• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیرت ہے کہ مجھے اس پر نہ حیرت ہوتی ہے اور نہ ہی دکھ ہوتا ہے۔ شاید گزرتی عمر نے مجھے اس کا عادی بنا دیا ہے۔ کتابیں پڑھنے اور تحقیق پر عرق ریزی کرنے کا رواج یوں بھی دم توڑ رہا ہے بلکہ آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ نوجوان نسل کمپیوٹر کو ہی پوری کائنات سمجھتی ہے اور سانحہ یہ ہے کہ کمپیوٹر کی دنیا میں دی گئی علمی ویب سائٹس میں اتنی غلط، یکطرفہ اور ’’آزاد‘‘ انفارمیشن بھر دی گئی ہے کہ خود اس کی تصدیق کے لئے تحقیق لازم ہے۔ نام نہاد سوشل میڈیا اسی دنیا کا ایک اہم ستون ہے اور ہماری نگاہوں کے سامنے سوشل میڈیا جھوٹ کا شاہکار بنتا جا رہا ہے۔ بے شمار طلبہ سے ملنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ان کی علمی کائنات سکڑتی جا رہی ہے۔ انہیں اپنے مضمون کے علاوہ کسی اور مضمون حتیٰ کہ بنیادی انفارمیشن اور اپنے ملک کی تاریخ بارے کچھ بھی علم نہیں۔ کتابیں پڑھنے کا رواج اور مطالعہ کو وسیع کرنے کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ میرے نزدیک یہ صورت ایک سانحے سے کم نہیں۔

ذکر ہو رہا تھا پاکستانیات کا اور میں طلبہ کے ایک گروہ میں بیٹھا تھا۔ تبادلہ خیال سے راز کھلا کہ ہمارے ہونہار طلبہ کو ماشاء اللہ پاکستان اور قائد اعظم کے بارے سنی سنائی باتوں کے علاوہ کچھ بھی علم نہیں۔ طلبہ میں کتب بینی اور مطالعے کا ذوق استاد پیدا کرتا ہے۔ جب استاد ہی ان عادات سے فارغ ہو تو پھر نوجوانوں سے کیا گلہ؟ طالب علموں سے کیا گلہ جب ہمارے نامور دانشور اور بڑے بڑے اخبارات میں لکھنے والے ممتاز لکھاریوں کی تحریریں غلط فہمیاں پھیلاتی ہوں اور بلا تحقیق لکھنے کی چغلی کھاتی ہوں۔ ظاہر ہے کہ بڑے اخبارات میں چھپنے والی تحریر لاکھوں نہ سہی ہزاروں قاریوں کو تو بہرحال متاثر کرتی ہے۔ میرا حسن ظن ہے کہ ابھی تک چھپا ہوا لفظ اہمیت اور تقدس رکھتا ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ شاید آئندہ چند دہائیوں میں چھپے ہوئے الفاظ اپنا تقدس بھی کھو بیٹھیں گے۔ غور کریں تو محسوس ہو گا کہ ہم اس ’’کھوٹی‘‘ منزل کی جانب بڑے خلوص سے بڑھ رہے ہیں۔

یہ تو تھا تھوڑے سے درد دل کا اظہار ورنہ مجھے خود اپنی علمی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہے۔ سارے کالم پڑھ نہیں سکتا مگر اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے اکثر کالموں سے استفادہ کرتا ہوں۔ ان میں اگر قائد اعظم کے حوالے سے کوئی غیرمستند انفارمیشن یا نقطہ نظر میری طالب علمانہ نگاہ سے گزرے تو بصد ادب اس کی تردید یا وضاحت کی جسارت کرتا ہوں تاکہ ہزاروں قارئین غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ سمجھنے والے جو مرضی ہے سمجھیں لیکن میں یہ جسارت قومی خدمت کے جذبے کے تحت کرتا ہوں۔

20جولائی کو اچانک محترم جی این مغل صاحب کے کالم پر نظر پڑ گئی تو میں ایک فقرہ پڑھ کر چونک گیا۔ قائد اعظم کی 11اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی میں تقریر گزشتہ تین دہائیوں سے مشق ستم بنی ہوئی ہے۔ لبرل ازم اور سیکولر ازم کا پرچار کرنے والوں نے قائد اعظم کی سینکڑوں تقاریر میں سے صرف اسی کا انتخاب کیا ہے اور اس کی ایسی ایسی توضیحات کی ہیں کہ میں ان کی ذہانت کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ البتہ قائد اعظم کی روح کو ان سے تکلیف ہوتی ہو گی کیونکہ انہوں نے صرف ایک ہی نہیں بلکہ سینکڑوں تقاریر کیں جن کو پڑھے بغیر ان سے انصاف نہیں ہو سکتا۔ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ چند حکومتی حضرات نے اس تقریر کو سنسر کرنے کی جسارت کی۔ میری تحقیق کے مطابق اس تھیوری میں تھوڑی سی جان ہے باقی سب مبالغہ۔ یہ حقیقت ذہن میں رکھیں کہ دستور ساز اسمبلی کی کارروائی سرکاری گزٹ کی صورت میں چھپتی رہتی ہے۔ قائد اعظم کی گیارہ اگست 47ء والی تقریر دستور ساز اسمبلی کی کارروائی میں من و عن چھپی ہوئی ہے۔ بارہ اور تیرہ اگست 1947ء کے اخبارات میں بھی پوری تقریر چھپی ہوئی ہے تو پھر سنسر کس نے کی؟ اس کا مطلب ہے کہ جن چند حضرات نے اس کے چند فقرے سنسر کرنے کا سوچا وہ ناکام ہوئے۔ ہم نے اسے سازش بنا کر بانس پر چڑھا دیا۔

