• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج چھ ستمبر ہے۔53سال گزر گئے۔ نصف صدی سے زیادہ۔ مگر وہ 6ستمبر 1965اس عرصے میں ایک دن بھی نہیں بھولی۔

میں خوش قسمتی سے شہر ستمبر لاہور میں ہوں۔ ایک سال پہلے ہی فلسفے میں ایم اے کرکے فارغ ہوا ہوں۔ ایک ہفت روزے میں مدیر معاون تھا۔ ترقی پاکر ایک روزنامے کا میگزین ایڈیٹر مقرر کیا گیا ہوں۔

عجیب جوش و جذبہ ہے۔ کشمیر میںحریت پسندوں نے غاصب و قابض بھارت کے خلاف اعلان آزادی بلند کر رکھا ہے۔ سری نگر کی بیٹیاں بھی روزانہ سڑکوں پر آتی ہیں۔ بھارت سامراج کو للکارتی ہیں۔ ریڈیو پاکستان ہر روز ولولہ انگیز خبریں سناتا ہے۔ دنیا بھر میں کشمیر کی تحریک آزادی کا غلغلہ ہے۔ پاکستان بھی نوجوان ہے ہم بھی نوجوان ہیں۔ پاکستان 18سال کا ہے۔ ہم تین چار سال بڑے۔ کشمیر میں جیسے جیسے مجاہدین آزادی پیش قدمی کررہے ہیں یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ جھنجھلاہٹ میں آکر بھارت جوابی حملہ ضرور کرے گا۔ بھارتی وزیر اعظم کہہ چکے ہیں ہم اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے۔ 17سال تک بھارت پر راج کرنے والے وزیرا عظم جواہر لال نہرو سورگباش ہوچکے ہیں۔ اب بظاہر دھان پان کمزور پردھان منتری لال بہادر شاستری ملک کو چلارہے ہیں۔ وہاں قیادت کے مسائل بھی ہیں۔

ایک روز ہم معمول کے مطابق دفتر کے لئے روانہ ہوتے ہیں تو آسمان پر طیاروں کی گھن گرج سنائی دیتی ہے ماتھاٹھنکا ہے کہ جو ہونا تھا۔وہ ہورہا ہے۔ آگے بڑھتے ہیں تو پان کے خوانچے کے سامنے۔ دوسری دکانوں کے تھڑوں پر لوگ ریڈیو کے سامنے اکٹھے ہیں۔ شکیل احمد کی آواز گونج رہی ہے ۔ بزدل بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی ہے۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ گیارہ بجے صبح فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان قوم سے خطاب کررہے ہیں۔ اس وقت قوم صرف اس موجودہ پاکستان پر مشتمل نہیںہے بلکہ ایک ہزار میل دور ہمارے مشرقی پاکستانی بھائی بھی یہ خطاب سن رہے ہیں۔‘‘دشمن نہیں جانتا اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ جس کے دل لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے گونجتے ہیں۔ پاکستانی فوج کو حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ ہر محاذ پر دشمن کا منہ توڑ جواب دے۔ اب ہم حالت جنگ میں ہیں۔‘‘

مختصر سی تقریر نے اِدھر واہگہ سے کوئٹہ تک اُدھر چٹاگانگ سے ڈھاکا تک ایک والہانہ جذبہ پیدا کردیا ہے سب ایک ہورہے ہیں۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ اپنے سیاسی، لسانی، علاقائی، سماجی، فرقہ ورانہ اختلافات بھلاکر صرف اور صرف پاکستانی ہوگئے ہیں۔

صدر ایوب خان نے بھی اس نازک گھڑی میں سارے اپوزیشن رہنمائوں کو دعوت دی ہے ان سے صلاح مشورے کئے ہیں۔ سب یک آواز ہیں۔ سب نے اپنے اختلافات ایک طرف رکھ دئیے ہیں۔

سرحدوں پر پاک فوج کے جاں نثار۔ سر فروش ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایک نئے ملک کی نئی فوج کے لئے یہ پہلا معرکہ ہے۔ ملک کے دونوں بازوئوں میں نعرۂ تکبیر گونج رہا ہے۔

اے مردِ مجاہد جاگ ذرا پھر وقت شہادت ہے آیا

اللہ اکبر۔ اللہ اکبر

لاہور نے دشمن کا پہلا وار برداشت کیا ہے اس لئے کراچی سے لاہور کو خراج جرأت پیش کیا جارہا ہے۔

خطۂ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام

شاعر ادیب سب اپنے اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے پُر جوش ہیں۔ ریڈیو پاکستان نے پہلے سے ہی ملّی نغمے تیار کرنے شروع کردئیے تھے۔ وہ نشر ہونے لگے ہیں۔ یہ اعلان بھی کردیا گیا ہے کہ ریڈیو پاکستان اسٹیشن کے باہر لیٹر بکس رکھ دئیے گئے ہیں۔ شاعر حضرات و خواتین نغمے لکھیں۔ اور اس میں ڈال دیں۔ کوئی سفارش ہے نہ گروپنگ۔ سب کی تحریریں۔ نامور گلوکاروں کی آوازوں میں عوام تک پہنچ رہی ہیں۔میں بھی تین نغمے ۔برّی۔ بحری۔ فضائیہ کے نام لکھ کر چھوڑ آیا ہوں۔ دو تین روز بعد ہی سلیم رضا کی آواز میں ’’اے ہوا کے راہیو…پر فشاں مجاہدو‘‘ بڑی پُر جوش دھنوں کے ساتھ سنائی دیتا ہے۔ چند روز بعد ’’سمندر کے پانیو۔ بہو تو تیز تر بہو… تمہارے سینے پر ہمارے نوجواں ہیں گرم رو‘‘ منیر حسین کی آواز میں۔ شورش کاشمیری بہت ہی مقبول ایڈیٹر۔ مقرر۔ نظم و نثر کے بادشاہ۔ وہ واحد شاعر ہیں جو مشرقی پاکستان کو یاد رکھتے ہیں۔ ان کا نغمہ ڈھاکا۔ چٹاگانگ۔ نواکھلی۔ کھلنا۔ جیسور میں گونجتا ہے ۔

مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام

ڈاکٹر رشید انور کے پنجابی نغمے نے تو دھوم مچادی ہے۔ ’’جنگ کھیڈ نئیں ہو ندی زنانیاں دی‘‘ سب شاعروں نے اپنا حق حب الوطنی ادا کردیا ہے۔

لاہور والے بھی خوب زندہ دل ہیں۔ فضائی حملے کا سائرن بجتا ہے تو بجائے خندقوں میں اترنے کے وہ چھتوں پر آجاتے ہیں اور دشمن کے طیاروں پر پاکستانی طیاروں کو جھپٹتا دیکھتے ہیں۔ واہگہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ پولیس اور فوج انہیں سمجھاتی ہے کہ سرحدوں پر آپ کے فوجی الرٹ ہیں ۔ آپ شہروں میں دوسری دفاعی لائن بن جائیں۔

مجھے وہ رات بھی یاد آرہی ہے جب ہر طرف اندھیرا ہے۔ بلیک آئوٹ ہے۔ گھر گھر لوگ جاگ رہے ہیں۔ ریڈیو کے گرد جمع ہیں۔ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سیکورٹی کونسل سے خطاب کررہے ہیں۔’’ کشمیر کے لئے ہم ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔ ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ جب تک کشمیریوں کو اپنی مرضی سے رائے دہی کاحق نہیں مل جاتا‘‘۔ وہ اس تقریر کے ذریعے پاکستانیوں کے دلوں میں اُتر گئے ہیں۔

بجا طور پر کہا گیا کہ 14اگست 1947کو ملک بنا 6ستمبر 1965کو قوم بنی۔ مغربی۔ مشرقی پاکستان ایک ایک شہر ایک ایک قصبے میں ایک ہی جذبہ تھا۔ ایک ہی جوش۔

سرحدوں پر پاک فوج دشمن کی یلغار روک رہی تھی۔ شہروں میں پاکستانی عوام نئے نئے آزاد ہونے والے ملک کی تہذیب۔ ثقافت کی میراث کی حفاظت کر رہے تھے۔

یہ جذبہ پھر 53سال میں کبھی نظر نہیں آیا ہے۔

اس جنگ نے قوم کی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو جگادیا تھا۔ بزرگ جوان۔ خواتین۔ بلوچ۔ پشتون۔ پنجابی۔ بنگالی۔ سندھی سب ایک تھے۔

ہم مگر اس جذبے کو سنبھال نہیں سکے ہیں۔ یہ جذبہ ایک دریا تھا۔ بپھرا ہوا دریا۔ اس پر بند باندھنے کی ضرورت تھی۔ ڈیم بناکر اسے ذخیرہ کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ ایک یورینیم تھا۔ اس کا تقاضا افزودگی تھی۔ قوموں نے ایسے ہی جذبوں پر نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی۔ جاپان۔ جرمنی نے جنگ کی راکھ سے ہی صنعتی اور اقتصادی ترقی کا راستہ اختیار کیا۔دشمن کی سازشیں کامیاب ہوئیں۔ ہم آپس میں ہی گتھم گتھا ہوگئے۔ ایک دوسرے کو غداری کے سر ٹیفکیٹ دینے لگے۔ ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے لگے۔ ادارے اپنی حدود سے باہر نکل کر دوسرے اداروں کے امور میں مداخلت کرنے لگے ہرجگہ محرومیاں سر اٹھانے لگیں۔ ان محرومیوں کا مداوا کرنے کی بجائے ہم محروموں پر سرکشی۔ بغاوت کے الزامات لگانے لگے۔ فاصلے بڑھ گئے۔ پھر جو کچھ ہوتا رہا سب کے سامنے ہے۔ 1971کے سانحے۔ جو ہمارے دل میں ایک دائمی خلش بن کر رہ گئے ہیں۔

یہ سانحے آج بھی جاری ہیں۔ محرومیاں بھی برقرار ہیں۔ پاک فوج کے جوان آج بھی ملک پر جاں نثار کررہے ہیں۔ نوجوان آج بھی لاپتہ ہورہے ہیں۔ اب میرا قلم جواب دے رہا ہے۔ سیاہی خشک ہورہی ہے ۔ مزید نہیں لکھ سکتا۔کیا یہ جذبہ ستمبر پھر بیدار ہوسکتا ہے۔ کاش کاش اے کاش۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین