• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرض کریں آپ ایک نوجوان ہیں، تازہ تازہ کالج سے گریجویشن کی ہے، اب کسی غیرملکی یونیورسٹی سے بہت ہی نادر قسم کی ڈگری لینے کے خواہش مند ہیں، چونکہ آپ قابل ہیں اس لئے امریکہ اور برطانیہ سے نیچے کہیں ٹھہرتے ہیں نہیں سو برکلے، سٹینفورڈ، آکسفورڈ، ہاورڈ، کیمبرج میں بیک وقت داخلے کی درخواست ڈال دیتے ہیں، ان میں سے کسی ایک یونیورسٹی میں آپ کی درخواست قبول کر لی جاتی ہے۔ اپنی قابلیت کے زعم میں آپ نے ایسے کورس کا انتخاب کیا تھا جس کے مضامین خاصے کٹھن تھے مگر کوئی بات نہیں، جب امریکہ کی ٹاپ یونیورسٹی میں پڑھنا ہو تو مشکل کورس کا ہی انتخاب کرنا چاہئے، دو برس ہی کی تو بات ہوگی، اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا، سب لوگ بلائیں لیں گے۔ یہی سوچ کر آپ سامان باندھتے ہیں اور امریکی یونیورسٹی جا پہنچتے ہیں جہاں دنیا کے قابل ترین پروفیسر آپ کے منتظر ہیں، پہلا دن بہترین گزرتا ہے، دوسرا دن بھی ٹھیک گزر جاتا ہے، تیسرا دن مشکل ہے، چوتھے دن آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ نے کچھ زیادہ ہی مشکل کورس کا انتخاب کر لیا ہے، مضامین بھی پیچیدہ ہیں، اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کی طرح باقی لوگ بھی یونیورسٹی سے ڈگری ہی حاصل کرنے آئے ہیں، مگر انہوں نے قدرے آسان کورس منتخب کیا ہے، آپ کے مقابلے میں یہ لوگ زیادہ موج مستی کرتے ہیں، ان کی کلاسیں بھی کم ہیں ، مضامین بھی آسان ہیں، اب آپ سوچتے ہیں کہ میں بھی اگر کسی آسان کورس کا انتخاب کر لیتا تو کوئی حرج نہیں تھا، ڈگری تو مل ہی جانی تھی، اسی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل کہلانا تھا، خواہ مخواہ اپنی زندگی عذاب میں ڈالی۔ سوچنے کے اِس انداز کو، جس میں انسان وقت کے ساتھ اپنے فیصلے تبدیل کرتا ہے، Theory of Dynamic Inconsistencyکہتے ہیں ۔

میرا اور میرے ایک دوست کا خیال ہے کہ ہم وقت بہت ضائع کرتے ہیں، مراد یہ ہے کہ میں اُس کا اور وہ میرا وقت ضائع کرتا ہے، روزانہ دیر سے سو کر اٹھتے ہیں، سارا دن جمائیاں لینے اور فضول باتیں سوچنے میں گزار دیتے ہیں، کوئی کتاب پڑھنے بیٹھتے ہیں تو کسی کا فون آجاتا ہے، فون سُن کرفارغ ہوتے ہیں تو سوشل میڈیا کھول لیتے ہیں، اُس سے بور ہوتے ہیں تو کہیں روٹی کھانے چلے جاتے ہیں، اس کے بعد ہمیں نیند آ جاتی ہے اور یوں دن تمام ہو جاتا ہے۔ ایک روز ہم نے سوچا کہ کیوں نہ یہ سُستی بھری روٹین بدلی جائے، دنیا کے عظیم آدمی صبح سویرے اٹھتے ہیں، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب دماغ تروتازہ ہوتا ہے، اس وقت کوئی فون آتا ہے اور نہ کوئی کام میں خلل ڈالتا ہے، اسی وقت دانشور لوگ کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، صبح کاذب کا وقت ویسے بھی با برکت ہوتا ہے، چڑیاں اپنے خالق کی حمدوثنا میں مصروف ہوتی ہیں (حوالہ مضمون صبح کا سہانا منظر)، اچھوتے خیالات کی آمد بھی اسی وقت ہوتی ہے۔ یہی سب سوچ کر ہم دونوں نے طے کیا کہ ہفتے میں تین دن صبح چھ سے نو بجے ہم اکٹھے ہوا کریں گے، کسی ایک علمی موضوع پر مکالمے کے انداز میں بحث ہوگی جسے ریکارڈ کیا جائے گا اور اس سے پہلے اُس موضوع کے بارے میں چیدہ چیدہ مضامین بھی پڑھے جائیں گے، گویا باقی کا ہفتہ اِن تین دنوں کی علمی گفتگو کی تیاری میں لگایا جائے گا، یوں ایک برس میں ایسی اعلیٰ پائے کی کتاب تخلیق ہو جائے گی جیسی افلاطون نے سقراط کے ساتھ مکالمہ کرکے لکھی تھی۔ تین ہفتے قبل پیر کے روز میں ٹھیک صبح چھ بجے اپنے دوست کے گھر پہنچ گیا، ہم دونوں نے ایک دوسرے کو وقت کی پابندی اور اپنی کمٹمنٹ کی داد دی، تین گھنٹے کچھ بے معنی گفتگو کی اور پھر اس وعدے کے ساتھ محفل برخاست کی کہ آئندہ زیادہ تیاری کے ساتھ ملا جائے گا۔ وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ یہtheory of dynamic inconsistency کی دوسری مثال ہے جسے میں اپنی زبان میں نظریہ ’’سُست الوجودیت‘‘ کہتا ہوں۔

