• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عمران خان نے جب سے سیاست میں قدم رکھا ہے وہ ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے بلدیاتی اداروں کوترکی اور مغربی ممالک کی طرز پر مضبوط کرنےکے ساتھ ساتھ تر قیاتی فنڈ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی بجائے بلدیاتی اداروں ہی کو مختص کرنے کی ضرورت پر زور دیتے چلے آئے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں قانون ساز اداروں کا کام قوانین میں ترامیم کرنا اور نئے نئے قوانین کو متعارف کروانا ہے جبکہ ترقیاتی فنڈ صرف بلدیاتی اداروں ہی کے لیے مختص کیے جاسکتے ہیں کیونکہ ان کا اصل مقصد علاقائی رہن سہن، گلی کوچوں، سڑکوں، ٹریفک ، آمدو رفت، رسل و رسائل ، نکاسیِ آب ، پلوں، پانی ، گیس کی فراہمی اور شہر کی صفائی ستھرائی کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا اور مقامی لوگوں کو دور دراز واقع دارالحکومت جانے کے بجائے خود ہی اپنے علاقے میں ان مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے جبکہ اراکین پارلیمنٹ یہ ترقیاتی فنڈ صرف اپنی نشست مضبوط بنانے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

نئی حکومت کے اختیارات سنبھالنے کے بعداب ملک میں بلدیاتی اداروں کےمنظم طریقے سے کام کرنے کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کے زیرصدارت اجلاس میں بلدیاتی نظام کوبہتربنانے کیلئے مختلف تجاویزکاجائزہ لیا گیا اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جاچکی ہے جو ملک میں نئے بلدیاتی نظام کو متعارف کروانےیا نیا اصلاحاتی نظام متعارف کروانے کا بیڑہ اٹھائے گی۔ وزیراعظم عمران خان اس سے قبل لاہو رمیں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکی صوبائی کابینہ کو بلدیاتی نظام میں بہتری لانے کی ہدایات کرچکے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں بلدیاتی نظام گراس روٹ تبدیلی کے لیے بہت اہم ہے اور عام آدمی ان اداروں تک با آسانی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کسی بھی جمہوری حکومت نے ملک میں بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کی جانب کبھی کوئی توجہ نہیں دی ہے بلکہ فوجی ڈکٹیٹرز ہی نے ملک میں عوام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بلدیاتی اداروں کو استعمال کیا ہے۔ بلدیاتی اداروں کی دنیا بھر میں اہمیت کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ بلدیاتی ادارے عوام کے مقامی اور علاقائی مسائل حل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہوتے ہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو سیاستدانوں کی پہلی تربیت بلدیاتی اداروں ہی میں کی جاتی ہے اور قومی سیاست میں داخل ہونے سے پہلے امیدواروں کو بلدیاتی اداروں میں عملی تربیت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ بلدیہ میں عوامی خدمات کا سرٹیفکیٹ لے کر ہی کوئی قومی سیاست میں داخل ہونے کا حقدار بنتا ہے لیکن تربیت اور تجربے کا یہ کورس ان ملکوں میں جاری رہتا ہے جہاں جمہوریت عوامی ہوتی ہے اور قانون ساز اداروں میں عوام کے حقیقی نمائندے ہوتے ہیں۔ اگرپاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح پر مضبوط بنایا جائے اور ان تمام علاقوں میں سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی ٹریننگ اکیڈمی بنانے کا موقع فراہم کردیا جائے تو نچلی سطح پر ہی جماعت کو بھی مضبوط بنانے کو موقع میسر آئے گا۔ہمارے سامنے ترکی کی مثال موجود ہے۔ ترکی کے صدرایردوان نے اپنی سیاست کا آغاز استنبول کی ایک چھوٹی سی تحصیل سے کیا تھا اور پھر انہوں نے استنبول بلدیہ کے مئیر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئےاور اس شہر کی کایا پلٹ کر رکھ دی ۔ اب ہر سال کئی ملین افراد اس شہر کی سیر و تفریح کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ایردوان کے مئیر استنبول کے دور ہی میں پورے ملک کے عوام کو اس بات کا پختہ یقین ہوگیا تھا کہ ایردوان اگر مئیر استنبول کی حیثیت سے چند سالوں کے اندر اس شہر کو دنیا کے خوبصورت ترین اور اعلیٰ معیار کے شہروں میں شامل کروانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو ملک کا وزیر اعظم بننے کی صورت میں یہ کیا کچھ نہیں کرسکتے؟ عوام کی اسی سوچ اور حمایت نے ان کو ملک کا وزیراعظم منتخب کروایا اور ایردوان نے بھی ترکی کو دنیا کے سولہویں بڑے اقتصادی ملک کا روپ دلوانے میں نمایا ں کامیابی حاصل کی اور اب وہ ملک کے صدر کی حیثیت سے ترکی کو دنیا کے پہلے دس ممالک کی صف میں شامل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ترکی میں اس وقت اکیاسی صوبے موجود ہیں لیکن یہ پاکستان کے صوبوں کے لحاظ سے بالکل مختلف ہیں۔ ان اکیاسی صوبوں میں صوبائی حکومتوں اور صوبائی اسمبلیوں کی جگہ بلدیاتی ادارے اور ان کے سربراہان یعنی میئر یا چیئرمین وغیرہ فرائض ادا کررہے ہیں۔ ان تمام بلدیاتی اداروں کو مختلف اقسام کے علاقائی ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات بھی حاصل ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں جمع ہونے والے ٹیکسوں کو علاقے کے عوام ہی کی خواہشات کے مطابق خرچ کردیا جاتا ہے۔ ترکی میں صدارتی نظام کو متعارف کروانے سے قبل تک وزراء اپنی وزارت سے زیادہ کسی بھی شہر کی مئیر شپ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں ۔

پاکستان میں مشرف دور کے بعد سے جس طرح بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور ترقیاتی فنڈز اراکین پارلیمنٹ اور سینیٹرز کو دیئے گئے اس سے پاکستان کے بلدیاتی اداروں کو ناقابلِ تلافی حد تک نقصان پہنچا ہے بلکہ اراکین پارلیمنٹ نے قانون سازی کرنے کے بجائے اپنی زیادہ تر توجہ ان ترقیاتی فنڈز کو حاصل کرنے اور اپنے مقاصد کے لیے خرچ کرنے پر مرکوز کی اور قانون سازی کی جانب آنکھیں بند کیے رکھیں ۔ عمران خان اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ ایک فعال اور مضبوط جمہوری نظام میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور اس ضمن میں بلدیاتی ادارے بے حد اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ یہ ادارے عوامی رائے کے اظہار کیلئے بنیاد فراہم کرتے ہیں اور اس طرح عوام کی حکومت میں شمولیت گراس روٹ لیول سے یقینی ہو جاتی ہے۔بلدیاتی اداروں اور ضلعی حکومتوں کی عدم موجودگی میں ترقیاتی پروگرام کیلئے مختص رقم کو خورد بُرد کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں کو مہیا کی جانیوالی رقم ایک عام شہری کے علم میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بارے میں ایک کونسلر سے آسانی سے پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے جب کہ وزیر اعلیٰ یہی کروڑوں روپے کی رقم نوکر شاہی سے مل کر خرچ کرتے ہیں اور اس کو مانیٹرکرنا ناممکن ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ترقیاتی مقاصد کے لیے مختص کی ہوئی رقم صرف ایک یادو شہروں پر خرچ کر دی جاتی ہے جیسا کہ شہباز شریف کے مخالفین ان پر پنجاب کے ترقیاتی فنڈ صرف لاہور پر ہی خرچ کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت نے ملک میں بلدیاتی انتخابات کروانے اور خیبر پختونخوا کے بعد پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں جدید طرز کے بلدیاتی ادارے تشکیل دینے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ ان اداروں کے قیام سے ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی اور مختلف شہروں کے مئیر کے درمیان اپنے اپنے شہر کو ایک دوسرے سے بڑھ کو خوبصورت بنانے کی دوڑ شروع ہو جائے گی جو ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ شہروں، قصبوں اور دیہات کو بھی مزید خوبصورت بنانے کا وسیلہ ثابت ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین