• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عبد التوحید خان،کراچی

مایوسی اور تنائو کیسی کیفیات ہیں کہ تقریباً ہر دوسرا فرد ان میں مبتلا نظر آتا ہے۔اصل میں تناؤ ہماری دو عملی کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف توہم زندگی کی آسایشوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، مگردوسری جانب اس کی تیز رفتاری کا ساتھ بھی نہیں دینا چاہتے۔اور یہی دو عملی ذہنی تناؤ کو جنم دیتی ہے۔علاوہ ازیں،منفی جذبات، نفرت، خوف، حسد، بے اعتمادی، بغض، کینہ اور لالچ بھی تنائو کا سبب بن جاتےہیں۔اگرمایوسی کی بات کی جائے، تواس سے انکار نہیں کہ دنیا کا ہر فرد زندگی میں کبھی نہ کبھی مایوسی کا شکارضرور ہوتا ہے کہ تمام خواہشات کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔ہم اپنی زندگی میں مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہیں،کچھ خواب بھی دیکھتے ہیں اور ان کی تعبیر کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں، لیکن بعض اوقات حالات سازگار نہیں ہوتے یا قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے، تو یہ عدم تکمیل ہمیں مایوسی کے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے۔

عام طو پرتناؤ اور مایوسی کا احساس تب ہی ہوتا ہے، جب کوئی دیرینہ خواہش پوری نہ ہو رہی ہو۔تنائو کی شدّت ہر فرد میں مختلف ہوسکتی ہے۔ بعض افراد میں یہ احساس زیادہ شدید نہیں ہوتا،تو کچھ میں خطرناک حد تک پایا جاتا ہے۔جب کہ مایوسی کے شکار افراد اپنی زندگی کے اہم معاملات، فیصلے اور اقدامات دوسروں کے مشورے اور مدد سے کرتے ہیں اور اپنی ناکامیوں کا ذمّے دار بھی حالات اور دیگر افراد ہی کو ٹھہراتے ہیں۔

عمومی طور پر تنائو کسی حقیقی یا تصوراتی مسئلے کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ قابلِ برداشت تنائو ہمیں تحریک دے کر مقابلے کے لیے تیار کرتا اور کام یابی سے ہم کنار کردیتا ہے۔اس کے برعکس شدید تنائو ایک مرض ہے، جو زندگی میں ایسی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہوتا ہے، جن کی توقع ہی نہ ہو۔ جیسے کوئی غیر متوقع حادثہ وغیرہ۔ تنائو کی کیفیت دِل کی دھڑکن اور سانسیں تیز کردیتی ہے اور بعض اوقات جسم پر لرزہ بھی طاری ہوجاتا ہے۔ 

اس حالت میں نہ تو دِن پُرسکون گزرتے ہیں اور نہ ہی نیند آرام دہ ہوتی ہے۔ تنائو یا مایوسی اگر خود اپنی ہی سوچ کا مظہرہے،تو ہم اسے شکست بھی اپنے ارادے اور عمل ہی سے دے سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ تناؤ سے محفوظ رہنے کے لیے حالات اور رویّوں کو مثبت انداز سے دیکھنا شروع کردیں۔ ان سے سبق حاصل کریں اور آگے بڑھ جائیں۔یاد رکھیں، کوئی بھی چیز بہ ذاتِ خود اچھی یا بُری نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی شے تشویش یا فکر مندی کا باعث ہوتی ہے۔ اصل میں ہمارے سوچنے کا غلط انداز ہمیں تشویش اور وسوسوں میں مبتلا کردیتا ہے۔فکر مند ہونے سے حالات تبدیل ہوتے ہیں اور نہ ہی رویّے، لہٰذا تفکرات بھول کر مُسکرائیں کہ یہی زندگی ہے۔ تنائو اور مایوسی دُور کرنے کے لیے نہ صرف ان کے اسباب کا جائزہ لیں، بلکہ حقائق قبول بھی کرلیں۔ ہر کسی سے اپنی پریشانیوں کا اظہار نہ کریں۔کیوں کہ’’مَیں پریشان ہوں یا مَیں دنیا کا ناکام فرد ہوں‘‘ اس طرح کے جملے یا منفی جذبوں کا اظہار تناؤ کو مزید بڑھاوا دیتا ہے۔ اپنی زبان سے طنز و تحقیر، نفرت و حقارت، طعن و تشنیع کے تیر نہ چلائیں۔ 

آپ جو بھی الفاظ استعمال کریں،ایک لمحے کو سوچیں ضرور کہ اگر کوئی دوسرا آپ کے لیے یہی الفاظ استعمال کرے، تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ چینی مفّکر، کنفیوشس کا قول ہے کہ ’’جب تم غصّے میں آئو، تو اس کے بعد کے نتائج سوچ لو۔‘‘ سو، اپنے غصّے پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو، تو اس کا اس مہذب انداز میں اظہار کریں کہ کسی کا دِل میلا نہ ہو۔ غصّہ دُور کرنے کے لیے تنہائی میں آئینے کے سامنے خود کو گھور کر دیکھیں۔ اگر پھر بھی غصّہ کم نہ ہو، تو تنہائی میں خود ہی سے دِل کی بھڑاس نکال لیں۔ کسی مثبت کام میں مصروف ہوجائیں۔مثلاً چائے کا اہتمام شروع کردیں۔ کپڑوں کی الماری صاف کرلیں اور سب سے بہتر تو یہ ہے کہ غصّہ دلانے والے فرد یا جگہ سے وقتی طور پردُوری اختیار کرلی جائے۔علاوہ ازیں،دوسروں سے کُھل کر بات کریں۔ انکار کرنا سیکھیں، تاکہ آپ خود پر کاموں کا غیر ضروری بوجھ نہ ڈالیں۔ تنائو کا ایک سبب جلد بازی بھی ہے، لہٰذا جلد بازی سے حتی الامکان گریز کریں۔

اور…یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ہمارے پاس وہی سب کچھ لوٹ کر آتا ہے، جو ہم دوسروں کو دیتے ہیں کہ یہ دنیا ’’عملِ بازگشت‘‘ کی مثال ہے۔اسی لیے ہمیشہ مُسکراتے اور خوشیاں پھیلاتے رہیں۔ اشفاق احمد نے ایک بہت عمدہ اور پتے کی بات کہی کہ ’’نیکیاں کرتے رہو اور دریا میں ڈالتے رہو۔ جب کبھی زندگی میں طوفان آیا، تو یہی نیکیاں تمہارے لیے کشتی بن جائیں گی۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ اگر آج آپ کسی نااُمید کے دِل میں اُمید کا دیا جلاتے ہیں،تو کل اس کی روشنی آپ کا دِل بھی منور کرے گی۔

تازہ ترین