• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بمع امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈن فورڈ آج اسلام آباد میں جلوہ افروز ہوا چاہتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ بُرے موڈ میں، پاکستان کے سنگین حالات میں ’’ڈومور‘‘ کی فہرست تھمانے آرہے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دو روز پہلے ہتھیارڈال دیئے، ’’امریکہ سے تعلقات میں بہتری کے لیے افغانستا ن میں امریکی ضرورتوں کا ادراک کرنا ہوگا‘‘۔ موجودہ حالات میں اس سے زیادہ کچھ کہنا ممکن نہ تھا۔ ایک سال پہلے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا بیان، ’’امریکہ جو چار آنے دے رہا ہے وہ بند کر دے، ہم گزارہ کر لیں گے‘‘، اس وقت یہ بیان دینا ممکن تھا کہ اقتصادی حالات بہتر تھے۔ سیاسی استحکام کی ہائی پروڈکٹ اقتصادی نمو ۔کسی ملک میں اقتصادی خوشحالی، درخشانی، تابندگی نہیں دیکھی جہاں سیاسی ابتری، افراتفری آماجگاہ بنا لے۔

’’اسلحہ کے لیے چین، چین کیلئے آپ کا یہ خادم بھٹو‘‘، یہ سنہری الفاظ 1971ء میں چین روانہ ہونے سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے تھے، ایسے موقع پر جبکہ شرپسند اور غدار مشرقی پاکستان کی اندر کی چولیں ہلا چکے تھے۔ پاکستان بھارت کے خلاف جنگ کی دہلیز پر، 23سالہ وطنی زندگی جان بلب ہونے کو۔ چین سے اسلحہ ملا ضرور، کام آیا یا نہیں؟ تاریخ میں سب درج ہے۔ المیہ، پاکستان بچ نہ پایا، آج ایسے قصہ پارینہ جیسے رات گئی، بات گئی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے 57سال بعد، پاکستان اسی طرز پر، تاریخی اقتصادی بحران میںمملکت جاں بلب۔ بحران سے نکلنے کا واحد باعزت راستہ، چینی خزانے کا منہ، کیا پاکستان کے لیے کھلنے کو؟ اور کیا بحران سے نکل پائیں گے، چین لڑکھڑاتے اقتصادی توازن میں کیش رقم ڈال کر، استحکام کی کنجی بن پائے گا؟ بہت دماغ لڑایا، زمین آسمان کے قلابے ملائے۔ چین کی آغوش کے علاوہ کہیں بھی تو جائے اماں نہیں ہے۔ ’’پیسے کے لیے چین، چین کے لیے عمران خان، کیا فٹ کیس ہے‘‘۔ آنے والے چند ہفتوں میں سب کچھ عیاں ہوجائے گا۔ پچھلے پانچ سال چین کے دم سے راوی نے چیّن لکھا کہ نواز شریف چین سے چیّن لانے میں کامیاب رہے، ہمارا اقتصادی بھرم قائم رہا۔

اقتصادی بحالی ہوا چاہتی تھی کہ یکدم 2014ء سے یکے بعد دیگرے سیاسی بھونچال شروع ہوئے۔ نواز شریف حکومت ختم، خود بمع بیٹی جیل۔ نئی حکومت قائم ہوئی تو اقتصادی بحران ساتھ ہی تھا۔ 2014ء شروع ہنگاموں کا ٹارگٹ ایک ہی، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف سے چھٹکارا، نواز شریف آج جیل میں، مگر ملک شدید بحران میں۔ قطع نظر کہ ذمہ داری کس کے کندھوں پر، وطن عزیز گھمبیر و عمیق قیمت ادا کرنے کے خطرے سے دوچار ہے۔ امریکہ کو جانچنے کے لیے،ہمارے ساتھ کیا سلوک رواں رکھے گا، افلاطونی فلسفہ درکار نہیں۔ مملکت اسلامیہ الباکستانیہ نہتی، عاجز، مار کھانے کے لیے اس سے ابتر کبھی بھی نہ تھی۔ تھوڑا سا دباؤ، بازو کے فقط ایک مروڑ نے ہڈیاں چٹخا دینی ہیں۔ بڑے سے بڑے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا، امریکہ کے لیے ممکن رہے گا۔ صدر ٹرمپ کی سالِ نو پر پاکستان بارے ٹویٹ سے لیکر چند دن پہلے کولیشن سپورٹ فنڈ میں 300 ملین ڈالر (8ماہ میں 800ملین ڈالر) کی معطلی، اقتصادی بحران میں دھکیلنے اور مکمل بدحالی کی گرفت میں لانے کی عملیات کا ایک تسلسل ہے۔ ڈومور منوانا آسان سے آسان تر ہے۔IMF کے بیل آؤٹ پیکیج کی جانب جانے سے پہلے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا فرمان جاری۔ مفہوم اتنا کہ IMF پیکیج کی موجودگی میں چین کو Sovereign Guarantte دی جا سکے گی اور نہ ہی فنڈ انشورنس گارنٹی کے لیے استعمال ہوگا۔ عمران حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے بہت پہلے، ہمارے اداروں نے خطرے کو بھانپتے ہوئے، اسلامی ترقیاتی بینک سے متبادل اقتصادی امدادی مد میں چار بلین ڈالر کا پیکیج (تقریباً)منظور کروا رکھا تھا۔ اسلامی ترقیاتی بینک پر سعودی اثر و رسوخ بین ہی اس طرح جیسے IMF امریکی ہدایات و اشاروں پر۔ مان لیں کہ اسلامی ترقیاتی بینک سے ملنے والی امداد، امریکی اشاروں سے منسلک و پابند رہنی ہے۔

