• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوامِ متحدہ کا سالانہ اجلاس، نئی حکومت کا امتحان

نواز شریف اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا گئے، تو اُن کی ملاقات صدر باراک اوباما سے بھی ہوئی۔ اُس ملاقات کی کہانی بڑے دِل چسپ پیرائے میں بیان کی گئی تھی۔ بہرحال، اِس بار پہلے تو یہی کہا جارہا تھا کہ وزیرِ اعظم، عمران خان جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کریں گے، لیکن اب شاید یہ ذمّے داری وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کو دی جا رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا سالانہ اجلاس ہر سال ستمبر میں ہوتا ہے، جس میں اس کے 193 رُکن ممالک کے سربراہان کو جنرل اسمبلی سے خطاب کا موقع ملتا ہے۔ اس اجلاس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ دنیا سے خطاب کر کے اپنی پالیسیز کی وضاحت کا موقع مل جاتا ہے۔ نیز، اجلاس کے دَوران دنیا کے اہم رہنماؤں سے ملاقات اور عالمی برادری سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے بھی نادر مواقع ملتے ہیں۔ نواز شریف سے بھارتی وزیرِ اعظم کی ایک اہم ملاقات نیویارک کےایک ہوٹل میں ہوئی تھی۔ اسی طرح ،صدر روحانی نے انتخابات جیتنے کے بعد اپنے نیوکلیئر معاہدے کے لیے مذاکرات کی راہ نیویارک میں ہونے والی ملاقاتوں ہی میں ہم وار کی تھی۔ عمران خان اپنی وکٹری اسپیچ میں دنیا سے اچھے تعلقات کے عزم کا اظہار کر چُکے ہیں، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی کی یہی گائیڈ لائن ہے۔ درحقیقت، خارجہ امور پاکستان کے لیے ہمیشہ ہی سے چیلنج رہے ہیں، مگر اب تو امریکا سے خراب تعلقات بہت سنگین صُورت اختیار کر چُکے ہیں۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں امریکا، چین، بھارت، افغانستان، عرب مُمالک اور ایران کا نام لے کر ان کا ذکر کیا تھا۔ بعدازاں، وزیرِ خارجہ نے ان معاملات کی مزید وضاحت ایک پریس کانفرنس میں کی۔توقّع کی جا سکتی ہے کہ اقوامِ متحدہ کا اجلاس نئے اور پُرعزم وزیرِ اعظم کی سرپرستی میں پاکستان کو ڈپلومیسی کے خارِ زار سے نکالنے کا ایک اچھا موقع فراہم کرے گا۔

عمران خان جاتے تو دیگر مُمالک کے سربراہان سے ملاقات مشکل نہ ہوتی، پھر یہ کہ اگر امریکی صدر سے بات چیت کا موقع ملتا، تو اس سے بہت سی توقعات وابستہ ہوجاتیں اور یہ بھی پتا چل جاتا کہ آیندہ دونوں مُلکوں کے تعلقات کس نہج پر جائیں گے، لیکن اب وزیرِ خارجہ کو اعلیٰ امریکی حکّام سے بات چیت کا موقع ملے گا۔ یہ دو طرفہ رابطے کسی کی اَنا، عزّت یا بے عزّتی کا معاملہ نہیں، بلکہ واشنگٹن اور اسلام آباد کی دُوری نے اس طرح کے رابطوں کو ضروری بنادیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد سے سربراہ سطح پر کوئی ملاقات نہیں ہوسکی، صرف اُن کی نواز شریف سے ایک یا دو مرتبہ ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی تھی، تاہم حال ہی میں سیکریٹری آف اسٹیٹ نے نئے وزیرِ اعظم سے بات چیت کی۔ پاک، امریکا تعلقات کے پُلوں کے نیچے سے بہت زیادہ پانی گزر چکا ہے، بلکہ اس وقت تو سیلابی ریلے گزر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیاء سے متعلق پالیسیز اور عالمی سیکیوریٹی پالیسی ،دونوں ہی پاکستان میں شدید تنقید کا نشانہ بنیں۔ تحریکِ انصاف نے اُنہیں مکمل طور پر مسترد کیا تھا۔ پھر صدر ٹرمپ کا اس سال کے آغاز میں وہ ٹویٹ، جس میں اُنہوں نے پاکستان پر 32 بلین ڈالر امداد اور ڈبل پالیسی کا الزام لگایا تھا، پاکستان میں مسترد کیا گیا۔ تحریکِ انصاف کا تو اس حوالے سے موقف خاصا شدید تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ خارجہ اور سیکیوریٹی پالیسیز میں سویلین حکومت کا بہت کم کردار ہوتا ہے، تاہم جب عالمی فورمز یا جمہوری مُلکوں سے بات چیت ہوتی ہے، تو سِول حکومت ہی سامنے ہوتی ہے اور اسی کی بات کو معتبر سمجھا جاتا ہے، چاہے پسِ پردہ کچھ بھی ہو۔ عمران خان انتخابات تک امریکا اور صدر ٹرمپ کے شدید ناقد رہے ۔ وہ کہتے رہے کہ’’ دہشت گردی کے خلاف جنگ، امریکی جنگ ہے، جس میں ہمیں حصّہ نہیں لینا چاہے۔‘‘جب کہ امریکا اور عالمی برادری کا موقف ہے کہ’’ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے، جس سے باہمی تعاون ہی سے نمٹا جاسکتا ہے۔‘‘ بیانات اپنی جگہ، مگر اس میں کوئی دورائے نہیں کہ شدّت پسندی کے خاتمے کے لیے پاکستان نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں۔’’ ضربِ عضب‘‘ اور’’ ردّالفساد‘‘ جیسے کام یاب آپریشنز کیے گئے بلکہ اس سلسلے میں اسلام آباد نے ہر سطح پر امریکا اور دوسرے مُمالک سے تعاون کیا، جس سے دونوں ممالک کے فوجی اور سفارتی حکّام بہ خوبی واقف ہیں۔ شاید امریکی عوام کے لیے تو پاک، امریکا تعلقات بنیادی مسئلہ نہ ہو، لیکن پاکستانی اسے بہت اہمیت دیتے ہیں۔ عمران خان اور تحریکِ انصاف ماضی میں امریکا مخالف رہے ہیں۔ نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے دیے گئے، جن کی قیادت خود عمران خان نے کی اور اس پر میڈیا میں بہت واہ، واہ بھی حاصل کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی حکومت کے لیے امریکا کو یہ یقین دلانا ممکن ہوگا کہ وہ یوٹرن کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انتخابی نعرے ایک الگ بات ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئی حکومت مُلکی مفادات کی خاطر امریکا سے تعلقات متوازن کرنے کے مشکل فیصلے کر سکے گی؟ اس میں اس معاملے پر سیاسی جماعتوں کی تنقید سہنے کا کتنا حوصلہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا وہ عوام کو امریکا سے متعلق پالیسی پر رضا مند کرسکے گی؟

اُدھر امریکا میں بھی ایک بہت مشکل صدر، ٹرمپ کی شکل میں موجود ہیں۔ وہ اپنی جنوبی ایشیا کے لیے پالیسی کا اعلان اور اسلام آباد کے سامنے اپنے مطالبات بھی رکھ چکے ہیں۔ جن میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی، حقانی نیٹ ورک، دہشت گردوں کی پناہ گاہوں جیسے معاملات اہم ہیں۔ اب بھارت کا عُنصر بھی ان معاملات میں داخل ہوچکا ہے۔ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کے امریکا سے تعلقات کے بیان کے بعد، امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ نے کہا کہ’’ اُن کی حکومت، نئی پاکستانی حکومت کے ساتھ کام کرنے میں دِل چسپی رکھتی ہے۔‘‘تاہم اُنہوں نے ڈُومور کی شرط کو دہرایا۔ ایلس نے کہا’’ پاکستان، طالبان کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرے یا پھر واپس افغانستان دھکیل دے، نہ کہ ان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی جائیں۔