• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج6ستمبر ہے۔ آج ہم اپنے ان سپوتوں کو یاد کرکے انہیں خراج تحسین پیش کررہے ہیں جنہو ں نے 1965 کی جنگ میں بہا دری کے جو ہر دکھا ئے ۔ہوسکتا ہے دنیا بھر میںلوگو ں نے یا پھرہمارے اپنے سپوتوں نے بہادری کئی داستانیں رقم کی ہوں گی۔کچھ داستانیں لوگوں کے سامنے آگئی ہوںگی تو کچھ چھپی رہ گئی ہوںگی۔لیکن بہادری، محبت،قربانی اورڈیوٹی فل ہونے کی ایک ایسی داستان نہ میری آنکھوں نے دیکھی یا پڑھی اور نہ ہی میرے کانوں نے سنی۔ اس دا ستا ن کا ذ کر میں پہلے بھی اپنے کالم میںکر چکا ہوں۔ لیکن آج 6 ستمبر کے حوالے سے دوبارہ اپنے قارئین کے لیے پیش کررہا ہوں۔

17 ستمبر 2005میں بھارتی حکام نے واہگہ بارڈرکے راستے قیدیوںکا ایک گروہ پاکستانی حکام کے حوالے کیا۔اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدی تھے ان میں سے ایک قیدی ایسا بھی تھا جس کے جسم ہڈیوں اوران ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی ان کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا۔پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیاگیا۔سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے لیکن یہ عجیب بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منظر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ۔2005ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کے آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعویٰ کردیا۔اس دعوے کے پیش نظر اسے کمانڈرکے سا منے پیش کردیاگیا ہے ۔بوڑھے ناتواںشخص میں نہ جا نے کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈرکو سلیوٹ کیا اورایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا ۔سپاہی مقبول حسین نمبر335139 ڈیوٹی پرحاضر ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے۔کمانڈرکے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی۔ اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا ۔ 65ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحے کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہے تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہوگئی۔سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کررہے تھے ۔مقابلے میں زخمی ہوگئے۔سپاہی اسے اٹھا کرواپس لے جانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکارکرتے ہوئے کہا کہ بجائے میں زخمی حالت میںآپ کا بوجھ بنوں ،میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کے لئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں۔ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اورخود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروںسے اوجھل کرلیا۔ دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کوآڑے ہاتھوںلینا شروع کیا۔ اسی دوران دشمن کے گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا وہ بے ہوش کرگر پڑے اور دشمن نے انہیں گرفتارکرلیا۔ جنگ کے بادل چھٹے تودونوںملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا توبھارت میں کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکر نہ کیا۔اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا۔بہادر شہیدوںکی بنائی ہوئی ایک یادگارپران کا نام بھی کندھا کردیا گیا۔ادھر بھارتی فو ج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کے لئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگے ۔سپاہی مقبول حسین کو چار بائی چار فٹ کے ایک پنجرے نما کوٹھر ی میں قید کردیاگیا۔جہاںوہ نہ بیٹھ سکتے تھے نہ لیٹ سکتے تھے ،دشمن ،انسان سوز مظالم کے باوجود ان سے کچھ اگلوا نہ سکے ۔سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا۔ جب انہوںنے دیکھا کہ مقبول حسین تو کوئی راز نہیں بتاتا، تو اپنی تسکین کے لئے مقبول حسین کو تشدد کانشانہ بنایا کرتے اورکہتے کہ کہو پاکستان مردہ باد اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے جو اب میں کہتا’’ پاکستان زندہ آ باد‘‘ اور یہ نعر ہ بھارتی فوجیوں کو ہلاکے رکھ دیتا اور وہ چلانے لگتے اورسپاہی مقبول حسین کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اور سپاہی مقبول حسین کہتا کہ ہاں میں پاگل ہوں،ہاںمیں پاگل ہوں ،اپنے ملک کے ایک ایک ذرے کے لئے پاگل ہوں۔ اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کے لئے ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت وقار کے لئے سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوںپر ہتھوڑوں کی طرح بر سنے لگتے اورآخرانہوںنے اس مقبو ل حسین سے عجیب بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا ۔انہوںنے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور انہیں پھر چار بائی چار کی اندھیری کوٹھری میں ڈال کرمقفل کردیا۔سپاہی مقبول حسین نے1965ء سے لے کر 2005ء اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھری میں گزار دیئے۔اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ باد کانعرہ تو نہیں لگا سکتے تھے لیکن جس چار بائی چار فٹ کی کوٹھری میں بند تھے اس کی دیوار کا ایک حصہ صاف کرکے اپنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ آباد ضرور لکھتے یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میںگزارتے رہے آئین ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کوسیلوٹ کرتے ہیں۔یہ غا زی مقبو ل حسین گذ شتہ روز علا لت کے بعد اپنے خا لق حقیقی سے جا ملے ہیں،ایسے بہا در سپو ت کے لئے ایک سلیو ٹ تو بنتا ہے۔پاکستا ن زندہ آباد۔

تازہ ترین