ان حالات میں امریکی وزیر خارجہ پاکستان قدم رنجا فرمانے کو۔ گوبنیادی اور اصل منزلِ مقصود،بھارت ہے۔ بھارت یاترا سے پہلے پاکستان کی خبر گیری اور مطالعاتی ایجنڈے پر وعدے وعید نے پومپیو کے دورہ بھارت کو نہ صرف چار چاند لگانے ہیں، بھارت میں امریکی عزائم پروان چڑھانے میں ممدو معاون رہنا ہے۔ لمبی بحث کہ سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ نے امریکہ اور بھارت کا ایک جان دوقالب بننا یقینی تھا۔ امریکی اور بھارتی مفادات منطبق ہوچکے ہیں۔ امریکہ ہمیشہ کے لیے ایشیا اور خطے میں بھارتی خوشنودی مقدم رہنی ہے۔ مت بھولیں کہ پومپیو کی وزیر اعظم پاکستان کو مبارکبادی فون کال پر دو ملکوں میں سفارتی تضاد دیکھ چکے ہیں۔ امریکی ترجمان نے بار بار،بغیر لفظ چبائے پاکستانی مؤقف کی تردید کی۔ پاکستان کو تیور جتلانا ہی تو تھا۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ وزیر اعظم اور ان کے چند قریبی رُفقاء کے ساتھ عسکری قیادت کے 8گھنٹے میل جول، ملاقاتوں میں کیا گفتگو رہی ہوگی،کیا بیتنی تھی؟ یقیناً تشویشناک حالات میں سنجیدہ گفت و شنید رہنی تھی۔ تصاویر میں دونوں اطراف کے تنے چہروں پر چھائی سنجیدگی، تفکرات خدشات کی شدت اُجاگر کر رہی تھی۔ ایک بات ثبت کہ کابینہ کی پہلی 3میٹنگز میں نئی حکومت کو حالات کی سنگینی کا قطعاً ادراک نہ تھا۔ ضروری، سطحی مسائل میں اُلجھی نظر آئی۔ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیر اعظم سے ملاقات ہو یا GHQ میں وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ فُل ورکنگ دن کی گزر اوقات، فکر و فاقہ، تفکرات، خدشات آنے والے دنوں میں لاحق مشکلات اور پریشانیوں کا بندوبست کرنا اور سول ملٹری سر جوڑ حل ڈھونڈنے کے لیے غور و خوض کرنا، انتہائی ضروری تھا۔ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم وفد کے تنے چہرے، اُڑے رنگ، گو مخالفین مزاحیہ انداز میں تبصروں سے نواز رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ حالات حاضرہ کی پُر پیچ اور گھمبیر سنگینی نے حاضرین مجلس پر متفکرانہ سنجیدگی، طاری رکھنا تھی۔ عسکری قیادت کو کابینہ کی پہلی تین میٹنگز میں ترجیحات کے تعین نے متفکر کرنا تھا۔ فرق صاف ظاہر ہے، GHQ سے واپسی پر وزیر اعظم اور کابینہ کے بیانات، معمولات،ترجیحات میں تبدیلی نمایاں آ چکی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر جو کئی ہفتوں سے ٹامک ٹوئیوں، جانچ پڑتال اور معلومات اکٹھی کرنے میں مصروف تھے۔ بریفنگ سے اگلے دن اسد عمر کا نپا تلا بیان، ادراکی بیانیہ ہی تو ہے۔