‘‘ پھر سیکریٹری آف اسٹیٹ اور عمران خان کی ٹیلی فون گفتگو کا تنازع کھڑا ہوگیا۔ یہ ٖ ٹیلی فون کال امریکی عُہدے دار نے وزیرِ اعظم کو نئی حکومت سنبھالنے پر مبارک باد دینے کے لیے کی تھی۔ امریکا نے بتایا کہ اس فون کال میں’’ دہشت گردی پر مزید کام کرنے کا بھی کہا گیا۔‘‘ تاہم، پاکستان نے اس بات سے انکار کیا، لیکن جب امریکا کے ترجمان سے پوچھا گیا، تو اُنہوں نے اپنے اسی مؤقف کا اعادہ کیا۔ اس پر بڑی بدمزگی ہوئی، لیکن پاک، امریکا تعلقات میں اس قسم کی اونچ نیچ پر حیرت نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ یہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کا خاصّہ ہے۔ یہ بداعتمادی، ٹرمپ دَور سے شروع نہیں ہوئی، بلکہ اوباما دَور میں بھی یہی صُورتِ حال تھی۔ امریکی سینیٹ اور کانگریس کا بھی یہی مؤقف ہے۔ اس لیے اسے کسی امریکی لیڈر کی انفرادی پالیسی یا اس کی دشمنی کہہ کر رَد نہیں کیا جاسکتا۔ شاید امریکی سپورٹ فنڈ ، فوجی تعاون اور ایف16 پر بات کرنا تو سرِدست فوری ممکن نہیں، اس لیے کہ ہمارے رہنما کہتے رہے ہیں کہ’’ ہمیں ایڈ نہیں، ٹریڈ چاہیے‘‘ اور پھر اس سے اور آگے جا کر کہا گیا کہ’’ ٹریڈ بھی نہیں، صرف قربانیوں کا اعتراف چاہیے۔‘‘ اس کا کیا مطلب تھا، یہ کبھی ٹھوس انداز میں نہیں بتایا گیا۔ ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ پہلے پاکستانی لیڈرز اور عوام کہتے تھے کہ ہمیں امریکا سے نفرت ہے۔ اب خود امریکا کا صدر پاک، امریکا تعلقات کو خراب قرار دے رہا ہے۔ امریکی حکّام، اسلام آباد سے اپنی نفرت اور ناپسندیدگی کا کُھلے عام اظہار کر رہے ہیں، یعنی بیچ میں جو باریک سا سفارتی پردہ تھا، وہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ کیا عمران خان کی حکومت میں وہ عزم، سفارتی لچک اور مہارت موجود ہے کہ وہ امریکا کے سامنے مؤثر طریقے سے اپنے مطلب کی بات رکھ اور مطالبات منوا سکے۔ یہ ہار، جیت یا منہ توڑ جواب دینے کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ پاکستان کے مفادات کو آگے بڑھانے کی بات ہے، جس میں سفارتی کمال اور تدبّر کی ضرورت ہے۔ نیز، اس طرح کے معاملات میں صبر اور حوصلے کی ازحد ضرورت ہوتی ہے، خاص طور پر علاقے میں ہمارے قریبی دوست تُرکی اور ایران جن مسائل سے نبردآزما ہیں، اُن کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے بہت بردباری اور دُور اندیشی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارت کے وزیرِ اعظم، نریندر مودی کی جگہ وزیرِ خارجہ، سُشما سوارج جنرل اسمبلی میں ہوں گی۔ تاہم، کسی کے آنے جانے سے زیادہ اہم بات، جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد کے سربراہ کی تقریر ہوگی۔ کشمیر دونوں مُلکوں کے درمیان بنیادی تنازع ہے، اس لیے دیکھنا ہوگا کہ نئی حکومت عالمی فورم پر اس کا کس انداز میں ذکر کرتی ہے۔یہی تقریر دونوں مُلکوں کے درمیان آنے والے تعلقات کی سمت طے کرے گی۔ جنرل اسمبلی سے خطاب میں برہان وانی کا ذکر نہ کرنے پر تحریک انصاف اور پی پی پی نے نواز شریف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، یہاں تک کہ اُن پر کشمیر کو بھارت سے دوستی کی خاطر قربان کرنے کا بھی الزام لگا۔ شاہ محمود قریشی کی جانب سے کوئی اس طرح کی بات کی جاسکتی ہے، جس سے کشمیر پر اسلام آباد کا مؤقف کم زور نہ ہو اور دونوں مُلکوں کے درمیان امن اور بات چیت کا پیغام بھی چلا جائے۔ اس ضمن میں اقوامِ متحدہ میں متعیّن پاکستانی سفیر کو پوری احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ گزشتہ سال اُنہوں نے بھارتی وزیرِ خارجہ کی تقریر کے جواب میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے ثبوت کے طور پر جو تصویر پیش کی تھی، اس پر بڑا تنازع ہوا۔ کہا گیا کہ یہ فلسطین کی ہے اور اس کے فوٹو گرافر نے اس بات کی تصدیق ہی نہیں کی، بلکہ اُس پر عالمی ایوارڈ لینے کا بھی بتایا۔ اس معاملے پر کوئی تحقیق یا سرزنش سامنے نہیں آئی۔ سفارت کی اعلیٰ سطح پر ایسے جذباتی پن کا مظاہرہ نہ دہرایا جائے۔ اقوامِ متحدہ جیسے عالمی فورم پر ڈپلومیسی، ٹھنڈے دماغ کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ اپنے مُلک میں عوامی مقبولیت کی سند حاصل کرنے کی جگہ نہیں، بلکہ دنیا کے سامنے پاکستان کا امیج بلند کرنے کا اسٹیج ہے۔

گزشتہ دنوں نوجوت سدھو کی عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا بڑا چرچا رہا۔ کچھ مبصّرین نے تاثر دیا کہ یہ کسی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا حصّہ ہوسکتا ہے۔ سدھو عمران خان کے پرانے دوست ہیں، لیکن اُن کا تعلق کانگریس سے ہے، جو اس وقت حکم ران جماعت، بی جے پی سے انتخابی جنگ لڑ رہی ہے۔سو، کیا اپوزیشن کانگریس کے ایک سِکھ رُکن سے بی جے پی کی حکومت میں کسی مؤثر ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی شروعات کی توقّع کی جاسکتی ہے؟ بھارتی میڈیا میں سدھو کی پاک فوج کے سربراہ سے بے تکلفی اور اُن کے مطابق جنرل باجوہ کا یہ کہنا کہ’’ پاکستان امن چاہتا ہے‘‘ کا بھی بڑا ذکر ہوا۔ سدھو کے مطابق ،پاک فوج کے سربراہ نے فراخ دلی کا مظاہرہ کر کے سِکھ یاتریوں کو بابا گرو نانک کی سال گرہ پر راہ داری فراہم کرنے کی بھی پیش کش کی۔ یہ قابلِ تحسین قدم ہے، جو سِکھ کمیونٹی کے دِلوں کو چُھوتا ہے۔ دیکھا جائے، تو یہ مذہبی رواداری کی بہترین مثال ہے، لیکن کیا اسے بھارت میں بھی اسی طرح لیا گیا۔ نہیں، وہاں سدھو پر غدّاری کے مقدمے قائم کردیے گئے۔ یاد رہے ،سدھو کا تعلق سِکھ کمیونٹی سے ہے، جب کہ بھارت میں ہندؤوں کا غلبہ ہے۔ دوسال قبل بھارتی صنعت کار نے، جو نواز شریف کے ذاتی دوست اور بی جے پی کے بہت قریب تھے، ایسی ہی ڈپلومیسی کے لیے مَری میں میاں صاحب سے ملاقات کی، تو تحریکِ انصاف، پی پی پی اور بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں نے ایک طوفان برپا کر دیا۔ حالاں کہ جسے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا ذرا سا بھی علم ہو، بتائے کہ کیا یہ ڈپلومیسی سڑکوں، گلیوں اور جلسوں میں کی جاتی ہے؟ اس کا عوام کی نظروں سے اوجھل ہونا، تو کام یابی کی پہلی شرط ہے۔ وزیرِ اعظم، عمران خان کہہ چکے ہیں کہ’’ بھارت اگر ایک قدم بڑھائے گا، تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔‘‘ نئے وزیر خارجہ نے پہلی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ’’ بھارتی وزیرِ اعظم نے اپنے خط میں بات چیت کی دعوت دی ہے‘‘، مگر بھارت نے فوراً ہی اسے مسترد کردیا۔ پاکستانی دفترِ خارجہ کو بھی وضاحت کرنی پڑی کہ یہ صرف اُن کا تاثر تھا، لیکن پھر ایک اور پریس کانفرنس میں شاہ محمود قریشی نے سُشما سوارج کو مخاطب کر کے مذاکرات کی دعوت دی۔ یوں پاکستان تو تین قدم اٹھا چکا ہے اور بھارت ایک قدم اٹھانے میں بھی پس وپیش کر رہا ہے، بلکہ اس کی طرف سے سرد مہری کا اظہار واضح ہے۔اب جنرل اسمبلی کے فورم سے اسلام آباد کا کیا پیغام جاتا ہے، یہ اہم ہوگا۔

