• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 طارق کلیم

ہماری کلاسیکی اردو شاعری بالعموم اور غزل بالخصوص روایت پرستی کی طرف مائل تھی۔ غزل کا عمومی موضوع، عشق و محبت تھا اور عام طورپر اشعار میں محبت اور اس سے وابستہ کرداروں کا ذکر نظر آتا تھا۔ محبت کا اہم کردار رقیب بھی تھا، جسے کبھی عدو کہا گیا تو کبھی دشمن اور غیر۔ کلاسیکی غزل میں اس کردار کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی۔ راقم الحروف نے میر، آتش، مصحفی، مومن، شیفتہ، غالب اور داغ کے کلام کا مطالعہ کیا، اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کے یہاں ان اشعار کا تناسب کیا ہے، جن میں رقیب، غیر، دشمن یا عدو کا ذکر ہے۔ اس کے لیے ہر شاعر کے سو اشعار کا مطالعہ کیا گیا اور یہ حیرت انگیز نتیجہ برآمد ہوا کہ ان سب کے یہاں ان اشعار کا تناسب لگ بھگ دس فی صد ہے۔

راقم الحروف نے بیسویں صدی کے بھی چند شعرا کا اسی زاویۂ نظر سے مطالعہ کیا۔ اگر کسی شاعر کی کتاب غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے تو اس کتاب کی سب غزلوں کا اس زاویۂ نظر سے مطالعہ کیا اور اگر کسی کتاب میں محض غزلیں ہی ہیں تو سو اشعار کو دیکھ لیا، جو نتیجہ نکلا وہ پیش خدمت ہے۔

منیر نیازی کی کتاب ’’تیز ہوا اور تنہا پھول‘‘ کی غزلوں میں رقیب سے متعلق کوئی شعر نظر نہیں آیا، زہرا نگاہ کی کتاب ’’شام کا پہلا تارا‘‘ کے سو اشعار میں سے صرف ایک شعر برآمد ہوا، ظفر اقبال کی ’’آب رواں‘‘ کے سو شعروں میں سے کوئی شعر نہیں ملا، عبید اللہ علیم کی ’’چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں‘‘ میں سو میں سے ایک شعر ملا، ناصر کاظمی کے پورے دیوان میں ایک شعر ہے، مصطفیٰ زیدی کی ’’شہر آزر‘‘ کے حصہ غزل میں رقیب سے متعلق کوئی شعر نہیں، حمایت علی شاعر کی کتاب ’’حرف حرف روشنی‘‘ کے سو اشعار میں سے رقیب کے بارے میں کوئی شعر نہیں ملا، جمیل الدین عالی کی ’’لاحاصل‘‘ میں سو میں سے ایک شعر، صوفی تبسم اگرچہ کلاسیکی انداز کے شاعر ہیں، تاہم ان کے کلیات کے سو اشعار کا مطالعہ کیا تو ان میں سے بھی کوئی شعر دستیاب نہیں ہوا۔ فیض احمد فیض کی ’’نقش فریادی‘‘ کی غزلوں میں بھی رقیب کا ذکر نہیں ہے اور تو اور جگر مراد آبادی کی ’’شعلۂ طور‘‘ بھی اس معاملے میں کافی بخیل ثابت ہوئی۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا ایک جواب تو یہ دیا جاسکتا ہے کہ بیسویں صدی کے شعرا کے پاس موضوعات کی کمی نہیں ، ایک سے ایک نیا مضمون غزل میں آرہا ہے۔ شاعر اپنا خام مال ماحول سے لیتا ہے، بیسویں صدی کا سماجی ماحول تبدیل ہوا تو غزل کے موضوعات بھی تبدیل ہوگئے، یہ بات جزوی طور پر درست ہے۔ غزل کو نئے موضوعات مل گئے، مگر یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ غزل کا غالب موضوع تو اب بھی عشق و محبت ہی ہے۔ آج بھی غزل محبت اور اس کے متعلقہ معاملات کی عکاس ہے۔ محبوب بھی ہے، عاشق بھی موجود، فراق و وصال کا سلسلہ بھی ہے، جینے مرنے کی قسمیں بھی ہیں، اگر نہیں ہے تو بے چارا رقیب۔ کیا رقیب پر لکھنا محض ایک ’’فیشن‘‘ تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانا ہوگیا؟ یا ایک جیتا جاگتا کردار تھا، جس کی آج کل محبت میں گنجائش نہیں رہی؟ اگر یہ بات درست ہے تو وہ کون سے عوامل ہیں، جو راقیب کی بے دخلی کا باعث بنے؟

