• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ملک کے 13ویں صدر کا انتخاب ہو چکا ہے۔اور پاکستان تحریک انصاف سے وابستگی رکھنے والے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی ملک کے 13ویں صدر کی حیثیت سے منتخب ہوچکے ہیں۔ گو کہ ملک کی کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں نے صدارتی انتخاب میں پورے جوش وخروش اور بھرپور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ اس الیکشن میں حصہ لیا ہے اور تمام بڑی جماعتیں اپنا صدر لانے کے لئے الیکشن سے چند گھنٹے پہلے تک جوڑ توڑ اور حکمت عملی وضع کرنے میں مصروف رہیں جن کی سرگرمیوں پر یہ گمان بھی ہوتا تھا کہ وہ ہرصورت میں اپنی پارٹی کا صدر لانے کی خواہشمند ہیں۔ ہرچند کہ آئینِ پاکستان میں 18 ویں ترمیم کے بعد صدر کے اختیارات خاصے محدود ہوگئے ہیں۔ لیکن صدر کے انتخاب کے موقع پر یہ بحث آج بھی جاری ہے کہ صدر کے اختیارات کیا ہیں اور صدر کا عہدہ ملک کے لیے کیوں ضروری ہے؟

یہ تجویز بھی پیش کی جا رہی ہے کہ صدر کے عہدے کو ختم کر کے کروڑوں روپے سالانہ کا خرچ بچا لیا جائے۔کیونکہ صدر کا منصب 18ویں ترمیم کے بعد محض ایک ’’نمائشی‘‘ بن کررہ گیا ہے۔ اور یہ تاثر اس منصب پر متمکن ہونے والے بعض صدور کی غیرفعالیت جس پر تقریباً گوشہ نشیبی کا گمان ہوتا تھا پیدا ہوا۔ تاہم اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے 18ویں ترمیم کے بعد صدر کے اختیارات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

٭بطورِ آئینی سربراہ صدرِ پاکستان کی چند مواقع پر اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ جب قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے یا اپنی آئینی مدت مکمل کر لے تو صدر ہی اپنی نگرانی میں عام انتخابات منعقد کراتا ہے۔

٭صدر کسی بھی ایسے پورے کے پورے قانون کو یا اُس کی چند شقوں کو نظرِ ثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج سکتا ہے جو اُس کے پاس پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد دستخط کے لیے آیا ہو۔

٭تمام وفاقی جامعات کے چانسلر صدرِ مملکت ہی ہوتا ہے۔

٭صدرِ پاکستان پارلیمان کے آئینی سال کے آغاز پر اُس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتا ہے اور ریاست کے رہنما اصول کی یادہانی کرائی جاتی ہے۔

٭صدرِ پاکستان کے پاس سزا یافتہ مجرمان کو معاف کرنے یا سزاؤں کو کم اور منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔

٭ایک عام تاثر ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صدر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حق کھو چکے ہیں جبکہ یہ حق اب بھی اُن ہی کے پاس ہے البتہ اب وہ یہ کام ازخود نہیں بلکہ وزیرِاعظم کی درخواست پر ہی کر سکتے ہیں۔ اب بھی اسمبلی صدرِ پاکستان کے حکم سے ہی تحلیل ہوتی ہے۔

٭صدرِ پاکستان مسلح افواج کے علامتی سپہ سالارِ اعلیٰ ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صدر مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری وزیرِاعظم کے مشورے کے مطابق کرنے کے پابند ہیں اور وہ افواج سے متعلق براہِ راست کوئی احکامات جاری نہیں کر سکتے۔