پاکستانی وفد کے سربراہ کو نیویارک میں یورپی اور عالمی لیڈروں سے بھی ملنے کا موقع ملے گا۔ جہاں تک یورپ یا جنوب مشرقی ایشیا کے مُلکوں کا تعلق ہے، وہ سب نیک تمنائوں کا بہت کُھل کر اظہار کریں گے کہ یہی اخلاقی خوش دِلی اُن کی ڈپلومیسی کی بنیاد ہے۔ اسے ہمارے میڈیا اور خاص طور پر حکومتی حلقوں کی جانب سے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یوں تاثر دیا جاتا ہے کہ گویا دنیا فتح کر لی گئی ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی وفد سے ملاقاتوں میں دنیا کو یہ جاننے کا موقع ضرور ملے گا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان کے سیاسست میں آنے کے بعد کیا تبدیلی آئی ہے۔ باتوں میں جتنی نرمی اور خُوب صورتی نظر آتی ہے، وہ سفارت اور ٹھوس اقتصادیات اور مالیات میں ڈھلتے ہوئے بہت سے ناخوش گوار جوابات کا تقاضا کرتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف اس کی ایسی ہی شکل ہے۔ اس میں بنیادی لفظ عمل یا ایکشن ہے۔دنیا دیکھے گی کہ جس سربراہ سے بات ہورہی ہے، اس کا مُلک کس پوزیشن کا حامل ہے۔ اگر وہ تبدیل ہونا چاہتا ہے، تو کس سمت میں اور کتنی جلدی۔ روڈ میپ تیار ہے یا صرف باتوں ہی سے کام چلایا جارہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس مُلک کی اقتصادی صلاحیت کس نوعیت کی ہے۔یقیناً خزانہ، خارجہ اور انسانی حقوق کی وزارتوں کو اس کا جواب دینے کے لیے زبردست تیاری کرنا ہوگی ،لیکن ذمّے داری کا اصل بوجھ وزیرِ خزانہ اور وزیرِ خارجہ پر ہوگا۔ اگر مقصد صرف تعریفی تجزیے لکھوانا ہے، تو فتح ہوچکی ۔اپنے سوشل میڈیا پر تحسین ہی تحسین بھی آسان ہے، لیکن اگر دنیا سے کوئی ٹھوس نتائج لینے ہیں، اقتصادی میدان میں واقعی پیش رفت کرنی ہے، تو یہ مراحل پُلِ صراط سے گزرنے کے برابر ہوں گے۔

بہت سے ناقدین کا خیال ہے کہ اقوامِ متحدہ کا سالانہ اجلاس محض ایک رسم ہے، لیکن شاید اُنھیں یاد نہ ہو کہ ایرانی صدر، روحانی نے اپنے پہلے انتخاب کے فوراً بعد، ایسے ہی ایک اجلاس میں شرکت کر کے دنیا کو قائل کیا کہ ایران سے نیوکلیئر ڈیل ہی امن کا بہترین راستا اور ایرانی ایٹمی مسئلے کا حل ہے۔ اُن کی امریکی صدر سے ملاقات تو نہیں ہوئی، تاہم ایران، جو امریکا کو شیطان کہتا تھا اور امریکا، جو ایران کو برائی کا محور کہتا تھا، اُن کے درمیان یہ خوش گوار تبدیلی دیکھی گئی کہ صدر اوباما نے ٹیلی فون پر صدر، روحانی سے نیویارک کے اچھے موسم میں سیر کرنے کی بات کی، جب کہ ایرانی صدر نے امریکی صدر کا شُکریہ ادا کرکے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ برف پگھلی اور چار سال بعد نیوکلیر ڈیل ہوگئی۔ امید ہے، پاکستانی وفد کے سربراہ بھی اس اجلاس میں کوئی ایسا راستا تلاش کرسکیں گے، جس سے مُلک کے لیے آسانیاں پیدا ہوسکیں۔

تازہ ترین