جی این مغل صاحب نے اپنے کالم میں گیارہ اگست کی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے قائد اعظم کے حوالے سے لکھا تھا ’’پاکستان کا ریاستی مذہب نہیں ہو گا۔‘‘ بہ امر مجبوری مجھے یہ تقریر ایک بار پھر پڑھنی پڑی۔ سچ یہ ہے کہ قائد اعظم نے کبھی ایسی بات نہیں کی۔ انہوں نے فقط یہ کہا کہ ’’آپ کا جس مذہب سے بھی تعلق ہو، اس کا حکومتی بزنس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ ان کی تقریر مذہبی آزادی کا پروانہ تھی جو اسلامی حکومتوں کا طرئہ امتیاز رہا ہے نہ کہ سیکولر ازم کا پیغام___ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہو گا‘‘ کا مطلب اور ہے اور یہ کہ ’’حکومت مذہب کی بنا پر شہریوں میں امتیاز نہیں کرے گی‘‘ کا مطلب یکسر مختلف ہے۔ قائد اعظم کے کثرت سے حوالہ بن جانے والے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

"You may belong to any religion or caste or creed __ that has nothing to do with the business of state."

براہ کرم نوٹ فرما لیں کہ قائد اعظم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان کا ریاستی مذہب نہیں ہو گا کیونکہ وہ اس سے قبل ایک سو بار سے زیادہ کہہ چکے تھے کہ پاکستان کے آئین، قانون وغیرہ کی بنیاد اسلامی اصولوں پر تعمیر کی جائے گی، قرآن ہمارا آئین ہے، قرآنی اصول آج بھی اُسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح 1400سال پہلے تھے، پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہو گا اور ہم دنیا کو اسلامی آئین و قانون بنا کر دکھائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی بے شمار مختلف مواقع پر کی گئی تقاریر کے بعد وہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ پاکستان کا ریاستی مذہب نہیں ہو گا؟ اگر اُن کے ذہن میں ایسا کوئی خیال ہوتا تو وہ قیام پاکستان کے بعد درجن بار یہ بیان نہ دیتے کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کی جائے گی نہ ہی امریکی عوام کے نام اپنے براڈ کاسٹ پیغام میں پاکستان کو پریمئر اسلامی ریاست قرار دیتے۔

اسی طرح کچھ دن قبل میں محترم نفیس صدیقی کے کالم میں یہ الفاظ پڑھ کر ٹھٹک گیا۔ مجھے خدشہ ہوا کہ ان الفاظ سے غلط تاثر کو ہوا ملے گی کیونکہ قائد اعظم کے یوم وفات گیارہ ستمبر 48ء سے بہت سی سازشی تھیوریاں وابستہ ہیں۔

الفاظ ملاحظہ فرمایئے ’’قائد نے کراچی کے ستمبر کے قہر آلود گرم موسم میں ماڑی پور روڈ پر بے بسی کے عالم میں زندگی کے آخری سانس لئے۔ ‘‘ یہ درست ہے کہ قائد اعظم کی ایمبولنس خراب ہو گئی تھی لیکن یہ غلط ہے کہ انہوں نے وہیں زندگی کے آخری سانس لئے۔ مستند تاریخی ریکارڈ کے مطابق قائد اعظم کے معالج کرنل الٰہی بخش کے مشورے پر انہیں کراچی لایا گیا تھا کیونکہ انہوں نے بتا دیا تھا کہ قائد چند دنوں کے مہمان ہیں۔ مستند ریکارڈ کے مطابق قائد اعظم کا طیارہ 11ستمبر کو سوا چار بجے کراچی پہنچا۔ بقول قائد اعظم کے اے ڈی سی کیپٹن نور حسین جو ان کے ساتھ تھے کہ ہم کوئی ایک گھنٹے میں قائد اعظم کو لے کر گورنر جنرل ہائوس پہنچ گئے۔ رات ساڑھے نو بجے ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی، بے ہوشی طاری ہو گئی اور ان کے معالجین کرنل الٰہی بخش، ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور ڈاکٹر مستری کی موجودگی میں ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ پاکستانی قوم باپ سے اور پاکستان اپنے عظیم ترین لیڈر سے محروم ہو گیا۔ دنیا دارالفنا ہے اور موت کا وقت مقرر ہے۔

اس حوالے سے خواجہ رضی حیدر کی کتاب قائد اعظم کے 72سال اہم ہے۔ عام طور پر مجھے ان معاملات میں حیرت ہوتی ہے نہ صدمہ لیکن واٹس ایپ میں ایک قاری کی رائے پڑھ کر تھوڑا صدمہ ہوا۔ لکھا تھا کہ قائداعظم نے پاکستان کا ترانہ ہندو سے لکھوایا۔ یہ وہی جگن ناتھ آزاد والا شوشہ ہے جس کی متعدد بار تردید کر چکا ہوں کہ قائد اعظم نہ جگن ناتھ کو جانتے تھے نہ کبھی اُس سے ترانہ لکھنے کو کہا اور نہ ہی جگن ناتھ نے پاکستان کا ترانہ لکھا۔ یہ سب جھوٹ اور سفید جھوٹ ہے لیکن اس سے اندازہ کیجئے جھوٹ کتنا طاقتور ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین