• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شوکت نثار سلیمی

یہ ستائیس اکتوبر 2015کی ایک خنک رات تھی۔ جب میں نے اسے صبح چار بجے اسلام آباد ایئرپورٹ سے سیاچن کے سفر پر سکردو کے لئے الوداع کہا۔ اس نے گرم جوشی سے مجھے پیار کیا اور تیز قدموں سے چلتا ہوا ایئرپورٹ کے لائونج میں داخل ہو گیا۔ الوداعی نظروں سے مسکراتے چہرے کے ساتھ مجھے دیکھا اور پھر ہمیشہ کے لئے اوجھل ہو گیا ہے۔ میں بوجھل قدموں سے واپس لوٹ تو آیا لیکن آنکھیں اس کے رستے میں چھوڑ آیا۔12دسمبر 2015کی شام سٹیلائٹ فون پر مجھ سمیت اپنی ماں، بہن اور این سی بی (فوج کی طرف سے مہیا کردہ ملازم) سے آخری بات کی اور پھر یہ آواز سدا کے لئے بسیط فضائوں کی وسعتوں میں تحلیل ہو گئی۔ 15دسمبر کو ڈیڑھ بجے اس کی شہادت کی روح فرسا خبر ملی۔ وہ ہمیں روتا بلکتا چھوڑ کر شہادت کے اعلیٰ ترین درجے پر سرفراز ہو کر اپنے رب سے جا ملا۔ اس کی دیرینہ آرزو پوری ہو گئی۔ اس کا یہ بے کنارہ جذبہ ابدی سچائیوں سے ہمکنار ہو گیا۔ اپنے دوستوں سے کہا کرتا کہ وردی پہن کر شہادت کا نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ میں کند ذہن اور کور چشم اس کے اندر کی گہرائیوں کو نہ جان سکا۔ شہادت سے پہلے خواب میں مجھے چند اشارے ضرور ملتے رہے مگر ذہن کے قرطاس پر یہ شکل واضح نہ تھی۔ کچھ روز پہلے گیٹ کے باہر گھر کی گھنٹی بجی۔ باہر نکلا تو دور تک کسی انسان کا شائبہ تک نہ تھا۔ بیلیں اور خشک پھولوں کے سوگوار پتے اپنے سر جھکائے ہوا میں جھول رہے تھے۔ یہ منظر آناً فاناً بدل رہا تھا۔ میں کسی ناگہانی آفت کی گتھیاں نہ سلجھا سکا۔ آج یہ دھندلا منظر بالکل واضح ہو چکا تھا۔

6جون 1989کو ہماری گود میں آنکھ کھولنے والا، وہ سایہ سا ایک شخص میرے آنگن کا گھنا درخت تھا۔سکول و کالج کے زمانے میں ہمیشہ ٹاپ پوزیشن پر رہا۔ بہت کم عمری میں غالب و اقبال، نسیم حجازی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، فیض و فراز، مولانا رومی، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، شیکسپیئر ،ٹالسٹائی ،میکسم گورکی اور سینکڑوں ادیبوں کو ازبر کر لیا۔ 2007 میں نہایت امتیازی حیثیت سے ایف ایس سی کرنے کے بعد آرمی میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے بتیسویں کورس میں داخلہ لیا۔ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ چند ہی جست میں کئی منزلیں طے کر گیا۔

