• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب دلہن کچن میں جائے

تجزیہ کار کہتے ہیں:حکومت کی ضروری شکل مکمل اب مسائل حل ہونے چاہئیں اگرچہ حکومت رانی کا فوری نوعیت کا میک اپ اتر گیا ہے لیکن ابھی مہندی نہیں اتری، تاہم سسرالیوں کو کچھ جلدی ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ دلہن گھر بار سنبھالے، کچن میں جائے، برتن دھوئے، کھانا پکائے، رسم دنیا نبھانے کو اس نے پورے گھر کا رائونڈ لگا لیا ہے، سو دن کی پرچی پرس سے نکال کر کاموں کا جائزہ لے لیا ہے، دور نزدیک کے ’’شریکے‘‘ دور بین لگا کر دیکھ رہے ہیں کہ دلہن میں کوئی نقص دریافت کریں، مگر ابھی کارکردگی سامنے نہیں آئی اس لئے اسٹینڈ بائی ہیں کہ ضرور کوئی بڑی غلطی کرے تو وہ توپیں داغیں، نئے لباس سے پرانے کپڑوں کی جھلک کبھی کبھی نظر آ جاتی ہے، ہمارا مشورہ ہے کہ اپنے تمام پرانے کپڑوں کو عوام کے پسندیدہ رنگوں میں رَنگا لیں اور اگر کسی پر کوئی نیا رنگ نہ چڑھے تو ایسا جوڑا ہی اتار دے، سسرال کو حسن اخلاق کے ذریعے قابو میں رکھے، حکومت رانی کی خوش قسمتی ہے کہ جملہ اقسام کے سسرالی متحد نہیں، دو تین عوامی بہبود کے موٹے موٹے کام کر ڈالے عوام کو فوری ریلیف ملے گا تو وہ کسی کے ہتھے نہیں چڑھیں گے، کچھ پرائے اپنے ایسے ہیں کہ وہ دورِ جاہلیت کے رسم و رواج چلانے کی کوشش کریں گےاس کا علاج یہ ہے کہ اختیارات اور پیسے نچلی سطح پر لے آئے تو حکومت رانی جسے حکمرانی کہتے ہیں وہ آسان ہو جائے گی، احتساب کے عمل کو تیز اور نتیجہ خیز بنایا جائے تو یہ ہو سکتا ہے کہ؎

گیا دور سرمایہ داری گیا

تماشا دکھا کر مداری گیا

سرمایہ داری کا متبادل سرمایہ کاری ہے اسے ڈھونڈ لائے تو دلہن پانچ سال کی اپنی مدت بخوبی پوری کر سکتی ہے، بلکہ عوام کے ذہنوں میں رجسٹرڈ بھی ہو سکتی ہے، پرانا اسٹاک جو اپنی ساکھ تقریباً کھو چکا ہے اسے ہرگز بیکار نہ سمجھا جائے بلکہ اس سے کچھ کام کے گُر سیکھتے رہنا چاہئے، بیورو کریسی کو ہپناٹائز کر کے’’ بُرا کریسی‘‘ بنا دیا گیا ہے اگر اسے انصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے اس کے کاموں میں بے جا مداخلت نہ کی جائے تو نیا پاکستان وہ بھی بنا کر دکھا سکتے ہیں، تحمل، برداشت اور سب کی بات غور سے سننے کا عمل بھی تمام جنات کو قابو کرنے میں انتہائی ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے۔

دو نوجوان دو روشن مستقبل

شہباز شریف کا بلاول سے مصافحہ، جو ہوا اسے بھول جائیں، آئندہ کا سوچیں، بلاول نے جواباً کہا:کیوں نہیں؟ اپوزیشن میں پھوٹ کا سبب ایک جبر تھا، جو دونوں طرف سے قبول کرنا پڑا، شہباز شریف کا مصافحہ ایک سچ ہے جسے بلاول نے محسوس کر لیا، اور شاید یہ بھی جان لیا کہ شہباز شریف اندر ہی اندر ایک ایسا فیصلہ کر چکے ہیں کہ اب ہر فیصلہ ان کا اپنا ہو گا، اور اس کے سوا ان کے پاس سیاسی حوالے سے زندہ رہنے کے لئے کوئی اور راستہ بھی نہیں۔ بعض اوقات ادب، اخلاق اور لحاظ انسان سے اس کا وجود چھین لیتا ہے، بے ادبی، بداخلاقی، بد لحاظی بھی انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ اس لئے دونوں بڑی جماعتوں کے لئے اعتدال کا راستہ کھلا ہے، فرمان رسول ﷺ ہے: ’’انسان مخلوق کی کسی ایسی اطاعت کا پابند نہیں جس سے خالق کی نافرمانی لازم آئے‘‘ یہ درست ہے کہ جو ہوا اسے بھول جائیں آگے کی فکر کریں کہ آئندہ کیسے چلنا ہے، اب بھی ایک مستحکم اور طاقتور اپوزیشن بن سکتی ہے، بشرطیکہ دونوں بڑی جماعتیں کسی ثالث کی محتاج نہ بنیں، جو بات کریں آپس میں براہ راست کریں، بلاول زرداری کا مستقبل بہت روشن ہے اس طرح حمزہ کا بھی اگر یہ دونوں حد ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ظاہر کریں کہ اب وہ پوری طرح بالغ ہو چکے ہیں، سیاست کو خدمت سمجھ کر اپنا سیاسی کیریئر بنا سکتے ہیں، بے داغ سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا سکتے ہیں، اور ہرگز سیاست اس انداز کی نہیں کریں گے جس میں پچھتاوے، مقدمے اور دھوکے ہوں، وقت بدل چکا ہے نئی نسل نئی قیادت چاہتی ہے اور نئی قیادت کی کامیابی نئی نسل کے مشوروں اور تقاضوں میں پوشیدہ ہے، خود غرضی کبھی اعلیٰ ترین قیادت پیدا نہیں کر سکتی، انسانوں پر حکمرانی کا راز انسانوں کی غلامی میں پوشیدہ ہے، اسی کو کہتے ہیں جس نے خدمت کی وہ مخدوم کہلایا، ہماری پرانی سیاست کا بھیانک انجام اس لئے ہوا کہ باپ نے بیٹے کا بھلا سوچا یہ نہ سوچا کہ وہ پوری قوم کا باپ ہے۔ اگر کسی نے صرف اپنا اور اپنوں کا مفاد اپنانا ہے تو بہتر ہے کہ وہ سیاست کے بجائے کوئی کاروبار کرے، دنیا کے عظیم لیڈر وہ بنے جن کو اگر حکمرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے اپنے لوگوں کی کسی بھی تکلیف کا ذمہ دار خود کو ٹھہرایا، اپنی اصلاح کی اور اگلا قدم اٹھایا ورنہ کرسی کو خیر باد کہہ دیا۔

٭٭٭٭

ایک اور بھی تنزل کا سبب ہے

ہم وقت بہت ضائع کرتے ہیں، ایک چھوٹی بات اتنی لمبی کر دیتے ہیں کہ وہ دہری ہو کر اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے، ہر روز ایک ڈائس پر کھڑے ہو کر یا کرسی پر بیٹھ کر کچھ نہ کچھ بلا سبب کہنے کو اپنا فن خطابت سمجھتے ہیں اور ضروری بھی گردانتے ہیں۔ حسنِ تقریر کو حسنِ عمل کا درجہ دیتے ہیں، اور حسن انسان کو مسخ کر دیتے ہیں مسئلے کو غیر مسئلہ اور غیر مسئلہ کو مسئلہ بنا دیتے ہیں، اطلاع دینے، باخبر رکھنے اور بات کا بتنگڑ بنانے میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے، دو لفظوں کی بات کو داستان بنانے میں ثانی نہیں رکھتے، ہماری باتوں میں تکرار بہت ہوتی ہے، شاید اس لئے کہا گیا کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا، ہمارے لکھنے والے بھی ایک ہی مضمون وقفے وقفے سے دہراتے رہتے ہیں، پرانی بات، نئے انداز میں پیش کر کے خود کو تخلیق کار سمجھ بیٹھتے ہیں، انسان شاید خود کو دہرا رہا ہے، حالانکہ اس میں انسانوں کی ایک دنیا آباد ہے، کسی چیز کا پرانا ہونا قیمتی اور نیا ہونا ہمارے نزدیک بے معنی ہے، اکثر بڑی دلچسپی سے کسی اشتہار کو ڈرامہ سمجھ کر دیکھتا ہوں اور یکدم پشیمان ہو جاتا ہوں، جب سے بلھے شاہ نے کہا ہے ’’مینوں نچ کے یار مناون دے‘‘ رقص میں ہے سارا وطن، کوئی یہ نہیں کہتا ’’مینوں کچھ کر کے یار مناون دے‘‘اسی لئے ہمیں یہ انتہا پسندانہ محاورہ بھی معتدل نظر آتا ہے کہ ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘‘ اس محاورے سے یہی سمجھا ہوں کہ یہاں سزا نہیں ملتی سنا دی جاتی ہے، ہمارا میڈیا بہت فعال ہے پل پل کسی کام کے نہ ہونے کی خبر دیتا ہے، اگر میڈیا علمی و معلوماتی پروگراموں پر زیادہ زور دے تو اس سے بڑا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہو سکتا، بہرحال میڈیا نے بروقت خبردار کر کے تفتیشی، احتسابی اور عدالتی اداروں کا کافی وقت بچایا ہے، البتہ تلفظ کی درستی پر عدم توجہی کے باعث زبان کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔ کبھی غور سے سنیں کہ بدقسمتی کا لفظ کیسے ادا کیا جاتا ہے، تھوڑے سے کام کے بعد بہت سا آرام اور کلام ہمارا وطیرہ ہے، اب یہ دیکھیں کہ وقت بچانے کے موضوع پر یہ کالم لکھتے وقت کتنا وقت ضائع ہوا مگر مجھے اس کی خبر ہی نہیں ہم انجانے میں انجانے موضوعات پر بھی کافی وقت ضائع کرتے ہیں، الغرض ہم وقت کے قاتل ہیں، جسے پوچھو کہتا ہے ٹائم کل کر رہا ہوں۔ بندئہ مزدور کو ہی کام کرتے دیکھتا ہوں اور’’ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات‘‘۔

دفاع وطن عبادت ہے

....Oجنرل ریٹائرڈ راحیل شریف:پاکستان بہت جلد بڑی معاشی قوت بنے گا۔

اسی لئے تو آپ کو سعودی عرب بھیجا ہے۔

....O ثمینہ علوی:ملکی مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ 

آپ یہ اہم کردار ادا کرنے کی اہل ہیں، اسی لئے آپ ان کی اہلیہ ہیں۔

....O سعد رفیق:عارف علوی کی جیت کی شیلڈ زرداری صاحب کو ملے گی۔

حالانکہ اس کے مستحق پرویز رشید وغیرہ ہیں۔

....Oپامسٹ کی پیش گوئی:شیخ رشید 2019کے وسط میں شادی کر لیں گے۔

یعنی وہ 2019کے وسط میں باقاعدہ شادی کر لینگے۔

....Oشہباز شریف پارلیمانی پارٹی میں سورئہ الکوثر بھول گئے۔

کوئی بات نہیں سورئہ الواقعۃ ان کو یاد ہے۔

....O یوم دفاع پاکستان ہمارے ہر سال کا بڑا دن ہے، دفاع وطن پر قربان ہونے والوں کی یاد کا دن، شہادتوں اور جنتوں کا دن۔

ہر پاکستانی اپنے دائرہ کار میں دفاع وطن فوج کا سپاہی ہے، ہمارا نظریہ ہمارے اسلحے سے زیادہ موثر ہے، بلکہ دونوں میں کوئی فرق نہیں، شہیدوں کے خاندانوں کی خبر گیری بھی دفاع وطن میں شامل کر لیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین