سُنائی۔ ہوا یوں کہ ان کا خاندان پکنک کے لیے کسی فارم ہائوس پر گیا۔خاتونِ خانہ نے کھانے پینے کا جو سامان ساتھ لیا، اس میں ایک چھوٹا پلاسٹک کا کین بھی تھا، جس میں بَھرا ہوا پانی ڈیپ فریزر میں رہنے کے باعث جم کر برف میں تبدیل ہوگیا تھا۔ جب سب لوگ فارم ہائوس پہنچ گئے، تو ہمارے دوست نے اپنی بیگم سے پانی مانگا۔ انھوں نے کین اُلٹ کر برف کے پگھلے ہوئے پانی کا ایک گلاس انھیں دیا۔ اس عمل میں کین کے اندر رہ جانے والی برف نے جو آواز پیدا کی، اُس نے موصوف کو چونکا دیا۔ انھوں نے کین ہاتھ میں لیا اور اسے ہلا ہلا کر غور سے دیکھتے رہے، جب کہ بیوی انھیں غور سے دیکھتی رہیں۔ آخر کار انھوں نے میاں سے پوچھا، ’’کیا دیکھ رہے ہو؟ اندر برف ہی تو ہے۔‘‘ انجینئر صاحب نے کہا ،’’یہ تو مَیں بھی دیکھ رہا ہوں کہ اندر برف ہے، لیکن تم مجھے یہ تو بتائو کہ آخر وہ کون سی تیکنیک ہے، جسے بروئے کار لاکر تم نے برف کا اتنا بڑا ٹکڑا کین کے اتنے چھوٹے سے گلے میں سے گزار دیا؟‘‘یہ قصّہ سُن کر ہمیں مولانا مودودی کا ایک واقعہ یاد آگیا، جو پروفیسر خورشید احمد نے کہیں لکھا ہے۔ وہ کچھ یوں ہے کہ مولانا کے پاس ایک یورپی اسکالر ان کے ہیڈ کوارٹرز واقع منصورہ (لاہور) ملاقات کے لیے آیا۔ مولانا نے اس کی تواضع جلیبیوں سے کی کہ منصورہ کے حلوائی بہترین مٹھائی بناتے ہیں۔ یورپی مہمان مزے لے لے کر جلیبیاں کھاتا رہا، لیکن وہ ہر جلیبی کو معدے میں منتقل کرنے سے قبل اُسے اُلٹ پلٹ کر غور سے دیکھتا۔ آخر مولانا نے اس سے پوچھا کہ وہ جلیبیوں میں کس چیز کا مطالعہ کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا، ’’مولانا مَیں وہ ٹیکنالوجی جاننے کی کوشش کر رہا ہوں، جس کی مدد سے آپ لوگ اس پیچیدہ ٹیوب کے ہر حصّے میں شیرہ داخل کردیتے ہیں؟‘‘

دیسی ٹیکنالوجی کبھی کبھار ایسے گل کھلاتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہمارے ایک مرحوم دوست کا السی کے تیل کا کارخانہ تھا۔ اُنھوں نے اس میں پولینڈ کا ایک کرَشنگ پلانٹ لگوایا، جو منٹوں میں مَنوں بیجوں کا تیل نکالنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ پلانٹ کو کمپنی کے مقامی انجینئرز نے نصب کیا اور چلا کر دکھادیا۔ اس پر آجر اور کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور کام شروع ہوگیا۔تاہم، انجینئرز کے جانے کے دو گھنٹے بعد ہی پلانٹ کی اسٹیل کی بیلٹ ایک جھٹکے اور زور دار آواز کے ساتھ ٹوٹ گئی۔ کام بند ہوگیا اور مسرّت، حسرت میں تبدیل ہوگئی۔ بہرحال، انجینئرز کو اطلاع دی گئی، جنھوں نے دوسرے دِن آکر پلانٹ میں کچھ ٹھونک پیٹ کی اور نئی بیلٹ لگا کر چلے گئے۔ اس بار مشینری صرف ایک گھنٹے چلی اور پہلے کی طرح بیلٹ پاش پاش ہوگئی۔ پھر تو یہ روز کا معمول ہوگیا۔ اب کمپنی والے پرزوں کی تبدیلی کا معاوضہ بھی مختلف بہانوں سے وصول کرنے لگے، لیکن نیا پلانٹ چل کر نہیں دیا۔

یہ کارخانہ ایک رہایشی بستی میں واقع تھا، جہاں کے باشندوں سے ہمارے دوست کے برادرانہ مراسم تھے۔ ان میں ایک عُمر رسیدہ اَن پڑھ’’ کرخندار‘‘ بھی تھے، جنھیں سب لوگ ’’اُستاد‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ ایک دِن ہمارے دوست پریشانی کے عالم میں اپنی فیکٹری میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُستاد چائے پینے چلے آئے۔ اُنھوں نے پریشانی کی وجہ پوچھی، تو ہمارے دوست ٹال گئے اس لیے کہ معاملہ اُستاد کی ذہنی سطح سے بہت بُلند تھا۔ تاہم، اُستاد کے بے حد اصرار پر محض رسمی کارروائی کے انداز میں انھیں مسئلے سے آگاہ کیا گیا۔ اُستاد نے کہا کہ اگلی بار جب انجینئر آئیں، تو مجھے بھی بلالیں۔انجینئٔرز کو تو آنا ہی تھا۔ہمارے دوست نے یہ سوچ کر اُستاد کو بلوا لیا کہ بعد میں گلہ کریں گے۔ جوں ہی پلانٹ نے تازہ مرمّت کے بعد کام شروع کیا، اُستاد اس کا ہر طرف سے سراغ رسانی کے انداز میں جائزہ لینے لگے۔ وہاں موجود ماہرین ان کی اس حرکت سے متاثر تو کیا ہوتے،محظوظ ضرور ہوئے۔ اچانک اُستاد پکار اُٹھے ’’روکو، روکو ،مشین بند کرو۔‘‘مشین بند کردی گئی۔ اُستاد’’دو منٹ میں آتا ہوں‘‘ کہہ کر باہر چلے گئے اور اپنے ساتھ سگریٹ کے آٹھ دس خالی پیکٹ لے کر لوٹے۔ وہ پیکٹ اُنھوں نے بڑی مہارت اور احتیاط سے پلانٹ کے تین چار نچلے حصّوں میں زمین کے ساتھ پائی جانے والی جھریوں میں اس طرح ٹھونس دیے کہ وہ بَھر گئیں۔ پھر انھوں نے پلانٹ کا سوئچ آن کروایا۔ اب جو مشین چلی، تو چلتی ہی رہی۔ اُستاد نے بتایا کہ نچلے حصّے میں جگہ جگہ خلا کی وجہ سے پورے پلانٹ کا توازن بگڑا ہوا تھا، اس لیے بیلٹ میں ارتعاش پیدا ہوتا تھا اور وہ ٹوٹ جاتی تھی۔ اُستاد کو معاوضے کی پیشکش کی گئی، تو اُنھوں نے صرف اتنا کہا ’’آج چائے کے ساتھ ایک کھارا بسکٹ بھی منگوالو۔‘‘

دیسی مہارت کا سود مند تجربہ ایک مرتبہ ہمیں بھی ہوا۔ ہماری گاڑی بار بار گرم (heat-up) ہوجاتی تھی۔ ایک کے بعد دوسرا میکینک اس پر طبع آزمائی کررہا تھا۔ کسی نے ریڈی ایٹر کی مرمّت کی اور کسی نے الیکٹرک کا کام کیا۔ چھوٹے موٹے کاموں کے بعد جب نوبت انجن تک آپہنچی، تو ہمارا ڈرائیور اسے اپنے جاننے والے ایک بوڑھے اور ریٹائرڈ مستری کے گھر لے گیا۔ بڑے میاں تمام رُوداد سُن کر اپنے اُجلے کپڑوں کے ساتھ ہی گاڑی کے نیچے چلے گئے۔ منٹ بَھر بعد وہ وہاں سے پلاسٹک کی ایک تھیلی نکال لائے، جو ریڈی ایٹر کے نچلے حصّے میں چپکی ہوئی تھی۔ اس تھیلی نے ریڈی ایٹر کے اندرہوا کا داخلہ بند کردیا تھا، جو حرارت کا سبب بن رہا تھا۔ ڈرائیورکے بےحد اصرار پر اُنھوں نے اس کام کے لیے صرف مٹھائی کا ایک ڈبّا قبول کیا۔آخر میں ’’جلیبی ٹیکنالوجی‘‘ پر یاد آیا، تقریباً ہر گھر میں سال میں ایک بار یعنی رمضان المبارک میں کھجلے اور پھینی کا بہت استعمال کیا جاتا ہے۔کبھی غور کیا کہ کس طرح کاری گر کھولتے ہوئے، گھی کے کڑھائو میں میدے کا پیڑا ڈال کر اپنے ہاتھ کی مسلسل جنبش سے پہلے میدے کے تار بناتا ہے اور پھر کس طرح ان تاروں کو ایک دوسرے کے اُوپر لپیٹ کر لچّھے بناتا ہے اور آخر کار ان لچّھوں کو پھینی کا روپ دیتا ہے۔ پھر جب یہ کرتبی ہاتھ ذرامختلف انداز میں چلتے ہیں، تو وہی پیڑا پھول کر پپڑی دار کھجلے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دودھ اور شکر کے ساتھ ان دونوں غذائوں کا ذائقہ اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اسے کھائے، تو اس کی تلخ کلامی، شیریں بیانی میں بدل جائے۔

تازہ ترین