کالج کی قاسم کمپنی کا مکین تھا۔ پانچ سال کے عرصے میں نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں میں آگے آگے رہا۔ 21اپریل 2013کو ملٹری اکیڈیمی کاکول سے پاس آئوٹ ہونے کے بعد میڈیکل کور میں بطور کیپٹن باضابطہ کمیشن حاصل کیا۔ ایک سال کے لئے پہلی پوسٹنگ سی ایم ایچ پشاور میں ہوئی۔ ڈیڑھ سال پدھاڑ آزادکشمیر میں گزارا۔ اگلے مرحلے کی پوسٹنگ اور زندگی کے آخری سفر کے لئے سیاچن کی بلند ترین چوٹی کا انتخاب ہوا۔ سیاچن میں بالتور و دنیا کا بلند ترین جنگی میدان شمار ہوتا ہے۔ راستے انتہائی کٹھن اور درجہ حرارت منفی پچاس ڈگری سیٹی گریڈ۔ وہاں افواج پاکستان کے سرفروش مادر وطن کی حفاظت کے لئے سربکف رہتے ہیں تاکہ دشمن کو وطن عزیز پر میلی نظرڈالنے کی جرأت نہ ہو سکے۔ وہاں جانے سے پہلے ہی دوستوں سے شہادت کی آرزو کیا کرتا اور کہا کرتا، ’’بزدل ہر روز کئی بار مرتے ہیں، بہادر صرف ایک بار مرتا ہے‘‘ اور امر ہو جاتا ہے اور وہ امر ہو گیا۔ جارج برنارڈشا کے ایک ناول کے کردار کا حوالہ دیتے ہیں کہا کرتا تھا:

’’There is always danger for those who are afraid of it.‘‘

مجھ سے کہنے لگا، ’’پاپا جانی! سیاچن انتہائی دلکش علاقہ ہے۔ اسے پوری طرح دریافت ہی نہیں کیا گیا۔‘‘ وہ اس علاقے کو دریافت کرنے نکلا اور پھر وہیں کھو گیا۔ کہا کرتا تھا، ’’یہ دنیا بہت چھوٹی ہے۔ میں کسی وسیع دنیا کا باشندہ ہوں۔‘‘ پھر تم وسیع دنیا میں ہی چلے گئے۔چھبیس سال کی عمر میں عالم شباب سے بھرپور یہ میرا اکلوتا بیٹا کیپٹن اسامہ بن نثار تھا۔ جواب کیپٹن ڈاکٹر اسامہ شہید ہے۔

بہت چھوٹی سی عمر میں محض دوسری جماعت کے طالب علم کی حیثیت سے چودہ اگست کے موقع پر سیکڑوں کے مجمعے میں وطن کی محبت کا نغمہ الاپتے ہوئے کہا تھا۔

'If you want to live with honour and dignity, love the motherland and be ready for every kind of sacrifice'

کالج میں داخلے کے وقت انٹرویو میں کہا:

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں

انٹرویو کرنے والے افسروں نے کہا، اسامہ کوئی اور شعر سنائو تو کہا:

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

خوں آتا ہے جب نہیں آتا

شہید بیٹے، تم نے بالکل صحیح کہا تھا۔ یہ شعر مجھ پر صادق آتا ہے۔ میری چشم خوں بستہ اشک نہیں لہو اگلتی ہے۔ خون روتی خراب آنکھیں مجھ سے پوچھتی ہیںکہ وہ راہ حق کا مسافر تجھے تنہا چھوڑ کر کہاں گیا۔ یہ وادیاں تو گلوں کا مسکن ہیں اور محبتوں کے لطیف چشمے مسرتوں سے بھرے ہوئے ہیں مگر تمہارے لئے نہیں۔ تم ان سے محروم ہو۔ اب تنہا بیٹھ کر اشکوں کے ساتھ صبح کو شام کیا کرنا کیوں کہ تمہارا شام تم سے رخصت ہوچکا۔ اب اس کا سہرا لکھنے کا انتظار نہ کرنا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اس کے سہرے کے لئے چنے پھول اس کی تربت پرڈالنے ہوں گے۔میرے شہید! میں بہت دور تک درد کے پاتال میں اتر گیا ہوں۔ تمہیں رخصت کرتے وقت میں نے تم سے کہا تھا،’’ بیٹا جی! مجھے اپنی خیریت کی خبر دیتے رہنا۔‘‘ آپ نے کہا، ’’پاپا جانی No news is good news ‘‘بیٹا تم نے ٹھیک ہی کہا تھا،جب تک تمہارے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی تو خیریت تھی۔ جب خبر آئی تو شہادت کی۔ تم نے وردی میں میرے سامنے آنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ صرف ایک بار باوردی دیکھا، بہت سجیلے اور بھرپور بانکپن میں دکھائی دیئے۔ جیسے ہی میری دزدیدہ نگاہی کا علم ہوا فوراً سادہ کپڑوں میں ملبوس ہو آئے۔ گھر میں رکھنے کے لئے وردی میں کوئی تصویر بھی نہ چھوڑی، شاید تمہارے وجدان میں شہادت کے چراغ بہت پہلے ہی ضوفشاں ہو چکے تھے۔ تم نے اس کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔

تمہارے متعلق لکھنے بیٹھا ہوں تو دیوار جاں ٹوٹ رہی ہے۔ شہید بیٹے! میں نے انگلیوں کو خون جگر میں ڈبو لیا ہے۔ شب کے سناٹے کا عفریت میرے جسم کو نوچتا ہے۔ رات سیاہ قبا پہنے تمہاری فرقت کے نغمے چھیڑتی ہے اور میرے رگ و جاں میں نیزے اتار دیتی ہے۔ الفاظ چوکڑیاں بھرنا بھول گئے ہیں۔ ہونٹوں پر پپڑیاں، زباں لب بستہ اور قلم شکستہ، تمہارے فراق میں وقت کا پنچھی رات کے کسی لمحے دردوسوز کی لے پر المیہ گیت چھیڑتا ہے۔ تو شب کے سناٹے میں میری گھائل روح کو چھیدتا چلا جاتا ہے۔ اشکوں کا بے تاب سیل رواں خود ہی بہہ نکلتا ہے اور ضبط کے بند آپ ہی آپ ٹوٹ جاتے ہیں۔ خداوند عالم بزرگ و برتر، میرے آنسوئوں پہ میری گرفت نہ کرنا۔ ان پر میرا کچھ اختیار نہیں۔

تمہاری ماں بظاہر بہادر نظر آتی ہے مگر اندر سے ریزہ ریزہ۔ چار سال بعد امریکہ سے لوٹ کر ملنے آنے والی تمہاری بڑی بہن رافعہ ہارون گنگ زبان کے ساتھ سوالیہ نظروں سے مجھ سے پوچھتی ہے۔ میرا بھائی کہاں ہے۔ بھانجھا فائق احمد ضیا اور ننھی عدن ضیا ڈبڈباتی آنکھوں سے گھر کے سونے ماحول کو دیکھ رہے ہیں۔ تمہارے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہنے والی اٹھکیلیاں کرنے والی چھوٹی بہن ڈاکٹر شافعہ نثار ہمیں تسلیاں دیتی ہے۔ خود رات کی تنہائیوں میں اشک بار رہتی ہے۔ ڈاکٹر روحمہ جس سے تمہاری نسبت طے ہو چکی تھی، حیرت سے تکتی ہے۔ میرا ہونے والا ہم سفر کہاں گیا۔ تمہارے انکلز اور کزنز غم کی تصویر بنے نظرآتے ہیں۔ تمہارے دوستوں اور رفقائے کار کو تمہارے تذکروں سے فرصت نہیں، میں کسی کو کیا جواب دوں۔ میں تو خود حیرت کدے میں بت بنا کھڑا ہوں۔ تمہاری یادوں کے جلترنگ بجتے ہیں تو امیدوں کے معبدوں اور آنکھوں کے طاقچوں میں رکھے چراغ ایک ایک کر کے بجھتے چلے جاتے ہیں۔ لوگ مجھ گنہ گار سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں کہ میں شہید کا باپ ہوں۔ مگر میں کس قدر بکھر گیا ہوں، کوئی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ د نیا میں تم ہی میرے دوست اور یار طرح دار تھے۔ تمہارا ہاتھ میری زندگی کی نبض پر تھا۔ وقت کی دہلیز پر یہ نبض اب ڈوب رہی ہے۔

تم تو جذبہ کیف میں ڈوبے ہوئے تھے، سیاچن میں قیام کے دوران دو بار تمہاری طبیعت خراب ہوئی۔ ہمیں خبر تک نہ ہونے دی۔ تم 123میڈیکل بٹالین کا حصہ تھے۔ ڈاکٹر ہونے کے ناتے ہیلی کاپٹر تمہاری صوابدید پر تھا۔ اپنے ساتھی کیپٹن کو بیمار ہونے پر بذریعہ ہیلی کاپٹر علاج کی غرض سے نیچے والی پوسٹ پر بھیج دیا اور خود ہیلی کاپٹر کا سہارا لینے سے انکار کر دیا۔ تمہارا اصرار تھا کہ میں پیچھے ہٹنے کے بجائے ہر صورت اگلی پوسٹ پر پہنچوں گا۔ پاک فوج نے مجھے مسیحا بنا کر اپنے ساتھیوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کے لئے مقرر کیا ہے۔ میں اپنے سینے پر بزدلی کا داغ نہیں سجا سکتا اور نہ ہی میری خودداری اس کی اجازت دیتی ہے۔ تمہارے سینئر اور جونیئر افسران نے روکا بھی کہ اسامہ آخری پوائنٹ تک جانے سے پہلے کچھ آرام کر لو لیکن تم بضد رہے کہ میں ساتھیوں کوتنہا نہیں چھوڑ سکتا۔میں ان کے ساتھ ہی اگلی پوسٹ پر پہنچوں گا۔ تمہارا ایک ہی عزم تھا کہ ہر حال میں دنیا کی بلند ترین جنگی چوٹی پر پہنچ کر سورج کی پہلی کرن وہاں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ نے مجھ سے کوئی بڑا کام لینا ہے۔ تم نے واقعی سورج کی روپہلی کرنوں کو وہاں روشنی بکھیرتے دیکھا۔ تم تیموری پوسٹ کراس کر کے تقریباً 20ہزار فٹ کی بلندی پرپہنچ چکے تھے کہ ہائی آلٹیچیوڈ ایفیکٹ کی بدولت تمہارے دماغ اور پھیپھڑوں میں سوجن ہو گئی۔ ایسے میں ریکوری کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں اور ریسکیو ٹیم کے پہنچنے سے پہلے تم بہشت آفریں نظاروں سے ہم کنار ہو گئے۔ تم نے کہا تھاکہ میری شہادت قریب ہے۔ ہیلی کاپٹر تیار رکھنا اور مجھے میری ماں کے پاس پہنچا دینا۔ پھر تمہارا تابوت پاکستان کے پرچم میں لپٹ کر تمہاری ماں کے پاس پہنچ گیا۔

شہید بیٹے تم! نے وطن عزیز کی سربلندی کے لئے اپنی جان نثار کر دی اور دشمن کو یہ پیغام دے گئے کہ وطن کی سرحدوں پر مامور ہر جوان اسامہ بن کر پہرا دے رہا ہے۔ کسی کو کیا خبر کہ پاک افواج کے جوان اور افسر چٹیل میدانوں، صحرائوں، ریگستانوں، تندخو دریائوں، بپھری ہوئی فضائوں اور فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں پر جوانی کے مزے نہیں لیتے، وہ تو جان ہتھیلی پر رکھ کر قوم کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس دکھ کو وہ مائیں جانتی ہیں جن کے جگر گوشے ان سے جدا ہوگئے۔ وطن عزیز کے یہ رکھوالے اپنے والدین، بہن بھائیوں اور اپنی سہاگنوں پر بھی نہیں کھلتے کہ خاموشی ہی ان کے منصب کا تقاضا ہے۔ خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را۔

پاکستان آرمی کی انتہائی اعلی قیادت نے میرے نام اپنے خطوط میں، جن میں تعزیت بھی ہے اور پیغام تہنیت بھی، تمہیں بہت زریں الفاظ میں خراج پیش کیا۔ 

تازہ ترین