• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج آپ کو ایک شہر کی سیر کرانی ہے۔ یہ شہر قیام پاکستان سے پہلے برصغیر کے ” پیرس “ کے نام سے پوری دنیا میں مشہور تھا ۔یہاں کی سڑکوں کو ہر روز دریا کے پانی سے دھویا جاتا ۔ جب پاکستان بن گیاتو یہ شہر 1947ء سے 1955ء تک بطور دارالحکومت صوبہ سندھ کام کرتا رہا۔ آج اگر اس شہر کو گندا ترین پیرس کہیں تو غلط نہیں ہوگا ۔ اس شہر کا نام حیدر آباد ہے۔ جہاں دنیا کی سب سے بڑی کانچ کی چوڑیاں بنانے کی انڈسٹری بھی ہے۔ یہ کراچی کے بعد سندھ کا دوسرا اور پاکستان کا چھٹا بڑا شہر کہلاتا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس کی آبادی 25 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جبکہ اس کو 4تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن میں لطیف آباد، حیدر آباد سٹی ، قاسم آباد اور حیدر آباد دیہی ۔ سٹی اورلطیف آباد میں اردو بولنے والوں کی جبکہ دیہی اور قاسم آباد میں سندھیوں کی اکثریت ہے۔
مجھے پانچ روز یہاں رہنے کا موقع ملا ۔اس کا چھوٹا سا ایئرپورٹ جو خسارے کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا موجودہ حکومت نے اسے دوبارہ کھولا ہے مگر سہولیات کا فقدان ہے ۔ البتہ پی آئی اے نے کم عمر ترین خاتون کو یہاں اسٹیشن منیجر تعینات کر کے ایک ریکارڈ ضرور بنایا ہے۔ ایئر پورٹ کا علاقہ ختم ہوتے ہی چوک ” خداحافظ بورڈ “ آپ کو خوش آمدید کہتا ہے ۔جہاں دونوں طرف کوڑے کے ڈھیر انسان کی تمام حسیات میں بو پھلا کر آپ کا استقبال کرتے ہیں ۔ خوش آمدید اور خدا حافظ کی کیفیت میں انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ یہیں سے خدا حافظ ہو جائے مگر مجبوری سے شہر کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے۔ اس چوک میں ایک سوگز سڑک کا ٹکرا عرصہ تین برس سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور یہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ جب کبھی بارش ہوتی ہے تو کئی کئی فٹ پانی کھڑا رہتا ہے۔ جسے کراس نہیں کیاجا سکتا ، چوک خداحافظ بورڈ سے آگے بڑھتے ہیں تو ایک مشہور چوک آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے جہاں سڑ ک کے دونوں اطراف یہاں تک کہ گرین بیلٹ بھی کوڑے سے اٹی نظر آتی ہے۔ آپ شہر کی سیر کرتے ہوئے لطیف آباد ، قاسم آباد ، شاہ مکی روڈ، ریلوے سٹیشن ، کچا قلعہ اور پکا قلعہ ، لیاقت کالونی ، گاؤ شالہ اور ممتاز کالونی جہاں کہیں بھی نکل جائیں یہ کوڑا جس نے پورے علاقے کو ”معطر “ کر رکھا ہے آپ کا استقبال کریگا۔ کلاتھ مارکیٹ کی دو طرفہ سڑک میں سے ایک پر مستقل گٹر کاپانی کھڑا رہتا ہے جبکہ ایک طرف ٹریفک چلتی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ دو تین مہینے کے دوران شہر میں 85ہزار ٹن سے زائد کچرا جمع ہو گیا ہے۔ تقریباً روزانہ تین ہزار ٹن کچرا جمع ہوتا ہے۔ واسا ملازمین جنہیں تین مہینے سے تنخواہیں نہیں مل رہی تھیں انہوں نے عیدالاضحی کے موقع پر آلائشیں نہ اٹھانے کی دھمکی دی تو ایک ماہ کی تنخواہ دے دی گئی تب جا کر یہ آلائشیں اٹھائی گئیں ۔حید رآباد میں واحد تفریح گاہ رانی باغ ہے جو اپنی حالت زار کا خود ماتم کرتی نظر آتی ہے۔ رپورٹ تو یہ ہے کہ کچڑا اٹھانے کیلئے 50گاڑیاں اور تین ہزار کا عملہ بھی ہے مگر یہ عملہ کام نہیں کرتا اور گاڑیوں میں پٹرول نہیں ہوتا کیونکہ یہ کہیں اور جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ 1980ء کے بعد سے اس شہر کی حالت بہت ہی خراب ہو گئی تھی ۔ 