ہم انسان بھی عجیب ہیں، جو فیصلہ ہم اپنی ذات کو سامنے رکھ کر اپنے بارے میں کرتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ اپنی ذات کے بارے میں وہی فیصلہ ہم تبدیل کر لیتے ہیں، دراصل وجہ اِس کی یہ ہے کہ فیصلہ تبدیل کرتے وقت ہماری ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں اور ترجیحات کی یہ تبدیلی مسلسل بھی ہے اور متضاد بھی۔ مثلاً آج کسی نوجوان کی ترجیح یہ ہو سکتی ہے کہ وہ یونیورسٹی سے کوئی ایسی ڈگری لے جو بے شک مشکل ہو مگر کم لوگوں کے پاس ہو تاکہ مستقبل میں اُس کی مانگ ہو، مگر اسی نوجوان کی ترجیح وقت کے ساتھ بدل بھی جاتی ہے، پھر اُس کی ترجیح مشکل ڈگری حاصل کرنا نہیں رہتی بلکہ کوئی ایسی ڈگری حاصل کرنا ہو جاتی ہے جو آسان ہو کیونکہ اب اُس کی ترجیح سہل پسندی ہو چکی ہے۔ اسی طرح ہم دوستوں کو اچھی طرح علم ہے کہ اگر ہم ہفتے میں دو تین دن بھی اکٹھے ہو کر صبح سات سے دس بجے کسی ایک موضوع کے بارے میں پڑھ کر بحث کو ریکارڈ کر لیں تو چھ ماہ میں ہمارے پاس اچھا خاصا مواد اکٹھا ہو جائے گا جس سے کتاب بنے نہ بنے ہمیں کچھ نہ کچھ علم ضرور حاصل ہوگا، مگر جب کام کرنے کا وقت آیا تو ہم نے خود اپنی ترجیحات بدل ڈالیں، کچھ نئے بہانے تراشے اور ایک دن کے بعد ہی اِس مشقت سے دستبردار ہو گئے، وجہ وہی کہ ہماری ترجیح علم کے حصول سے بدل کر صبح کی نیند پوری کرنا ہو گئی۔ انسان وہی رہتا ہے مگر وقت اُس کی ترجیحات تبدیل کر دیتا ہے، ایک ہی انسان ایک ہی قسم کی صورتحال میں بالکل مختلف فیصلہ کرتا ہے بشرطیکہ وقت تبدیل کر دیا جائے کیونکہ وقت کے ساتھ اُس کی ترجیحات بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ایک سمجھدار قسم کے پروفیسر نے اس بات کو نہایت خوبصورت مثال سے یوں سمجھایا کہ اگر لوگوں کو کہا جائے کہ تم آج 500ڈالر لو گے یا کل 505ڈالر لینا پسند کرو گے تو زیادہ تر لوگ آج 500ڈالر لینے کو ترجیح دیں گے مگر انہی لوگوں کو کہا جائے کہ ایک سال کے بعد 500ڈالر لینا پسند کرو گے یا ایک سال ایک دن بعد 505ڈالر لینے کو ترجیح دو گے تو وہی لوگ اب 505ڈالر لینے کو ترجیح دیں گے جو پہلے ایک دن بھی انتظار کرنے کی بجائے 500ڈالر لینے کو سود مند سمجھتے تھے۔لوگ بھی وہی ہیں، پیسے بھی اُتنے ہی ہیں، صرف وقت کے ہیر پھیر نے ترجیح بدل دی اور لوگوں کا فیصلہ بدل گیا۔

اس گنجلک مسئلے کا حل کیا ہے؟ حل آسان نہیں، کیونکہ یہ انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے ،خود کو دھوکہ دینے سے بھی نہیں چوکتا اور اپنے آپ سے جھوٹے وعدے کرتا ہے ۔اِس سے اندازہ لگا لیں کہ ہم انسان کس قدر خطرناک مخلوق ہیں، اگر ہم اپنے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ جب لوگ آپ کے منہ پر بیٹھ کر سفید جھوٹ بولتے ہیں تو آپ حیرت سے اُن کی شکل تکتے ہوئے سوچتے ہیں کہ کوئی ایسی ڈھٹائی بھی دکھا سکتا ہے، مگر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ ہم خود اپنے آپ سے جھوٹ بول سکتے ہیں تو دوسروں سے کیوں نہیں۔ حل اس مخمصے کا یہی ہے کہ اپنی طبیعت کو مد نظر رکھ کر فیصلے کریں، اگر صبح کی نیند پیاری ہے تو چھ سے نو بجے علمی بحث کا منصوبہ نہ بنائیں، اگر علم پیارا ہے تو پھر اس منصوبے کو لچک دار رکھیں، اگر کوئی کام آج نہیں ہو سکتا تو خود کو فریب دے کر دل کو یہ تسلی نہ دیں اگلے ہفتے کر لوں گا/گی، اگلے ہفتے بھی وہی آپ ہوں گے اور وہی آپ کی طبیعت۔ کچھ کرنا ہے تو ابھی کر ڈالیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین