• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل کے سب سے بڑے ہال میں یہ کانفرنس ملی یکجہتی کونسل کے بینر تلے منعقد ہو رہی تھی۔ ترکی‘ یو اے ای‘ مصر ‘ سوڈان‘ افغانستان اور کئی دیگر اسلامی ممالک سے بھی افراد مدعو کئے گئے تھے۔ ملک بھر سے دینی شخصیات اور دینی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی کانفرنس کے منتظمین کے خرچے پر مدعو کیا گیا تھا۔ نہ صرف مدعوئین کا بلکہ ان میں سے بعض کے ساتھ آئے ہوئے گھر کے افرادکا بھی اسی ہوٹل میں رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ محترم قاضی حسین احمد بنیادی میزبان جبکہ محترم حافظ حسین احمد مہمانوں کے مہربان کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اس کانفرنس کی آخری نشست میں آخری خطاب جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کا رکھا گیا تھالیکن انہوں نے چونکہ کسی اور جگہ جانا تھا اس لئے ان کو پہلے دعوت خطاب دیا گیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے بڑی تفصیل سے آئندہ انتخابات میں کامیابی کے ممکنہ طریقوں پر روشنی ڈالی اور پھر باریک اشاروں کے ذریعے مولانا فضل الرحمن کی طرف سے ایم ایم اے کی بحالی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ میرے ساتھ میری میز پر کراچی سے تشریف لانے والے ایک بڑے علمی خانوادے کے چشم و چراغ بیٹھے تھے۔ کراچی کے حالات کی ابتری کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے میڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور فرمایا کہ آپ لوگ کراچی پر قابض گروہوں سے ڈرتے ہو۔ جواباً عرض کیا کہ سچ ہے ہم میڈیا والے ڈرتے ہیں اور پورا سچ نہیں بو ل سکتے لیکن کم ازکم مسئلے کو اجاگر اور اس کا ذکر تو کرتے رہتے ہیں لیکن آپ اور آپ جیسے دینی رہنما تو سرے سے پاکستان کے مسائل کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ ہم میڈیا والوں کی اکثریت تو مجھ جیسے گناہ گاروں پر مشتمل ہے لیکن آپ لوگ توشب و روز دنیا کی بے ثباتی کا درس دیتے اور شہادت کی تلقین کرتے رہتے ہیں پھر نہ جانے آپ لوگ موت سے اتنا کیوں ڈرتے ہو؟ آپ لوگ ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ آخرت میں سب سے پہلے انسان سے اس کے گھر اور پھر اس کے محلے کے بارے میں پوچھا جائے گا لیکن آپ کراچی میں رہتے ہیں تو کراچی کے بارے میں نہیں بولتے۔ محترم مولانا فضل الرحمن اورمحترم قاضی حسین احمد عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے زیرتسلط علاقوں میں رہتے ہیں تو وہ بولتے وقت ان دونوں کی حقیقت بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ میرا اور ان کا یہ مکالمہ جاری تھا کہ محترم قاضی حسین احمد کا اختتامی خطاب شروع ہوا۔ ہم ان کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اس کانفرنس کو کامیاب قرار دیتے ہوئے انہوں نے عالمی اسلامی تنظیموں کے درمیان رابطے کی ضرورت پر زور دیا اور مستقبل میں بھی اسی طرح کی کانفرنس کے انعقاد کا عزم کیا۔ پھر انہوں نے حسب روایت امریکہ کی خبر لی پھر عراق کا ذکر کیا پھر افغانستان کی باری آئی پھر ترکی اور مصر میں اسلام پسندوں کی کامیابیوں کی تفصیل بیان کی۔ اسی طرح سوڈان کا بھی خوب ذکر ہوا حتیٰ کہ انہوں نے بنگلہ دیش کا رونا بھی رویا اور فرمایا کہ کس طرح بنگلہ دیش کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنانے کی سازش ہو رہی ہے لیکن ذکر نہیں ہوا تو پاکستان کا نہیں ہوا۔ میں اور میرے ساتھ میز پر تشریف فرما دیگر احباب انتظار کرتے رہے کہ اب محترم قاضی حسین احمد پاکستان کے حدود میں داخل ہوں گے لیکن افسوس کہ پاکستان میں قدم رکھے بغیر انہوں نے تقریر ختم کردی۔ انہوں نے کراچی کا ذکر کیا اور نہ بلوچستان کا ‘ دہشت گردی کے مسئلے کی طرف آئے اور نہ وزیرستان کی طرف ۔ خودکش حملوں کے بارے میں لب کشائی کی اور نہ فرقہ واریت کے بارے میں دو لفظ لبوں پر لائے۔ پوری تقریر میں پاکستانی سرحدوں سے باہر رہے اور پھر سرحدوں کے باہر سے ہی مہمانوں کا شکریہ ادا کرکے اجازت طلب کی ۔ میں نے اپنے ساتھ تشریف فرما کراچی کے مولانا صاحب کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا پاکستان میں کسی بھی جگہ کوئی بھی مسئلہ نہیں؟ وہ میرا اشارہ سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ ہاں یہ المیہ تو ہے۔
یقیناوہ مسلمان نہیں جو فلسطینیوں کے لئے نہ تڑپے ۔ ان کا دعویٰ اسلام جھوٹا ہے جو کشمیر‘ افغانستان‘ عراق اور برما کے مسلمانوں کے دکھ اور درد کو محسوس نہ کرے ۔ امریکہ اور اس کے حواری جو کچھ کررہے ہیں ان کی خبر لینا اور حسب استطاعت ان کی سازشوں سے عالم اسلام کو بچانا تقاضائے ایمان ہے لیکن کیا کراچی اور وزیرستان یا پشاور اور بلوچستان کے باسی مسلمان نہیں اور کیا اسلامی تعلیمات کی رو سے قیامت کے دن ہم سے زیادہ اپنے پاکستان کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا؟ محترم قاضی حسین احمد کا دعویٰ ہے کہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے اندر فرقہ واریت کے خاتمے اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لئے قائم کی گئی ہے ۔ اگر واقعی مقصد یہی ہے تو پھر اس کی مجلس میں فرقہ واریت کے مسئلے پر ہی بات ہونی چاہئے تھی پھر تو یہاں جہاد و قتال اور عسکریت پسندی کے موضوعات ہی زیربحث آنے چاہئے تھے ۔ ایسے عالم میں جبکہ اگلے روز محرم کا مہینہ شروع ہورہا تھا‘ بین المسالک ہم آہنگی ہی پر مباحثہ ہونا چاہئے تھا لیکن وہاں مسئلے کی تنقیح ہوئی اور نہ محرم کے دوران ملی یکجہتی کونسل متحرک نظر آئی۔ محرم ہی کے ایام میں ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ کراچی‘ ڈی آئی خان‘ گلگت‘ جھنگ اور اسی نوع کے دیگر حساس مقامات کو چھوڑ کر مہمند ایجنسی کے دورے پر چل پڑے۔ وہاں ان کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ محفوظ رہے۔ اگلے دن اسلام آباد آئے اور یہاں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس میں انہوں نے اپنے اوپر حملے کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا (نہ جانے زندگی سے بلا کی حد تک پیار کرنے اور موت سے ڈرنے والے امریکیوں میں خودکش کہاں سے پیدا ہوگئے ) اور محرم کے دوران امن و امان برقراررکھنے کے سلسلے میں کسی سرگرمی کے اعلان کی بجائے آٹھویں محرم کو فلسطین کے حق میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔ان کے اس اعلان نے دیگر جماعتوں کو تو کیا خود جماعت اسلامی کو بھی مخمصے میں ڈال دیا۔ وہ اعلان کے مطابق احتجاج نہ کرے تو بھی مسئلہ اور اگر کرے تو محرم کی وجہ سے سیکورٹی کا مسئلہ۔ یوں چند شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں چند چھوٹے جلوس نکالے گئے اور بس۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ملی یکجہتی کونسل ہے یا پھر شخصی سیاسی کونسل؟ محترم قاضی حسین احمد کے تحرک ‘ نیک جذبے اور انقلابیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن شاید وہ عمر کے اس حصے میں اپنے غیرمعمولی تجربے اور بے پناہ صلاحیتوں کا بے جا استعمال کرکے خواہ مخواہ اپنی زندگی کو خطرے اور جماعت اسلامی کو آزمائش سے دوچار کر رہے ہیں۔ جماعت کی امارت سے فراغت کے بعد خود اس عاجز نے بھی انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ فرقہ واریت کے خاتمے اور جہاد و قتال سے متعلق قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے دینی حلقوں کا ایک غیرسیاسی فورم قائم کرلیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی گزارش کی گئی تھی کہ اس کے لئے شرط اولین یہ ہے کہ وہ جماعت اسلامی کی رکنیت سے بھی اپنے آپ کو فارغ کردیں ۔ اب پہلے تو وہ ادارہ فکر وعمل کے فورم سے سرگرم عمل رہے اور جب مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی کے بغیر ایم ایم اے فعال کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے ملی یکجہتی کونسل کو زندہ کرنا ضروری سمجھا۔ دعویٰ تو ان کا یہ ہے کہ یہ غیرسیاسی فورم ہوگا لیکن وہاں یکجہتی تو کہیں نظر نہیں آتی‘ ہر طرف سیاست ہی سیاست نظر آتی ہے۔ وہاں ایک مسلک کا غلبہ نظر آتا ہے اور مخالف مسلک کے لوگوں کا کوئی وجود نہیں ۔جماعت اسلامی کی روایات کے مطابق امیر جماعت فراغت کے بعد مکمل طور پر لاتعلق ہوجاتے ہیں لیکن محترم قاضی صاحب کی بحیثیت رکن جماعت یہ فعالیت ان روایات کے منافی ہے اور بعض اوقات جماعت کی قیادت کے لئے پریشانیوں کا موجب بھی بن جاتی ہے۔ دوسری طرف جب وہ ملی یکجہتی کونسل کے فورم کو جماعت اسلامی کے سیاسی ایجنڈے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کی اصل روح بھی فوت ہو جاتی ہے ۔ سیاست تو ہر کوئی کرسکتا ہے لیکن قوم اور بالخصوص مذہبی حلقوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ اگرمحترم قاضی صاحب جماعتی سیاست سے الگ ہوکر اپنے آپ کو مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور جہاد و قتال جیسے دینی احکامات کی تعبیر و تشریح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے وقف کردیں تو یہ ملک اور دین دونوں کی بڑی خدمت ہوگی تاہم اگر قاضی صاحب دو کشتیوں پر سواری کی کوشش جاری رکھتے ہیں تو خاکم بدہن وہی انجام ہوگا جو دوکشتیوں کے سوار کا ہوا کرتا ہے۔انہیں جماعت اسلامی اور کونسل یا پھر سیاست اور یکجہتی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
تازہ ترین