ہم جانتے ہیں کہ برصغیر کا معاشرہ ایک روایت پرست معاشرہ تھا۔ عورت اور خاص طورپر مسلمان عورت کے لیے پردہ لازمی تھا۔ گھر میں مردانہ اور زنانہ حصے علیحدہ ہوتے اور دن کے وقت گھر کے مردوں کو بھی زنان خانےمیںجانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایسی صورت میں مرد اور عورت کی ملاقات کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مرد اور عورت کی ملاقات کا امکان نہیں تھا تو عشق کہا ںسے آگیا؟

محبت کی ایک صورت، نو عمر لڑکوں سے بھی تھی، جس کا ذکر شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔ میر عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں تو غالب بھی ’’ سرہ خط‘‘ کا ذکر بڑی حسرت سے کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک غیر فطری محبت ہے اور عاشق کو محبت کا وہ رد عمل نہیں ملتا، جو فطری محبت کا خاصا ہے۔ اس عمر کے لڑکوں کی بہت سی دل چسپیاں ہوتی ہیں، اس کے ہم مکتب ہوتے ہیں، دوست ہوتے ہیں۔ ہم عمر عزیز رشتےدار ہوتے ہیں، جن کے ساتھ وہ خوش رہتا ہے۔ کسی محفل میں اس کی یہی خوشی عاشق کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے اور وہ نہ صرف یہ کہ محبوب، بلکہ اس کے دوستوں تک کو کوس ڈالتا ہے۔

رقیب کی بے دخلی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیسویں صدی میں جدیدیت اور اشتراکی تحریک نے انسان کو خود پر اعتماد کرنا سکھایا۔ برصغیر کا معاشرہ ہمیشہ غیر ملکی تسلط میں رہا، اس تسلط نے جہاں اور بہت سے سیاسی و سماجی اداروں کو نقصان پہنچایا، وہاں انسان کے ساتھ یہ ظلم بھی کیا کہ اسے اس اعتماد سے محروم کردیا، جو آزاد فضا میں سانس لینے سے آتا ہے۔ بیسویں صدی میں آزادی کی تحریکیں چلیں۔ کامل آزادی ملنے سے پہلے بھی جب احتجاج کے نتیجے میں اصلاحات کا کوئی پیکج ملتا تھا تو اس سے فرد کے اعتماد میں اضافہ ہوتا تھا، اس کو محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس دنیا کا حصہ ہے، جس کی خواہش کا احترام کیا جاتا ہے اور وہ معاملات سے بالکل لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ بعد میں نہ صرف یہ کہ ملک کو آزادی ملی، بلکہ جمہوریت سے بھی یہاں کا شہری روشناس ہوا، جس سے یقیناً اعتماد میں اضافہ ہوا، جس کا مطلب تھا رقیب کی موت۔ رقیب اپنی ذات پر بے اعتمادی کا نام بھی تو ہے۔ پر اعتماد انسان کے رقیب کم ہی ہوتے ہیں یہ تو ان ہی لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں، جو اس کی دولت سے محروم ہوں۔ خود کو کمزور اور حقیر اور دوسروں کو اعلیٰ وارفع جاننے والوں کا واسطہ رقیب سے زیادہ پڑتا ہے۔ آزادی اور پھر جدیدیت جو شرف آدمیت پر یقین رکھتی تھی، اس نے بھی انسان کو اس بے اعتمادی سے نجات دلائی، جس میں صدیوں سے جکڑا ہوا تھا۔ اس کا اثر صرف اپنی ذات پر ہی نہیں ہوا، بلکہ محبوب کی ذات پر بھی اس کا اعتماد بڑھا۔ اس کا مظاہرہ ان تعلیمی اداروں میں کیا جاسکتا ہے، جہاں مخلوط تعلیم ہو۔ یہاں اگر دو لوگ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہیں تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ ان میں کوئی کسی دوسرے کے ساتھ ہنس بول رہا ہے اور اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان کا اپنی ذات پر اعتماد بڑھ گیا ہے۔

آج کل ہم جس دور میں جی رہے ہیں اسے تو مابعد جدید دورکہتے ہیں ۔ یہاں تو ہر چیز کو مالی فوائد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہر چیز پر برائے فروخت کا بورڈ لگا ہے، جمالیات غیر اہم ہوگئی ہے اور اہمیت کسی بھی چیز کے افادی پہلو کو حاصل ہے۔ انسان کے جذبات اور احساسات کی اہمیت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ مشین اور کمپیوٹر کے فروغ سے انسانی رشتوں کی نوعیت تبدیل ہورہی ہے اور نہ جانے برصغیر میں مابعد جدید دور کے عشق کی کیا صورت ہوگی۔ وہی جو آج مغرب میں ہے یا اس سے مختلف۔ بہرحال اس کی صورت کچھ بھی ہو رقیب کی گنجائش نظر نہیں آتی۔

تازہ ترین