• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہریوں کو مفت تعلیم کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔بد قسمتی سے وطن عزیز میں حکومتی سطح پر اس آئینی ذمہ داری سے ہر دور میں کوتاہی برتی گئی اور اسی حکومتی غفلت نے تعلیم کو بھی منافع بخش کاروبار بنا دیا۔اس تنا ظر میں سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے نجی اسکولوں کی فیسوں میں5 فیصد سے زائد اضافے کو غیر قانونی قرار دینے کے حالیہ فیصلے سے بجا طور پر امید کی جاسکتی ہے کہ اس سے جہاں تعلیم کو ناجائز منافع کا ذریعہ بنانے والوں کی کسی حد تک حوصلہ شکنی ہوگی وہیں طلبا کے والدین پر بھی یک دم بوجھ نہیں بڑھے گا۔ مذکورہ فیصلے میں نجی اسکولوں کی انتظامیہ کو والدین سے 5 فیصد سے زائد وصول کی گئی رقم کی تین ماہ میں واپسی یا پھر ماہانہ فیس میں ایڈجسٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے واضح کیا کہ نجی اسکولز صوبائی حکومت کی منظوری کے بغیر پانچ فیصد بھی اضافہ نہیں کرسکتے ،اگر حکومت اخراجات کی تفصیل سے مطمئن نہ ہو تو اضافی فیس واپس دلواسکتی ہے۔ عدالت نے اسکول فیس پر عائد انکم ٹیکس پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا جبکہ صوبائی حکومت اور اسکولز انتظامیہ سے بھی جواب طلب کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2017 میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں ایک طالب علم کے تعلیمی اخراجات میںایک سال کے عرصے میں 153فیصد اضافہ ہوا۔2017میں ہی پیرنٹس ایکشن کمیٹی کے توسط سے دو ہزار والدین نے فیسوں میں اضافے کیخلاف درخواستیں دائر کیں۔جن پر سندھ ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے 51 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا ۔کیا ہی اچھا ہو کہ مرکزی و صوبائی سطح پر اس بات کا ادراک کیا جائے کہ عوام کو تعلیمی زیور سے آراستہ کرنا ریاستی ذمہ داری ہے اوراسے کسی طور صرف نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑا نہیں جاسکتا ۔ اس ضمن میں بنگامی بنیادوں پر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت اب ناگزیر ہوگئی ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین