• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

غنی اگر قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو اس پر کیا حکم ہے ؟

تفہیم المسائل

سوال: آٹھ سال پہلے زید نے بکر سے دس تولے سونا ادھار لیا اور جلد ازجلد واپس کر نے کاوعدہ کیا ۔زید نے بکرکے دس تولے میں سے کچھ واپس کردیا ہے ، زید غنی ہے اور سونا واپس کرسکتاہے ،لیکن بقیہ سونا واپس کرنے میں مسلسل ٹال مٹول کررہاہے ۔اس کے اس عمل پر کیاحکم لگے گا ؟(عبدالرحیم ، کراچی)

جواب: مالدار شخص کا قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنا قابل مذمت فعل ہے ،اس میں اختلاف ہے کہ جو شخص عمداً تاخیر کرے ،اس کا یہ فعل گناہ کبیرہ ہے یا نہیں؟ لیکن اگر وہ باربار اس طرح کرے تو فاسق قراردیاجائے گا ۔حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غنی کا (قرض کی ادائیگی میں) تاخیر کرنا ظلم ہے ،(صحیح بخاری:2287)‘‘۔

امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا: لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالٌ (جس کا حق ہوتاہے ،اس کو تقاضا کرنے میں سختی کی گنجائش ہوتی ہے )اس کے تحت لکھا:ترجمہ:’’ اورنبی ﷺ سے روایت ہے : جس کے پاس قرض اداکرنے کی گنجائش ہو ،اس کا تاخیر کرنا اس کی سزا اور اس کی عزت کو حلال کردیتاہے ،عزت کو حلال کرنا یہ ہے کہ قرض خواہ کہے: تم مجھ سے ٹال مٹول کررہے ہو اور اس کی سزا اسے قید کرنا ہے ‘‘۔

حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ سے ایک شخص نے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور اس نے سختی سے بات کی تو آپ ﷺ کے اصحاب نے اس (کو مارنے یا ڈانٹنے )کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑدو ،کیونکہ حق دار کو سختی سے بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے ،(صحیح بخاری:2401)‘‘۔

اگر کوئی شخص ادائیگیٔ قرض کی نیت کرلے تو اُسے تائیدِ غیبی حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ قرض کی ادائیگی میں آسانی فرمادیتاہے :ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے لوگوں سے مال لیا اوروہ ان کو اداکرنے کا ارادہ رکھتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے (ان اموال کو) اداکرنے کے اسباب مقدر فرمادے گا اور جولوگوں کے مال(قرض کے طورپر )لے کر ان کو تلف کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے تلف کردے گا ،(صحیح بخاری:2387)‘‘۔

ضرورت کے بغیر قرض لینا توکوئی پسندیدہ روش نہیں ہے ،لیکن بعض اوقات انسان حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر ناگزیر طورپر قرض لیتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وسائل دستیاب ہوتے ہی جتنی جلد ی ممکن ہو ،اس قرض سے چھٹکارا حاصل کرے اور جب تک وسائل دستیاب نہ ہوں توقرض خواہ سے مہلت مانگے اورجو مقروض شخص قرض کی ادائیگی کا ارادہ کرتاہے ،اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسباب پیدافرماتاہے ۔البتہ اگر کوئی قرض لیتاہے اور بروقت ادائیگی کی نیت بھی ہے توقرض لینا مذموم نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس لیے قرض سے پناہ مانگا کرتے تھے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ بروقت ادائیگی کا اہتمام نہ ہوسکے ، صحیح بخاری کی حدیث میں ہے :ترجمہ:’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:رسول اللہ ﷺنماز میں دعا مانگتے تھے اور (تعلیمِ اُمّت کے لیے)اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے: اے اللہ! میں قرض اور گناہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں، تو ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! آپ قرض سے بہت زیادہ پناہ طلب کرتے ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص جب مقروض ہوتا ہے تو وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور (قرض ادا کرنے کا)وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے، (صحیح بخاری:2397)‘‘۔

تازہ ترین
تازہ ترین