2004ء کے بلدیاتی انتخابات کے بعدصفائی اور ستھرائی کے حالات کچھ بہتر ہوئے اور ترقیاتی کام بھی ہوئے جن میں 5 فلائی اوور بنائے گئے گو ایک دو فلائی اوورز کے بارے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ غلط پلاننگ سے بن گئے ۔مثال کے طور پر پونم چوک والے فلائی اوور کو لوگ اسلئے استعمال نہیں کرتے کہ یہاں ویرانی ہوتی ہے۔ یہاں لوگ لوٹ جاتے ہیں ۔ اسی طرح قاسم آباد کے داخلی راستہ پر بننے والے فلائی اوور نے لوگوں کیلئے مزید مسائل پیدا کر دیئے ہیں یہاں ٹریفک جام رہتی ہے اور لوگوں کو لمبے راستے سے گھوم کر آنا پڑتا ہے۔ چلئے پلاننگ میں غلطی ہو سکتی ہے مگر حیدر آباد میں اگر کوئی ترقیاتی کام ہوا ہے تو صرف گذشتہ بلدیاتی دور میں لیکن 2009ء کے بعد جب مشرف کا متعارف کردہ بلدیاتی نظام ختم ہوا تو اس شہر کو تو بالکل لاوارث چھوڑ دیا گیا۔ حید رآباد 2001ء میں 8تحصیلیں تھیں جسکے حصے کر کے مزید تین اضلاع بنا دیئے گئے اس وقت یہ 4تحصیلوں پر مشتمل ہے جس کی قومی اسمبلی کی 3نشستوں میں سے 2ایم کیو ایم اور ایک پی پی کے پاس ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کی 4نشستوں پر ایم کیو ایم اور دوپر پی پی کے ارکان منتخب ہوئے تھے ۔لیکن موجودہ دور حکومت میں کہیں کوئی کام نہیں ہوا۔
حیدر آباد کے حوالے سے یہ بڑی حیرت انگیز معلومات ہیں کہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے لیکن یہاں کوئی یونیورسٹی نہیں ۔ کوئی میڈیکل کالج یاانجینئرنگ یونیورسٹی نہیں ۔ یہاں کے لوگ سندھ یونیورسٹی یا میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے جامشور و جاتے ہیں ۔ گذشتہ دہائی سے لوگوں کے اندر شدت سے یہ احساس پیدا ہوا کہ اس شہر میں یونیورسٹی ہونی چاہئے ۔والدین اپنے بچوں کو سندھ یونیورسٹی بھیجنے کیلئے تحفظات رکھتے ہیں ۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ حیدر آباد میں یونیورسٹی قائم کی جائے گورنر سندھ نے گزشتہ برس حیدر آباد میں ایک تقریب کے دوران اس کے قیام کا اعلان بھی کیا مگر موجودہ بجٹ میں بھی اس کیلئے رقم مختص نہ کی گئی ۔ ایک جماعت کی خواہش تھی کہ یونیورسٹی کاکیمپس لطیف آباد میں ہونا چاہئے جبکہ دوسری کی ضد ہے کہ یہ قاسم آباد میں ہو ۔تعلیم کایہ تنازع حل ہوتا نظر نہیں آتا ۔ یہاں کے لوگ تو ایک طرح سے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ترقیاتی کام ہو نہ ہو یہ اپنی اپنی جماعتوں کو ووٹ دینے کیلئے مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی تیسرا آپشن نہیں اور نہ ہی وہ ایسے آپشن کے بارے میں سوچنے کی غلطی کر سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نقصان اس شہر کا ہو رہا ہے اور آنیوالے وقت میں اس کی پہچان گندے ترین پیرس کی رہ جائے گی ۔ یہ تو وہ شہر ہے جہاں مخدوم امین فہیم کے بھائی ضلعی ناظم رہ چکے ہیں۔ قوم پرست لیڈر قادر مگسی ، رسول بخش پلیجو، جمعیت العلمائے پاکستان کے مرکزی صدر صاحبزادہ ابو الخیر ، پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر مولا بخش چانڈیو ، ایم کیو ایم کے صوبائی وزیر زبیر خان جیسے لوگ رہائش پذیر ہیں لیکن افسوس کہ کوئی بھی اس شہر کا وارث نہیں ، کوئی بھی اپنی اس دھرتی ماں کی چیخ وپکار سننے کے لئے تیار نہیں ۔ میں تو اس شہر کے باسیوں سے یہ اپیل کروں گا کہ خود اٹھو اور اپنی مدد آپ کے تحت اس شہر کو بچانے کیلئے اپنے اندر تبدیلی لاؤ، اس کے باسی تبدیلی کی سوچ کو جگہ نہیں دیں گے ” تو یہ لاوارث ہو جائے گا۔“ سیاسی جماعتوں سے گذارش ہے کہ سیاسی کھیل کھیلتے رہیں لیکن اس کھیل کی بنیاد پر شہر کو تباہ نہ کریں ۔یہ تو امن وامان کے لحاظ سے ایک بہتر شہر ہے اس شہر کو پیرس بنانے کیلئے اپنی غلطیوں اور سڑکوں کو دریا ئے سندھ کے میٹھے پانی سے دھونے کا اہتمام کرو!
تازہ ترین