• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018 کے عام انتخابات کا آخری مرحلہ منگل کو نئے صدر مملکت کے انتخاب کے ساتھ بخیر و خوبی مکمل ہو گیا اگرچہ کامیاب امیدوار کے نام کا باقاعدہ اعلان بدھ کو چیف الیکشن کمشنر خود کریں گے لیکن سینٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی مجموعی عددی اکثریت کی حمایت اور اپوزیشن میں ہونے والی تقسیم نے تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کی فتح کو زیادہ آسان اور یقینی بنا دیا۔ اپوزیشن پارٹیاں اگر متحد رہتیں اور ان کے مقابلے میں مشترکہ امیدوار کھڑا کرتیں تو مقابلہ سخت اور دلچسپ ہوتا مگر مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں نے متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پیپلزپارٹی نے بیرسٹر اعتزاز احسن کو میدان میں اتاردیا۔ پیر کی رات گئے تک ان دونوں میں سے کسی ایک کو دستبردار کرانے کیلئے کوششیں جاری رہی ہیں جو بالآخر ناکام ہو گئیں اور حکمران پارٹی اپنے امیدوار کو آسانی سے صدر منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئی موجودہ صدر ممنون حسین کی میعاد 8ستمبر کو ختم ہونے والی ہے اس لئے توقع ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی 9ستمبر کو ملک کے 13ویں صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، منتخب صدر عارف علوی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر اس مرتبہ کراچی سے دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے وہ ایک تجربہ کار پارلیمنٹیرین، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پختہ کار سیاستدان ہیں انہوں نے 1964 میں سٹوڈنٹس پالیٹکس سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ تحریک انصاف میں شروع ہی سے وہ وزیراعظم عمران خان کے بااعتماد ساتھی رہے اور کراچی میں پارٹی کو مقبول بنانے میں انہوں نے نہایت فعال کردار ادا کیا۔ وہ واضح کر چکے ہیں کہ صدر منتخب ہونے کے بعد تحریک انصاف سے استعفا دے دیں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے وہ کسی پارٹی کے نہیں، پورے پاکستان کے صدر ہوں گے اور غیر جانبدار رہ کر ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ ڈاکٹر عارف علوی کے صدر منتخب ہونے سے جہاں عمران خان کی وفاقی حکومت مزید مضبوط ہوئی ہے وہاں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا ہے۔ اگرچہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اور آئین کی دفعہ58ٹو بی کے خاتمے سے صدر مملکت کے عہدے کی حیثیت بڑی حد تک محض نمائشی رہ گئی ہے مگر قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر عارف علوی امور مملکت میں وزیراعظم عمران خان کے موثر مددگار ثابت ہوں گے۔ الیکشن سے پہلے میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے خود کہا ہے کہ وہ بطور صدر ممنون حسین بنیں گے نہ آصف زرداری یعنی نہ محض نمائشی نہ مختار مطلق۔ وہ وفاق کے نمائندے کے طور پر چاروں صوبوں میں یک جہتی کی علامت ہوں گے عمران خان نے جس طرح صوبائی گورنروں کو عوامی مسائل کے حل میں سرگرم رہنے کا اختیار دیا ہے اسی طرح صدر مملکت کو بھی فعال بنائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عارف علوی نے پانی سمیت ملک کے کئی بڑے مسائل کی نشاندہی کر کے ان کے حل میں عملی کردار ادا کرنے کی بات کی ہے۔ ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور عام آدمی کے مسائل کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ جمہوری مزاج کے حامل ہیں اس لئے صدر کی حیثیت سے محض ایوان صدر میں بیٹھے رہنے اور فائلوں پر دستخط کرنے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عمران خان کے ’’تبدیلی‘‘ کے نظریے کے فروغ میں بھرپور کردار ادا کریں گے ان کے انتخاب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ متحدہ اپوزیشن اب متحد نہیں رہی دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طرف پیپلزپارٹی ہے تو دوسری جانب مسلم لیگ ن، اس تقسیم کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں رہا۔ یہ صورت حال مایوس کن ہے ملک کے بہتر اور روشن مستقبل کے لئے جہاں ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے وہاں مضبوط اپوزیشن بھی ضروری ہے جو حکمرانوں کو سیدھے راستے سے بھٹکنے نہ دے۔ توقع ہے کہ منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی حکومت اور اپوزیشن میں توازن قائم رکھنے کے لئے جماعتی سیاست کی بجائے اجتماعی مفاد کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔

تازہ ترین