صدر کے انتخاب کے موقع پر بالخصوص یہ بحث ایک بار پھر زور پکڑ لیتی ہے کہ کیا صدرِ پاکستان کا عہدہ ضروری ہے۔ گزشتہ 5برسوں میں صدر کے منصب کے حوالے سے اس تاثر میں زیادہ شدت آئی کہ کیا واقعی صدر کا منصب ناگزیر ہے ؟ اگر اس منصب پر متعین ہونے والے فوجی صدور کے سیاسی کردار کا جائزہ لیا جائے تو پھر اس بارے میں موازنہ اور رائے قدرے متنازعہ ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی حلقے ایک غیر معمولی طور پر ’’فعال فوجی صدر‘‘ کے مقابلے میں غیر فعال سویلین صدر کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اِس عہدے کے پاس کوئی اختیار نہیں تو اسے ختم کر کے صدر کے دفتر سے بچنے والی خطیررقوم کو تعلیم پر خرچ کیا جائے۔ کسی کی رائے ہے کہ پارلیمانی نظامِ حکومت کو 70 سال تک آزمانے کے بعد اب صدارتی نظام کو بھی آزمانا چاہیے جبکہ چند کا کہنا ہے کہ پورے اختیار کے ساتھ اِس عہدے کو برقرار رکھنا چاہیے نہ کہ کٹھ پتلی کے طور پر۔جبکہ بعض ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ صدر کا عہدہ انتہائی ضروری ہے اور اِسے صرف اخراجات بچانے کی خاطر یا علامتی عہدہ ہونے کی وجہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کے مطابق عہدے کی ضرورت بعض موقعوں پر بہت بڑھ جاتی ہے اور ناگزیر ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں صدر کا عہدہ علامتی ہونے کے باوجود بھی اہمیت کا حامل تو ہے اور اِس سے عالمی سطح پر شناخت واضح کی جاتی ہے لیکن اِسے ختم کرنا ناممکن نہیں ہے۔ 'اگر پارلیمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ ایسی آئینی ترمیم لائی جانی چاہیے اور صدر کے دفتر کو ختم کرنا چاہیے تو اِس کا آئینی راستہ موجود ہے۔ تاریخی لحاظ سے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنانے یا اُسے پٹڑی سے اُتارنے دونوں میں صدرِ پاکستان کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بشمول برطانیہ میں اب یہ بحث جاری ہے کہ ایوانِ صدر کے اخراجات میں کمی لائی جائے اور اِس کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ خطیر اخراجات میں کمی کے اقدامات پاکستانی ایوانِ صدر پر بھی لاگو ہونے چاہییں۔

ملک کے 13ویں نومنتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی ۔۔۔۔ایک مختصر تعارف

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 13ویں صدر عارف علوی پیشے کے اعتبار سے دندان ساز ہیں جو 29 جولائی 1949ء کو کراچی میں پیدا ہوئے اور اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔انہوں نے ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ انکا شمار ملک کے معروف ترین دانتوں کے معالجین میں کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی میشیگن یونیورسٹی سے فارغ الاتحصیل عارف علوی پاکستان ڈینٹل ایسویس ایشن سے وابستہ رہے اور بطور صدر ایشیاء پیسیفک ڈینٹل فاؤنڈیشن میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ 69 سالہ عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے بنیادی ممبر ہیں اور انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز پولنگ ایجنٹ کے طور پر کیا۔1979 میں انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 89 سے انتخاب لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ڈاکٹر عارف علوی 1996 میں تحریک انصاف کا حصہ بنے اور اس کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں، وہ اُسی سال پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے ایک سال کے لیے رکن بنے جس کے بعد 1997ء میں انہیں پی ٹی آئی سندھ کا صدر بنایا گیا۔ عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے 2006ء سے 2013ء تک سیکرٹری جنرل رہے، وہ پہلی بار پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر عام انتخابات 2013ء میں حلقہ این اے-250 (کراچی-12) سے 77 ہزار سے زائد ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ 2013ء کے انتخابات میں عارف علوی واحد پی ٹی آئی امیدوار تھے جو سندھ سے منتخب ہوئے، 2016ء میں وہ پی ٹی آئی سندھ کے صدر اور 2018 کے عام انتخابات میں این اے247 سے ایک مرتبہ پھر سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔2016 میں عارف علوی کو پارٹی کا صوبائی صدر نامزد کیا گیا اور 25 جولائی کے انتخابات میں عارف علوی دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جبکہ 18 اگست کو پارٹی قیادت نے انہیں صدارتی امیدوار نامزد کردیا۔

تازہ ترین