• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی کمانڈر نےمحفوظ شہید کی بہادری کا اعتراف کیا

لانس نائیک محفوظ شہید نے اپنے گائوں کے سکول سے تعلیم حاصل کی وہ تیراکی اور کبڈی کے بہترین کھلاڑی انتہائی دراز قد مضبوط جسم کے مالک اور گائوں کی کبڈی ٹیم کے کپتان بھی تھے انہیں فوج میں آنے کا شوق اپنے دادا حاجی گلزار خان کی کہانیوں سے ہوا وہ دادا جان سے پہلی اور دوسری جنگ اور مسلمان جرنیلوں کے کارناموں اور بہادری کے واقعات سن سن کر متاثر ہوئے اور فوج میں جانے کا شوق پیدا ہوا۔ محفوظ شہید نے 25 اکتوبر 1962 میں فوج میں شمولیت اختیار کر لی اور 8 مئی 1963 میں 15 رجمنٹ میں کوئٹہ میں تعینات ہوئے ۔

بہادری اور جانفروشی کی داستان

لانس نائیک محمد محفوظ شہید الفا کمپنی کی پلاٹون نمبر 3 میں ایل ایم جی کے فائیرر تھے 1971 کی پاک بھارت کے دوران پنجاب رجمنٹ (33) واہگہ کے بارڈر پر تعینات تھی 17 دسمبر کی رات 15 پنجاب کی ایک کمپنی کو پل کنجرلی گائوں پر حملہ کرنے کا حکم ملا جو دشمن کا علاقہ تھا دشمن کی ایک کمپنی وہاں متعین تھی دشمن نے وہاں نہایت مضبوط مورچہ بندی کر رکھی تھی بعض وجوہات کی بناء پر حملہ کرنے میں کچھ دیر ہوگئی اس دوران روشنی پھیلنے لگی اور دشمن نے پاکستانی کمپنی پر زبردست فائرنگ شروع کر دی چنانچہ محمد محفوظ نے اس زور دار گولہ باری کے باوجود ہمت نہ ہاری اور دشمن پر جوابی فائرنگ جاری رکھی دشمن کا ایک گولہ ان کے قریب آکر پھٹا اور بم کے کئی ٹکرے ان کے جسم پر لگے ان کی مشین گن ناکارہ ہوچکی تھی مگر محفوظ شہید نے زخمی ہونے اور گن کے ناکارہ ہونے کی پرواہ نہیں کی محفوظ شہید سے چند گز فاصلے پران کا ایک اور ساتھی فائر لگنے سے شہید ہوچکا تھا اور اس کی مشین گن قریب ہی پڑی تھی محفوظ شہید رینگتا ہوا بڑھا اور مورچے سے تقریباً دس گز کے فاصلے پر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے اٹھ کر دشمن کے مورچے کی طرف بڑھا اور دشمن کے مورچے میں ان کے فائرر جو پاک فوج پر زبردست فائرنگ کر رہا تھا اسے دبوچ لیا اور گردن پکڑ لی دشمن کے دیگر دو سپاہیوں نے سنگینوں سے اس پر حملہ کر دیا اس شیر دل جوان نے اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک اسے جہنم رسید نہیں کر دیا۔ محفوظ شہید خود بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے شہید ہونے کے باوجود دشمن کے سپاہی بڑی مشکل سے اپنے ساتھی کی گردن محفوظ کے ہاتھوں سے چھڑا سکے۔

اس تمام معرکے کے دوران دشمن کی سکھ لائٹ انفنٹری کے کمانڈنگ کرنل پوری نے خود اگلے مورچے پر تھے محفوظ کی بہادری کی کارروائی دیکھ چکا تھا فائر بندی کے بعد جب شہداء کی لاشیں اٹھائی جارہی تھیں تو دشمن لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی لاش خود اٹھا کر لائے۔

بھارتی کمانڈر کرنل پوری نے محفوظ شہید کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی پوری سروس میں اتنا بہادر نہیں دیکھا اگر یہ انڈین آرمی کا جوان ہوتا تو آج میں اسے انڈین آرمی کے سب سے اعلیٰ فوجی اعزاز کیلئے پیش کرتا اور یوں 23 مارچ 1973 کو حکومت پاکستان کی جانب سے لانس نائیک محمد محفوظ کو بعداز شہادت اعلیٰ ترین جنگی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ محفوظ شہید کو نشان حیدر کا اعزاز دینے کی اطلاع اس وقت کے آرمی چیف جنرل ٹکا خان مرحوم نے پنڈ ملکاں میں ان کے گھر جاکر والدین اور بھائی کو مبارکباد دی جنرل ٹکا خان نے کہا کہ جب تک ایسے بہادر جوان پاک فوج کو میسر ہیں پاکستان کا نام روشن رہے گا۔

علاقے کے لوگوں اور محفوظ شہید کے لواحقین نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کی وہ شہداء کے علاقوں میں سہولتوں کیلئے سول حکومت سے بات کریں انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس فیصلے کو خراج تحسین پیش کیا جو وہ شہداء کی یاد اور ان کارناموں کو زندہ کرنے کیلئے کر رہے ہیں۔

… اس شہید کو مردہ مت کہو زندہ ہیں اور رزق پا رہے ہیں اور ہماری بھی عزت رہ گئی جب قبر سے میت نکالی گئی تو محفوظ کلین شیو و تنا پایا گیا تو اس کی داڑھی نکلی ہوئی تھی اور اس کے جسم سے تازہ خون بہہ رہا تھا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا اور میت سے ایسی خوشبو آرہی تھی کہ پورا گائوں مہک گیالوگ کہتے تھے کہ ایسی خوشبو کبھی دنیا میں محسوس نہیں کی محفوظ کی پرانی قبر کو بند کر دیا گیا کیونکہ ان کے والد حاجی مہربان نے وصیت کی تھی کہ محفوظ کی قبر میں انہیں دفنایا جائے چنانچہ حاجی مہربان کا یکم جولائی 2003 میں انتقال ہوا اور جب محفوظ کی پرانی قبر کو دوبارہ کھولا گیا تو قبر میں موجود کلیاں ویسی کی ویسی تھیں ۔

تازہ ترین