• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہادری کی داستانیں رقم کرنے میں اس قوم کا کوئی ثانی نہیں ہے کیونکہ اس کے بچے بھی سینے سے دھماکہ خیز مواد باندھ کر یاخودکش جیکٹ پہن کر اپنے ”اتالیق“ کی ہدایت کے مطابق اپنے ہدف پر پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیتے ہیں۔ دو تین دن پہلے پشاور سے خودکش جیکٹ پہنے ایک تیرہ سالہ لڑکا پکڑا گیا جبکہ اس کی ”رہنمائی“ کرنے والے نے زندگی کی صرف بیس یا اکیس بہاریں دیکھی تھیں۔ یہ نو عمر لڑکے موت کو گلے سے لگانے کے لئے غالباً اس لئے تیار ہو گئے تھے کہ اُن کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی تھی کہ بٹن دباتے ہی وہ فی الفور فردوس ِ بریں میں پہنچ جائیں گے جہاں انواع و اقسام کے چیزیں بڑی بے تابی سے اُن کے لئے چشم براہ ہوں گی۔ اپنی نوجوانی کے ایام میں میرے کانوں نے بھی بڑے مزے سے فصاحت و بلاغت کے دریا بہادینے والے واعظین سے پُرکیف باغات اور دودھ اور شہد کی نہروں کا ذکر سنا ہے اور سچی بات پوچھیں تو یہ مشروبات تو اتنے نہیں بھاتے تھے مگر حور و غلماں کا ذکر رگوں میں بجلیاں بھر دیتا تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الہامی کتاب کا یہ وعدہ ناسمجھ نوجوانوں کو خودکش بمبار بنا کر موت کے جہنم میں دھکیلنے کے لئے ہے؟ کتنی سنگدلی ہے جو نوجوانوں کو ان تاریک راہوں پر چلتے ہوئے موت کے بھیانک غار میں کود جانے کا درس دیتی ہے تاہم یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ خودساختہ پارسائی کے لبادے چڑھائے تحریک ِ طالبان پاکستان کے انتہا پسند سرعام ایسے نظریات کی ترویج کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو ان راستوں پر دھکیل رہے ہیں۔ دوسروں کو ہلاک کرتے ہوئے اپنی جان لینا یقینا وہ بہادری ہے جو اُن کے کٹر نظریات کا عملی مظہر ہوتا ہے مگر دل چاہتا ہے کہ کبھی خودکش بمبار بنانے والے پارساؤں کے اپنے بچوں اور عزیز و اقارب کو بھی انہی راہوں پر چلتے ہوئے راہی ِ ملک عدم ہوتے دیکھوں۔ پتہ نہیں یہ کتنے سنگدل لوگ ہیں جو دوسرے غریب بچوں پر تو بہت ”مہربان “ ہیں اور انہیں دنیا کی مشقت (تعلیم اور رزق ِ حلال وغیرہ) سے صاف بچا کر خوبصورت جنت میں پہنچا دیتے ہیں مگر اپنے بچوں کو اس ”سعادت “ سے محروم رکھتے ہیں… خدا ایسا سنگدل باپ کسی کو نہ دے۔ کچے ذہن کے مبتدی نوجوانوں جو زیادہ تر انتہائی مفلس خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، کو فردوس کے پھولوں کی جھلک دکھا کر اس دھرتی کے انگارے بنانے والے شعلہ بیان مقررین شہادت کا فلسفہ اپنے گھر سے شروع کیوں نہیں کرتے؟
ایک اور بات جس کی تفہیم سے قاصر ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے دلیرانہ کارناموں کا حتمی اور فوری صلہ جنت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا ہے۔ جب ایک فرقے کے جانباز دوسرے فرقے کے پیروکاروں کو ہلاک کرنے جاتے ہیں، جب طالبان خودکش حملوں پر مجاہدین کو روانہ کرتے ہیں حتیٰ کہ جب باقاعدہ فوجیوں کو بھی محاذ پر بھیجا جاتا ہے تو ان کے حوصلوں کو مہمیز دینے کے لئے شہادت اور اس کے نتیجے میں جنت کی بشارت دی جاتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دوسری جنگ ِ عظیم میں کتنے روسی یا جرمن سپاہی ہلاک ہوئے؟ ان کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں تھی۔ جرمن تو کسی حد تک عیسائیت کے تصور ِ فردوس سے آشنا تھے مگر روس کی سرخ فوج تو آخروی دنیا پر یقین نہیں رکھتی تھی اس لئے اس کے فوجیوں کی بہادری کے پیش نظر جنت کا تصور نہ تھا۔ اس کے باوجود وہ ایک پیشہ ور فوج کی طرح بہت بہادری سے لڑے۔ اب فیصلہ کرلیں کہ کون سی بہادری بہتر ہے…خودکش بمبار کی یا ایک پیشہ ور فوج کی؟ ہمارے جہادی کلچر کی ایک اور پیداوار فریدکوٹ کا اجمل قصاب ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ جس طرح کے بھی تخریبی اور گھناؤنے کاموں میں ملوث ہوا، میرا دل اس کی پھانسی پر غمزدہ ہے۔ میرے دکھی احساسات اُس کے ہلاکت خیز کاموں کی حمایت یا وکالت نہیں کر رہے بلکہ اس لئے کہ وہ ذہنی طور پر ناپختہ لڑکا، جسے بیرونی دنیا کا بہت کم علم تھا، انتہائی مجبوری کے عالم میں انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ گیا ۔انہوں نے اُس کی برین واشنگ کرتے ہوئے ٹریننگ کی اور اُس خطرناک کام پر بھیج دیا جس کی وجہ سے سرحد پار دونوں ممالک کے لاکھوں افراد کی جانیں داؤ پر لگ گئی تھیں۔
جاسوس، خفیہ ایجنٹ اور کمانڈوز خطرناک مشن پر جاتے ہیں اور انہیں اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ وہ زندہ لوٹ آئیں گے یا نہیں مگر انہیں کم از کم یہ تو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اس کے مضمرات کیا ہیں؟ وہ پیشہ ور اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور ان کے کارنامے اُن کو ہیرو بنا دیتے ہیں۔ حزب الله کے مجاہدین نے 2006ء کی جنگ میں اسرائیل کے مرکاوا (Merkava) ٹینکوں کے سامنے آکر ان پر ٹینک شکن میزائل فائر کئے…یہ بہادری ہے مگر نوعمر لڑکوں کو خودکش بمبار بنا دینا کہاں کی بہادری ( بلکہ انسانیت) ہے؟ اس جنگ میں ایک معصوم لڑکا اور ایک نہایت عیار نگران اور انسٹرکٹر چاہئے…اس شیطانیت پر ابلیس بھی نازاں (یا شرمندہ؟) ہو گا۔ ان پارسا گروہ کے پاس سنگدلی کے علاوہ مکاری کی بھی کمی نہیں۔ اپنے لاؤڈ اسپیکروں سے یہ ہمہ وقت ہر موضوع پر فتوے جاری کرتے رہیں گے مگر مجال ہے جو آپ ان کی زبان سے کبھی بچوں کو خودکش حملہ آور بنانے کے خلاف کوئی بات سنیں۔ جب جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد پر ایک خاتون خودکش بمبار نے حملہ کیا تو موصوف نے فوراً ہی اعلان کر دیا کہ یہ طالبان نہیں بلکہ ”ہنود و یہود امریکی لابی“ کا کام ہے۔ آفرین ہے اُس ”یہودی النسل امریکی لڑکی“ کی جوانمردی پر کہ وہ ایسے علاقے میں چلی گئی جہاں ہمارے فوجی بھی بہت سوچ سمجھ کر جاتے ہیں۔ ایسی ہی ”بہادری“ کا ایک اور پہلو، جیسا کہ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں،عبادت گاہوں اور تعزیے کے جلوسوں پر حملوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کیا خودکش حملہ آوروں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کس جال میں پھنسے ہوئے ہیں؟ ان کی عمریں دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتے کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں مگر اُن کے ماسٹر مائنڈ؟کیا وہ بھی معصوم ہوتے ہیں؟
یہ جہادی کلچر کے مبلغ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا اس ملک میں پھیلی ہوئی افراتفری کم ہے یا کیا اس راہ پر چلتے ہوئے وہ اپنے مسلک کی ترویج چاہتے ہیں؟ کیا یہ سنگدلانہ اقدامات ان کی منفی ذہنیت کی غمازی نہیں کرتے؟اس بات میں قطعاً مبالغہ نہیں ہے کہ یہ جنگجو دراصل اپنے مخالف فرقے کے پیروکاروں کو ختم کرنا اپنا الہامی مشن سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے اپنے مسلک کی خدمت کر رہے ہیں۔ میں نام اس لئے نہیں لے رہا کہ سب جانتے ہیں اور پھر ہر روز نظر آتا کہ کس طرح مخالف فرقے کے لوگوں کو شناخت کرکے بڑی بے رحمی سے گولی مار دی جاتی ہے۔ اس مرتبہ محرم کا آغاز ہی خونچکاں ہو گیا ہے… کراچی ، پنڈی اور بہت سے دوسرے مقامات پر حملے کئے گئے ہیں۔ ان منظم کارروائیوں کے مقابلے میں بوکھائی ہوئی حکومت کچھ بے معنی بیانات جاری کرتے ہوئے پولیس دستوں کا مارچ پیش کرسکتی ہے،اس سے کون ڈرتا ہے؟
اسی اثنا میں سازش کی تھیوری پھیلانے والوں کے حملے بھی جاری ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ غیر ملکی ایجنسیوں کا کام ہے۔ قاضی حسین احمد جیسے نظریات رکھنے والوں کو ان کاموں کے پیچھے چھپی یہودی لابی صاف نظر آتی ہے۔ ہمیں سب کچھ نظر آتا ہے سوائے اپنی غلطی کے۔
اب ہم کس طرف جارہے ہیں بلکہ ہم کس انجام سے دوچار ہو چکے ہیں؟ ہم کس جہاد کا ثواب کمارہے ہیں؟ یہ کس قسم کی دفاعی حکمت ِ عملی یا حماقت ہے کہ افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے اورکشمیر کو آزاد کرانے کی کوشش کرتے کرتے ہم نے اپنے ہی گھرکو آگ لگا لی ہے۔ جس دفاعی ماہر نے بھی ہمیں اس پالیسی سے آشنا کیا، اُس سے سنگین باز پرس ہونی چاہئے… اگر یہاں نہیں تو کسی اور دنیا میں۔ تاہم گئے وقت کو واپس نہیں لایا جاسکتا، اب مستقبل کے تقاضے ہمیں بلاتے ہیں۔ ایک خوشحال مستقبل میں قدم رکھنے کی اولین اور مقدم ترین شرط یہ ہے کہ ہم نظم وضبط اور قانون کی حکمرانی کا احساس پیدا کریں…ان کا فی الحال ہمارے ہاں شائبہ تک نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ہر طرف پھیلی ہوئی افراتفری کسی اور زندہ قوم کے لئے انقلاب کی نوید دیتی ہے مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہونے والا، چنانچہ مایوسی کی ظلمت گہری ہوتی جارہی ہے۔
اگر ہم خرمن کی خاک سے نیا گلستان نہیں اُگا سکتے ہیں تو نہ سہی… بہار کی امید کرنا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا…خزاں کو تو خاموشی سے گزار لیں۔ اگر ہم صرف لاؤڈ اسپیکروں کے شور کو بھی کنٹرول نہیں کر سکتے تو کس جہان نو کی تعمیر کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں دودھ اور خوارک ملاوٹ زدہ ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے مگر یہ ناکامیاں بھی ہمارے دریائے خطابت کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتیں۔ آپ پاکستان کے کسی گاؤں یا قصبے میں چلے جائیں، کان کے پردے پھاڑ دینے والے اسپیکر (یہ کبھی خراب بھی نہیں ہوتے) کا شور آپ کا پیچھا کرے گا۔ اس سلسلے میں میاں منظور وٹو کی تعریف کرنا ہوگی،چاہے آپ اُن کی سیاست سے اختلاف کرلیں کہ انہوں نے اپنے دور میں لاؤڈ اسپیکروں پر پابندی کا حکم دیا اور اس پر عمل کو یقینی بنایا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نیکی ہی اُن کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔ لاؤڈ اسپیکروں کو اسی طرح قانون بنا کر کنٹرول کرنا چاہئے جس طرح سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول کرنے کے قوانین ہیں۔ اسی طرح قوانین پر عمل کرتے ہوئے حکومت ٹیکس کی وصولی میں اضافہ کر سکتی ہے اور امن وامان کو بہتر بنانے کے لئے پولیس کو جدید خطوط پر استوار کر سکتی ہے تاہم اس کے لئے بیانات نہیں، عمل کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ ہماری قوم کی نفسیات اور سوچ کے دھارے غلط سمت رواں ہیں ورنہ عبادت گاہوں پر حملے کرنے اور نوعمر لڑکوں کو خودکش حملہ آور بنانے کی وضاحت پیش نہیں کی جاسکتی۔
تازہ ترین