• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مراکش کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مشہور سپہ سالار طارق بن زیاد اور سیاح ابن بطوطہ کا تعلق مراکش سے تھا مگر بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ مراکش کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی جامعہ القروین مراکش کے تاریخی شہر فیض (Fes)میں قائم ہے جس کی بنیاد دو بہنوں نے رکھی۔ میرا کام کے سلسلے میں سال میں کئی بار مراکش جانا ہوتا ہے۔ مجھ پر اس تاریخی یونیورسٹی کی حقیقت اس وقت آشکار ہوئی جب کچھ عرصہ قبل نیب سندھ کے ڈائریکٹر جنرل الطاف باوانی نے مجھے اس یونیورسٹی کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ مراکو کے وزٹ پر میں اس تاریخی یونیورسٹی ضرور جائوں گا۔ اس طرح گزشتہ دنوں مراکش میں قیام کے دوران اس تاریخی یونیورسٹی کو قریب سے دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ رباط سے ڈھائی گھنٹے کی مسافت کے بعد جب میں تاریخی شہر فیض پہنچا تو جمعہ کی نماز کا وقت ہوچکا تھا اور میں نے اور میرے دوست کامران قیوم نے جمعہ کی نماز مولے ادریس کے مزار سے ملحق مسجد میں ادا کی۔ مولے ادریس مشہور صوفی بزرگ ہیں جو پاکستان کے داتا گنج بخش کے پائے کے بزرگ ہیں اور پورے مراکش کے علاوہ دنیا بھر میں ان کے عقیدت مند موجود ہیں۔بینظیر بھٹو شہید بھی مولے ادریس سے عقیدت رکھتی تھیں، وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے جب وہ مراکش تشریف لائیں تو انہوں نے خصوصی طور پر مولے ادریس کے مزار پر حاضری دی۔ نماز سے فارغ ہوکر اور مولے ادریس کے دربار پر حاضری دے کر جب میں القروین یونیورسٹی پہنچا تو یونیورسٹی کے سیکریٹری جنرل محمد بینی زبیر نے ہمارا استقبال کیا۔ فیض کے قدیم مدینہ کے وسط میں بڑے رقبے پر پھیلی یونیورسٹی کی عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے جس کے 14گیٹ ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مراکش حکومت نے اس قدیم شہر اور تاریخی یونیورسٹی کا پورا خیال رکھا ہے جس کی بناوٹیں، عمارت اور دیگر حصے فن تعمیر کی منفرد مثال کی منہ بولتی تصویر ہے۔یونیورسٹی کی لائبریری میں اسلامی مسودے اور قرآن کے نادر نسخے بھی موجود ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یونیورسٹی کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے۔ یہ یونیورسٹی فاطمہ الفیری اور ان کی بہن مریم الفیری نے سن 859 عیسوی میں یعنی تقریباً 1200 سال قبل قائم کی جو مشہور تاجر محمد الفیری کی بیٹیاں تھیں۔ باپ کے انتقال کے بعد انہیں بہت بڑی جائیداد ورثے میں ملی اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس جائیداد سے ایک مسجد اور اس سے ملحق مدرسہ قائم کریں گی کیونکہ الفیری فیملی نےتیونس کے شہر قروین سے مراکش کے شہر فیض ہجرت کی تھی اور اسی لئے اس مسجد اور مدرسے کا نام القروین رکھا گیا جس میں 22,000 نمازیوں کے پڑھنے کی گنجائش ہے۔ شروع میں مدرسہ مذہبی تعلیم اور حفظ قرآن کیلئے مختص تھا تاہم بعد میں عربک گرامر، میوزک، صوفی ازم، میڈیسن اور ستاروں کی سائنس جیسے مضامین میں اضافہ کیا گیا۔ 1947ء میں اسے اسٹیٹ ایجوکیشن میں ضم کردیا گیا اور 1957ء میں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم فزکس، کیمسٹری اور غیر ملکی زبانوں کے مضامین بھی شامل کئے گئے۔ بعد ازاں القروین اسٹیٹ یونیورسٹی سسٹم کا حصہ بنی اور 1965ء میں اسے یونیورسٹی آف القروین کا نام دیا گیا۔ آج یہ ادارہ مسلم دنیا کے مقدس ترین تعلیمی ادارے کے طور پر جانا جاتا ہے۔اس یونیورسٹی نے بڑے نامی گرامی علما، فلاسفر اور سائنسدان پیدا کئے جن میں ابن خلدوم، ابن روشد، ال ادریسی، ابو عمران الفاسی شامل ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ پوپ Sylvester IIاور دیگر عیسائی اسکالرز نے بھی یہاں تعلیم حاصل کی۔ یونسکو اور گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق یہ تعلیمی ڈگری جاری کرنے والا دنیا کا پہلا ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ ہے۔یونیورسٹی میں اسلامی فقہ، اسلامی تاریخ، قانونی تعلیم، مالکی (Maliki) قانون کے ساتھ ساتھ کلاسیکل عربک، انگلش اور فرنچ لینگویج کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ تعلیم دینے کا طریقہ بھی بڑا روایتی ہے جس میں استاد جسے شیخ کہا جاتا ہے، کے گرد طالبعلموں کو دائرے میں بٹھاکر تعلیم دی جاتی ہے۔ جامعہ القروین میں طلباو طالبات کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہے جس میں مختلف ممالک کے طالبعلم بھی شامل ہیں۔ یونیورسٹی کے سیکریٹری جنرل محمد بینی زبیر نے مجھے بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ القروین میں صرف طلباتعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ یہاں طالبات کی بھی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہے۔ یونیورسٹی میں 1000 سے زیادہ اساتذہ اور 8000 طلباء و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں جس میں بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں کی بڑی تعداد بھی زیر تعلیم ہے جن کیلئے ہاسٹل کی سہولت بھی مہیا ہے۔ محمد بینی نے مجھے بتایا کہ انہیں بڑی خوشی ہوگی کہ اگر پاکستان کے طالبعلم بھی القروین آکر تعلیم حاصل کریں۔مجھ پر یہ حقیقت بھی پہلی بار آشکار ہوئی کہ گریجویشن تقریب میں گریجویشن حاصل کرنے والے طالبعلموں کے روایتی گائون پہننے کا رواج بھی اسی یونیورسٹی سے ہوا جو دراصل عربی لباس جلاوا اور سر پر اوڑھنے والا کیپ بھی عربی ثقافت ہےجو اب یورپ اور پوری دنیا میں ڈگری حاصل کرتے وقت اسٹوڈنٹس پہنتے ہیں۔ یونیورسٹی کے دورے میں مجھے معلوم ہوا کہ صوفی بزرگ دلائل الخیرات کے مصنف حضرت محمد بن سلیمان الجزولیجن کے پاکستان میں بڑی تعداد میں عقیدت مند ہیں، ان کا وہ حجرہ بھی دیکھا جہاں بیٹھ کر انہوں نے دلائل الخیرات جیسی مشہور کتاب تحریر کی۔ کچھ لوگوں میں یہ غلط تاثر ہے کہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی مصر کی الاظہر یونیورسٹی ہے جس کا قیام 975 عیسوی میں عمل میں آیا جبکہ القروین یونیورسٹی 859عیسوی میں قائم کی گئی۔ دورے کے اختتام پر یونیورسٹی کے سیکریٹری جنرل محمد بینی زبیر نے مجھے یونیورسٹی کی خصوصی شیلڈ پیش کی جس پر یونیورسٹی کا عکس کنندہ ہے جو میرے لئے یقیناً ایک اعزاز کی بات ہے۔ رخصت ہوتے وقت میں نے انہیں پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی جو انہوں نے بڑی خوشی سے قبول کی۔

رباط واپسی پر میں کار میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ مسلمانوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی ایک مسلمان ملک میں مسلم خواتین نے تعمیر کی جس کے بارے میں دنیا کو علم نہیں جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان تعلیم پر زیادہ توجہ نہ دے سکے اور دنیا کی دوسری یونیورسٹیاں آگے نکل گئیں۔اسلام نے تعلیم پر بہت زور دیا ہے جس کا قرآن میں بھی ذکر آیا ہے اور حضور اکرمﷺ کی یہ حدیث ہے کہ ’’تعلیم حاصل کرو، چاہے اس کیلئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔‘‘ اسی کی تقلیدکرتے ہوئے ان بہنوں نے القروین یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جہاں عیسائیوں کے پوپ نے بھی آکر تعلیم حاصل کی مگر بعد میں ہم اپنے مقصد سے دور ہوگئے اور اسلام کے زریں اصول غیر مسلموں نے اپنالئے۔ ہماری نئی نسل اعلیٰ تعلیم کیلئے یورپ اور امریکہ کی ان یونیورسٹیوں کا رخ کرتی ہے جہاں تعلیم پر لاکھوں روپے خرچ آتے ہیں مگر افسوس کہ القروین میں پاکستان سے کوئی طالبعلم موجود نہیں تھا۔کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستانی نوجوان القروین یونیورسٹی کا رخ کریں تاکہ انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں آگاہی حاصل ہو سکے۔ یونیورسٹی آف القروین آج ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ یہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی نہیں جس نے تعلیم کی بنیاد رکھی ہو بلکہ دنیا کا پہلا انسٹی ٹیوشن وہ مسجد اور مدرسہ تھا جس کی بنیاد دو خواتین نے رکھی جہاں سینکڑوں سال تک تعلیم کا سلسلہ جاری رہا مگر افسوس کہ آج دنیا کی سرفہرست یونیورسٹیوں میں کسی اسلامی ملک کی یونیورسٹی شامل نہیں۔

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے

خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے

تازہ ترین