’’ہمیں وہ کچھ کرنا ہوگاجو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس FATF کرنے پر زور دے رہے ہیں، یہ سب کچھ کرنا ہمارے اپنے بہترین مفاد میں ہے‘‘۔ پچھلے سال یہی کچھ مطالبہ چین کے زیر نگرانی منعقدہ ’’برکس‘‘ اعلامیے میں سامنے آیا۔ امریکہ کے پھیلائے جال بلکہ شکنجے سے نکلنے کے بظاہر تمام طریقے ناقص ہوچکے۔ راہیں مسدود نظر آتی ہیں۔ 25سال ہم بذریعہ سیٹو (SEATO)،سینٹو (CENTO) اور کئی دوسرے معاہدے امریکی اتحادی رہے۔ 35سال کرائے پر اور بحیثیتCLIENT ریاست کام کیا اور اب نیا اور آخری دور بحیثیت دشمن اپنا جہاں پیدا کرنا ہے۔ پچھلے سال سے جاری ترکی کے خلاف اقتصادی جنگ، ترکی جیسے مستحکم ملک سہار نہیں پارہے۔ پاکستان گھمبیر معاملات سے کیسے نبردآزما ہوگا؟ جنرل مشرف اور کولن پاول فون کال آج بدروح بن کر عمران خان پومپیو ملاقات ہمارے سامنے ہے۔ سارے مطالبات من و عن مانے تو مرتے ہیں، رد کرتے ہیں تو مرتے ہیں۔ کل یوم دفاع، نئے جوش و جذبے سے منانے کو ہیں۔2018ء کے الیکشن قوم کو مزید تلخی دے گئے۔ ایک طرف سنگین اقتصادی بحران دوسری طرف منقسم قوم، کیسے نبرد آزما ہونگے؟ آج امریکی وزیر خارجہ اپنے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈن فورڈ کے ساتھ، اسلام آباد پہنچنے کو۔

کم سے کم امریکی آداب کا تقاضا، جامع مدعا اس وقت سامنے نہیں آئے گا جب تک باہمی گفت و شنید باقاعدہ اختتام پذیر نہیں ہو جاتیں۔ اتنا یقین کہ دباؤ کئی گنا بڑھ جائے۔ افغان پالیسی میں ملفوف چین کے قدم جمنے سے پہلے اکھاڑنے کے لیے باقاعدہ اجزائے ترکیبی منوائی جائے گی۔ ایران کا مکو ٹھپنے کے لیے کرنے کے کام دیں گے۔ پاکستان کا مؤقف واضح کہ افغانستان میں امریکی افواج جنگ ہار چکیں۔ اپنا بوریا بستر سمیٹیں اور ویت نام طرز پر ذلت و خواری کا طوق گلے میں ڈالے واپس امریکہ سدھاریں جبکہ امریکی وزیر خارجہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج کے لیے تمام شرائط ماننے پر رضامند ہوجائے۔ اعصابی جنگ کا ماحول رہنا ہے۔ امریکہ کو پاکستان کے معاشی بحران کی شدت، وسعت، گہرائی اچھی طرح معلوم ہے۔ امریکی وزیر خزانہ کے فوراً بعد چینی وزیر خارجہ پاکستان میں ہوں گے۔ دونوں ملکوں نے امریکی شرائط سے نبٹنے کا طریقہ کار وضع کرنا ہے۔ اس میں انکار نہیں کہ پاکستان کا استحکام اور مضبوطی چین کی شہ رگ بن چکی ہے۔ ہمارا استحکام چین کی جتنی ضرورت آج، ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ ایرانی وزیر خارجہ ظریف کا دورہ پاکستان بھی کم و بیش انہی حدود وخطوط اور معاملات سے منسلک رہا ہوگا۔ باوجودیکہ پاکستان غیر محسوس طریقے سے ایران کے خلاف امریکی پالیسیوں کی ممکنہ مدد کر رہا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں اتحادی فوجیں ایران کی پشت پناہ پر موجود یمنی حوثیوں سے لڑ رہی ہیں۔ پاکستان نے کسی نہ کسی طریقے ایران کے ساتھ تعلقات استوار رکھے، پابندیوں میں حاصل آزادی رکھی۔ ایران بارے امریکہ کے کچھ مزید مطالبات رہنے ہیں۔ پچھلے 3سالوں سے روس، چین، ایران اور پاکستان کا نیا تزویراتی بلاک وجود میں آچکا ہے۔ پاکستان اسی زنجیر کی کمزور مگر اہم کڑی ہے۔ امریکہ اس کڑی کے ذریعے زنجیر توڑنے کو۔ ہمارے عسکری اور سیاسی قائدین کے لیے کڑا امتحان۔ امریکہ پاکستان کو فکس کرنے کو،پاکستان اپنی جان بچانے کو۔ اے میرے قوم! اپنی اپنی سیٹ بیلٹس کَس لیں کہ آنے والے دنوں کا سفر ہچکولوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین