• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدرت کے کام عجب، کب کسی پر عطا کے دروازے کھول دے، کیا خبر، ہر قدم پر نصیحتیں اور نشانیاں ہیں۔ صرف اہلِ بصیرت جانتے ہیں کہ نوازش کے پسِ پشت کیا راز ہے؟ نیت کی صفائی اور ایمان جیسی کمٹمنٹ کرم کے دَر پر دستک دیتی رہتی ہے پھر ایک دن رحمتوں کا دَر کھل جاتا ہے اور حیران کن واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ انسان کی سوچ سے بھی زیادہ نوازشات کی بارش برستی ہے۔

عارف الرحمٰن علوی پاکستان کے 13 ویں صدر منتخب ہو چکے۔ جب ان کا نام صدر پاکستان کے لئے دیا گیا تو کئی حیرتیں فضا میں پھیل گئیں، ایک عجیب سی خوشی، حیرانی اور اطمینان اکثریت کی آنکھوں اور چہروں پر نظر آنے لگا۔ وہ جو سیاست اور عہدوں کو چند خاندانوں اور طاقتوروں تک محدود ہوتا دیکھ کر مایوس ہو چکے تھے دوبارہ کھِل اُٹھے اس لئے کہ عارف علوی ایک عام شہری ہیں۔ ان کے ٹھاٹ باٹ کی کوئی کہانی وقت کی کسی دیوار پر لکھی نظر نہیں آتی۔ ہاں ان کے پاس علم کی دولت ہے اور تمکنت کا دبدبہ ہے۔ حلیمی ان کی جیت بھی ہے اور طاقت بھی۔ عارف علوی ایک ایسے انسان ہیں جن کے دروازے پر دستک ہو تو دروازہ خود کھولتے ہیں، گھر میں کسی کا فون آ جائے تو خود اٹھاتے ہیں۔ نہ گھر میں اللے تللے نہ باہر۔ اپنے محلے کے لوگوں، دوست احباب سے گہری قربت رکھنے والے، اپنے مریضوں کو دوست سمجھ کر خیال کرنے والے اور اپنی جماعت کے منشور کو زندگی کا مقصد بنا کر ہر وقت اس کے حصول میں مگن رہنے والے انسان کو یہ عہدہ زیب دیتا تھا۔ اتنا پڑھا لکھا، سوبر اور متوسط طبقے کا صدر پہلے اس قوم کو نصیب نہیں ہوا۔

جس ملک میں مخصوص عہدوں کے لئے خاص لابی کا ہونا ضروری ہو وہاں سب نے دیکھا کہ ایک شخص جس کی سرے سے کوئی لابی نہیں، کوئی گروپ نہیں اور جس کے پاس دولت کے انبار نہیں وہ صدرِ پاکستان بن گیا۔ اگر عارف علوی صاحب کی شخصیت کا مطالعہ کریں تو کئی راز افشا ہوتے ہیں۔ 1949ء میں پیدا ہونے والے ہمارے نئے صدر ہمارے عزیز ملک پاکستان سے صرف دو سال چھوٹے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی تمام تر سماجی، سیاسی اور معاشرتی صورت حال سے ان کا واسطہ رہا۔ وہ ہر طرح کے سیاسی اتار چڑھائو، جمہوریتوں اور مارشل لائوں کے عینی شاہد ہیں۔ دھرتی کے تمام گرم سرد موسموں کا مزاج اور اثر انہوں نے دیکھا بھی اور محسوس بھی کیا ہے۔ وطن کے ساتھ وطن والوں اور غیروں نے کیا کیا سلوک روا رکھے اس کا بھی انہیں خوب ادراک ہے اور کب کیا ہونا چاہئے تھا اور کیا نہیں اس کا بھی انہیں ادرادراک ہے۔ پوری پاکستانی تاریخ کمپیوٹر کی ایک چھوٹی سی ڈسک کی طرح ان کے حافظے میں محفوظ ہے۔ وہ تاریخ جس کے کچھ باب بہت اذیت ناک ہیں جو ہر لمحہ وطن کی توقیر اور سربلندی کے خواہاں لوگوں کے احساسات کو مجروح کرتے رہتے ہیں۔ یقینا ًان کے والد، جو خود بھی سیاست سے وابستہ رہے اور جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس سرزمین پر غلامی سے نجات حاصل کر کے آزادی کا پرچم بلند ہوتے دیکھا، نے انہیں پاکستان کی کہانی سنائی ہو گی اسی لئے آزادی کی قدر اور ملک کی بقا ہمیشہ ان کے مطمح نظر رہی اور یہی جذبہ انہیں سیاست اور خدمت کی طرف لایا۔ تقریباً 18 سال کی عمر میں وہ تعلیم کی غرض سے لاہور تشریف لائے۔ لاہور کی فضائوں نے ان کی سیاسی زندگی اور شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔ کچھ کرنے اور بدلنے کا عزم ان کی سرشت میں شامل تھا۔ اس پر لاہور جیسے شہر نے ان کے جذبوں کو ہوا دی اور اظہار کے مواقع فراہم کئے۔ لاہور میں قیام کے دوران وہ طلبا یونین کے فعال ممبر تھے۔ ان کی فعالیت کا عالم دیکھئے کہ دوسرے صوبے سے آنے کے باوجود انیس بیس سال کا طالب علم طلبا یونین کا صدر بن گیا۔ یہیں سے ان کی سیاسی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے جب انہوں نے طلباکا رہنما بن کر جدوجہد کرنا سیکھا، حکمت عملی کے مطابق آگے بڑھنے کی روش اپنائی اور دیگر لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر آزمایا۔ لاہور کے بعد انہوں نے بیرونِ ملک کی ممتاز یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی یعنی اپنے شعبے کے حوالے سے اعلیٰ ترین معلومات تک رسائی حاصل کی۔ 1984ء میں اپنے فیلڈ کی تعلیم کی اعلیٰ ڈگریاں اپنے نام کرنے کے بعد وہ پاکستان لوٹے تو پھر حالات کو بدلنے کی لگن نے انہیں آواز دی۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لئے کراچی سے 1988ء میں پہلی بار الیکشن لڑا اور بری طرح ہار گئے مگر حوصلہ نہ ہارے۔ 1996ء میں تحریک انصاف کے دلکش نعرے سے متاثر ہو کر اس میں شمولیت اختیار کی۔ 1997ء میں دوبارہ کراچی سے تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن لڑا مگر صرف دو ہزار دو سو (2200) ووٹ لے سکے۔ 2002ء میں بھی جیت نہ سکے۔ اس کے باوجود نہ تحریک انصاف نے کوئی نعم البدل ڈھونڈا نہ علوی صاحب نے کسی اور جماعت کی طرف دیکھا۔ وہ چلتے رہے اور آخر 2013ء میں 77659 ووٹ لے کر سندھ سے تحریک انصاف کے واحد ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے جب کہ 2018ء میں وہ ایک بار پھر قومی اسمبلی کا حصہ بنے۔ ان کی شخصیت مسلسل محنت اور جدوجہد کی روشن مثال ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اگر نیک نیتی سے سفر جاری رکھا جائے تو مقصد ضرور حاصل ہوتا ہے۔اپنے پیشے کے حوالے سے بھی وہ ایشیا پیسفک ڈینٹل فیڈریشن اور پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن کے صدر رہے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کے عہدے سے سفر آغاز کرنے والا مسلم دنیا کے عظیم ملک پاکستان کا صدر بن گیا۔ تحریک انصاف نے ان کی کمٹمنٹ، شرافت اور وفا شعاری کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں منتخب کر کے اپنا قد بلند کر لیا ہے۔ ان کا یہ قدم تبدیلی کی طرف جانے والے راستے کا ایک بڑا آغاز ہے۔ علوی صاحب صدر بن کر صدر ہائوس میں بیٹھے نہیں رہیں گے بلکہ لوگوں میں اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے۔ پہلے ہی انہوں نے صدر ہائوس کی بجائے پارلیمنٹ لاجز میں قیام کا اعلان کیا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ یہ وہ شروعات ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جسے قائداعظم نے بارہا اپنی تقریروں میں اپنانے پر زور دیا۔ چھ ستمبر دفاع پاکستان کا دن ہے۔ آئیے دعا کریں کہ ہم پھر سے ایک قوم بن کر ابھریں اور دنیا پر چھا جائیں۔ ہمارے درمیان کسی بھی حوالے سے کوئی تفریق باقی نہ رہے۔ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ پاکستانی ہیں چاہئے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ آئیے عہد کریں:

اس دھرتی کو سوہنا پاکستان بنانا ہے

قائداعظم کے افکار میں ڈھل کے دکھانا ہے

تازہ ترین