• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ ستمبر میں جہاں ہمارے جری جوان عسکری محاذ پر دشمن کے مقابل جانوں کے نذرانے پیش کررہے تھے وہیں صوتی محاذ پر ہمارے ملک کے فنکار صوت وصدا سے اور لکھاری اپنی تخلیقات سے ان جوانوں کے جذبوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کررہے تھے ۔ جہاں جنگ ستمبر کے شہداء کو ہم خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں وہاں ان صداکارواورلکھاریوں کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے

نورجہاں

ملکہ ترنم نورجہاں دنیائے موسیقی کا ایک بہت معتبر نام ہے ، جہاں اُن کے فلمی گیتوں، غزلوں کا اک عالم دیوانہ ہے، وہیں انہوں نے کسی بھی موقع پر پاک سرزمین کے لیے بھی اپنا حق ادا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی، خصوصاً ستمبر 1965ء کی جنگ میں پاکستانی فوج کی حوصلہ افزائی کے لیے انہوں نے جس جوشِ جنوں نے اُن جنگی ترانوں کو بھی گویا حیاتِ جاودانی بخش دی۔

ان مقبول عسکری گیتوں میں ’’ میریا ڈھول سپاہیا‘‘، اے وطن کے سجیلے جوانو!، اے پُتر ہٹاں تے نئیں وِکدے اور رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو تو بلاشبہ لازوال گیتوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

’’میریاڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

اج تکدیاں تینوں سارے جگ دیاں اکھاں‘‘

’’اے وطن کے سجیلے جوانو!

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں‘‘

’’اے پُتر ہٹاں تے نئیں وِکدے

تُوں لبھنی ایں وچ بازار کُڑے‘‘

’’رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی ‘‘

’’میرا ماہی چھیل چھبیلا! ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی‘‘

علامہ اقبال کی مشہورنظم

’’ ہر لحظہ مومن کی نئی شان نئی آن،

قہاری و غفاری و قدوسی و جبرود‘‘

مہدی حسن

شہنشاہ غزل، مہدی حسن کی شہرت یوں تو رومانی گیتون کے حوالے سے ہے، لیکن 1965 ء کی جنگ میں اُنہوں نے بھی برابر کا حصہ ڈالا اور چند نہایت ہی پُراثر جنگی ترانے گائے، جو بعدازاں پوری قوم کے دل کی آواز بن گئے، خصوصاً ’’اپنی جاں نذر کروں‘‘ اور خطہ لاہور، تیرے جاں نثاروں کو سلام‘‘ توبے حد مقبول ہوئے۔

’’اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں

قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں‘‘

’’خطہ ء لاہور ! تیرے جاں نثاروں کو سلام

شہیدوں کو، غازیو کو ، شہسواروں کو سلام‘‘

عنایت حسین بھٹی

عنایت حسین بھٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُن کی فلم چنگیز خان (1958ء ) میں اُن کی آواز میں گایا ہوا عسکری ترانہ ’’اے مردِ مجاہد جا گ ذراء اب وقتِ شہادت ہے آیا۔ ‘‘ ریڈیو پاکستان، لاہور پر گونجنے والا سب سے پہلا رزمیہ ترانا تھا۔

’’اللہ کی رحمت کا سایا، توحید کا پرچم لہرایا

اے مردِ مجاہد جا گ ذراء،اب وقتِ شہادت ہے آیا‘‘

نسیم بیگم

نسیم بیگم کو اپنے وقت کی دوسری نورجہاں بھی کہا جاتا تھا۔ اُن کا مقبول ترین گیت ’’اے راہِ حق کے شہیدو‘‘ بھی ایک سدا بہار جنگی ترانہ ہے:

’’اے راہِ حق کے شہیدو! وفا کی تصویرو

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘‘

مسعود رانا

مسعود رانا بھی بلاشبہ بے مثل اور بہت سُریلے گلوکار تھے جنگِ دفاع پاکستان کے موقع پر انہوں نے سب سے زیادہ جنگی ترانے گائے، جو بعدازاں متعدد فلموں میں بھی شامل کیے گئے۔ اُن کا گایا ہوا مقبول ترین ترانہ’’

’’ساتھیو! مجاہدو! جاگ اُٹھا ہے سارا وطن ‘‘

تاج ملتانی

ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران گائے گئے گیتوں میں تاج ملتانی کے گیتوں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا

’’مہاراج! اے کھیڈ تلوار دی اے

جنگ کھیڈ نی ہوندی زنانیاں دی‘‘

نے تو دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچا دی تھی۔

’’ہرگھڑی تیار کامران ہیں ہم‘‘

پاکستانی فوج کے جوان ہیں ہم‘‘

تازہ ترین