• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید؟

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں، امریکہ نے ڈو مور کا مطالبہ نہیں کیا جبکہ امریکی وزا رت خارجہ کا بیان ہے، دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا، امریکی رویوں کو اگر شاعرانہ انداز میں بیان کیا جائے اور پاکستان کی پوزیشن بتانا مقصود ہو تو غالب کا یہ ایک شعر کافی ہے؎

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

یہ کہنا درست نہیں کہ امریکہ ڈو مور کے مطالبے سے باز آچکا ہے ا ور یہ درست ہے کہ ٹرمپ اپنی ’’خوش گفتاری‘‘ کے لئے مشہور ہیں، مگر ان سے پہلے بھی امریکہ کی جانب سے ڈکٹیشن ہی ملتی رہی ہےجسے ڈو مور کہا جاتا اور 70برس پاکستان اس کی ڈکٹیشن کو قبول کرتا رہا ہے۔ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی ماضی بعید سے امریکہ کے حوالے سے یس سر والی رکھی ہے، اب جو عادت اسے پڑگئ ہے اس کا بدلنا مشکل ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے آنے سے پہلے ہی جو کہا وہ ہمارے لئے کافی تھا، تاہم ان کا پاکستان آنا کچھ برا نہیں مگر ہم نہیں سمجھتے کہ وہ عملاً اپنے رویے کو بدلے گا۔ پاکستان امریکہ تعلقات ابتداء ہی سے یکطرفہ رہے ہیں اور ہمارے لئے یہ خسارے کا سودا ثابت ہوتا رہا، مگر ہمارے ہاں مختلف ادوار حکومت میں سب سے کمزور وزارت، وزارت خارجہ ہی رہی ہے۔ ہماری غفلت کا یہ عالم رہا کہ کتنا عرصہ یہ وزارت بےوزیر رہی۔ اب ایک راستہ ہے کہ ہم امریکہ سے نہ تو بگاڑیںاورنہ خوشگوار تعلقات کی بھیک مانگیں، امریکہ کو حالیہ دورہ پاکستان میں پاکستان کی باڈی لینگوئج سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پاکستان کی نئی حکومت کا انداز بھی نیا ہے۔ یہ نیا پن جاری رہنا چاہئے، امریکہ کو دہشت گردی کے حوالے سے کوئی فکر نہیں وہ جانتا ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس کی تکالیف کچھ اور ہیں، وہ چاہتا ہے کہ وہ جس سے دوستی کی اجازت دے ہم فقط اسی سے دوستی رکھیں۔ ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ ہمارے لئے ممکن نہیں ہماری خود مختاری کی بھی کھلی توہین ہے، جواب مزید برداشت نہیں کی جاسکتی۔ امریکہ پر بھارت کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں ،امریکی وزارت خارجہ کے منہ میں بھارتی وزارت خارجہ کی زبان ہے، ہمیںجذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، ہمیں مثبت و معتدل رویہ ہی کافی ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

نیا پاکستان نئے اضافے

وزیر اعظم نے گیس کی قیمتوں میں46فیصد اضافہ کرنے کی منظوری دے دی، بجلی پہلے ہی مہنگی کردی گئی ہے، یہ ہیں وہ باتیں، جن پر سابقہ حکومت کو برا بھلا کہا جاتاتھا اور اب خود تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے تو آتے ہی عام آدمی کی دہری کمر کو نشانہ بنالیا۔ مہنگی گیس کا منفی اثر عام غریب آدمی پر پڑے گا، مہنگائی میں اضافہ ہوگا، پی ٹی آئی کا ملک گیر پیمانے پر تاثر خراب ہوگا۔ 46فیصد اضافہ کوئی معمولی اضافہ نہیں مفلس کا چولہا بجھ جائے گا،ہم کروڑوں غریب عوام کی جانب سے وزیر اعظم سے گزارش کریں گے کہ وہ یہ اضافہ واپس لیں اور وزیر خزانہ بھی اپنے ان اعتراضات کو یاد کریں جو بجلی گیس کے حوالے سے سابقہ حکومت پر اٹھاتے رہے، ابھی تو سردیوں کا آغاز نہیں ہوا کہ غریب کے کچن پر بم گرادیا گیا۔ عام آدمی، حکومتی حیل و حجت کو سمجھتا ہے نہ مانتا ہے، وہ تو اس حکومت کو لایا ہی اپنا چولہا گرم رکھنے کے لئے ہے، بعض اخبارات میں عام صارف کے لئے180فیصد اور کمرشل صارف کے لئے 46فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس طرح گھریلو صارف اب 210.3کے بجائے589.09روپے ادا کرے گا، اس ابہام کو بھی دور کیا جائے اور اگر 46فیصد اضافہ بھی گھریلو صارفین کے لئے ہے تو یہ بہت زیادہ ہے، کیا عوام کو اس بات سے بہلانا ہے کہ ہم تمہارے لئے نئی نویلی حکومت لائے اور پرانی سے نجات دلادی؟ تقریباً 90فیصد وہ لوگ ہیں جو غریب ہیں، 10فیصد تو ہر فکر سے ہر غم سے بیگانہ ہیں، اب یہ نوے فیصد جو اس نئی حکومت کو جس کی بغل میں نیا پاکستان ہے انہیں تو یہ نیا پاکستان بہت مہنگا پڑے گا، عوام مزید کتنی قربانیاں دیں، اگر مہنگائی اور بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ کرکے ہی نیا پاکستان بنانا ہے تو اس کے نتائج کا اندازہ موجودہ حکومت کو کرلینا چاہئے، غضب تو یہ ہے کہ جس بنیادی ضرورت کا نرخ جہاں پہنچایا جاتا پھر وہاں سے نیچے نہیں آتا گیس کے نئے نرخوں کو پیپلز پارٹی نے مسترد کردیا ہے۔ تمام اپوزیشن پارلیمنٹ کی وساطت سے گیس بجلی کے نرخ واپس لینے کا مطالبہ کرے، ہم تحریروں سے بندہ مفلس کو خاموش نہیں کراسکتے ، عام ضروریات کی سستی فراہمی کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

میڈیا مہنگائی کے خلاف آواز بلند کرے

ایسے موضوعات جن کا غریبوں کی بدحالی سے کوئی تعلق نہ ہو ان پر شب و روز ہر چینل پر جرگہ بٹھانا چہ معنی دارد؟ الیکٹرانک میڈیا غریب اکثریت کے مسائل کو مدلل انداز میں حقائق و ا عداد و شمار کے ساتھ پیش کرے، آخر سارا زور سیاسی موضوعات پر زمین آسمان کے قلابے ملانے پر ہی کیوں؟ کیا چینلز یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ اپنا چولہا جلانے کی فکر سے فارغ نہیں وہ تو یہ افلاطونی پروگرام دیکھتے ہی نہیں، ہمارے اشتہارات میں غریب کلچر کی جھلک ہی نہیں ہوتی امیرانہ ٹھاٹ بھاٹ کے مناظر کے ذریعے ایسی پراڈکٹس کی تشہیر للچا دینے کے اندازمیں کی جاتی ہے کہ یو ں لگتا ہے اس ملک میں کہیں کوئی غریب بستا ہی نہیں، طبقہ امراء کے موضوعات، ڈرامے اور موسیقی پیش کی جاتی ہے، جو ایک ذہنی تعیش ہے جس کا بندہ مفلس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، انگریزی اردو مکس امیرانہ باتیں اور اس کے سوا کچھ نہیں، ہماری تمام قومی چینلز سے گزارش ہے کہ غریبوں کے اوقات کی تنگی کو ہائی لائٹ کریں، زیادہ وقت اکثریت کے مسائل کو دیں جن کے لئے صبح کرنا شام کا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ہر روز کسی نہ کسی بنیادی ضرورت کی چیز کے نرخ میں اضافے کااعلان ہوتا ہے، اس پر کوئی ٹاک شو کیوں نہیں ہوتا، عام غریب آدمی کو دنیا بھر کی ان خبروں سے کیا سروکار جو روٹی کمانے کے لئے سو سو جتن کرتے ہیں اور تھک ہار کر سو جاتے ہیں، کیا یہ ممکن نہیں کہ حکومت کو ایسا پروگرام دیا جائے جس کے ذریعے اسے معلوم ہو کہ ایک ہی بازار میں ایک ہی عام آدمی کی ضرورت کی چیز کا ریٹ ہر دکان پر مختلف ہے اور حکومت کو آمادہ کیا جائے کہ وہ یکساں نرخ کا نظام ہی نافذ کردے۔ آج غریب آدمی پھل کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیا کبھی کسی چینل نے غریبوں کے حالات پر مستقل پروگراموں کے سلسلے جاری کئے۔ انٹرٹینمٹ سے پیٹ نہیں بھرتا ہے، یہ بڑے پیٹوں کے چونچلے ہیں، کاش کوئی غریبوں کا مخصوص چینل بھی ہوتا جس پر بڑے بڑے غریبوں کے ٹاک شوز کرائے جاتے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

اب مڑ مڑ کے نہ دیکھ!

٭...یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا فیصلہ اچھا فیصلہ ہے اگر رائج ہوجائے۔

٭...خبر ہے کہ امریکی دھمکیاں مسترد، ہر مطالبہ تسلیم نہیں کرسکتے، خدا کرے ایسا ہی ہو۔

٭...ابھی تو حلف برداریاں ختم نہیں ہوئیں، عوام کی ناز برداریاں کب شروع ہوں گی۔

٭...کراچی میں پولیس کا چھاپہ، اداکار علی سلیم گرفتار’’میرا‘‘ کی موجودگی کا انکشاف، شراب کی بوتلیں برآمد۔

ان دنوں شراب زیر عتاب ہے، حالانکہ انگور کی بیٹی کی کہانی بہت پرانی ہے، علی سلیم، میرا اور بوتل یہ تین عناصر ہوں تو بنتا ہے مقدمہ۔

٭...قرض مانگنے کے لئے عالمی ادارے میں جائیں یا نہ جائیں۔

70سال جاتے رہے تو 71سال جانے میں کیا حرج۔

بلکہ جلدی کریں کہیں ٹرمپ عالمی مالیاتی ادارے کو منع نہ کردے۔

تازہ ترین