• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معاف کیجئے گا مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہمارے منافق زدہ معاشرے میں ا صول نام کا کوئی پودا نہ جڑسکتا ہے اور نہ ہی پروان چڑھ سکتا ہے۔ منافقت کے سمندر میں اصول کے جزیرے بنانا نہایت مشکل کام ہوتا ہے اور یہ عام لوگوں کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس طرح کی عظیم قیادت کا دور دور تک نشان موجود نہیں جو ہمارے کلچر کو بدل سکے یا منافقت کے سمندر میں اصول کے جزیرے بنا کر کے مثالیں قائم کرسکے۔
زندگی کے باقی شعبوں کو فی الحال رہنے دیجئے کہ زندگی بڑی وسیع و عریض شے ہے اور اس کے تمام شعبوں کا احاطہ کالم میں ممکن نہیں۔ فی الحال سیاست کے شعبے پر نظر ڈالئے کہ انتخابات کی آمد آمد کا ڈھنڈورہ بج رہا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب اس قوم کو مشرف کی دس سالہ سیاست کی قید سے نجات ملی تو ہر طرف اصولوں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ نئی نئی محبت میں جوش بھی ہوتا ہے جذبہ بھی اور خلوص بھی چنانچہ ہمارے لیڈران بڑھ چڑھ کر اصولوں کی سیاست کا چرچا کرتے تھے۔ اس کی اولین وجہ تو آمرانہ دور سے نجات کی خوشی اور عوام کو تبدیلی کا احساس دلانا تھا کیونکہ یہی سیاستدان ماضی میں یعنی مشرفی دور سے قبل اصولوں کو پامال کرتے رہے تھے چنانچہ اب وہ عوام کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ انہوں نے سیاست کی جلا وطنی سے یہ سبق سیکھا ہے کہ ملک میں اصولوں کی سیاست کو رواج دیا جائے۔ دوم اصولوں کی سیاست کا دوسرا بڑا مقصد آمریت کا بیج”مارنے“ کے لئے ان تمام لوٹوں پر جماعتوں کے دروازے بند کرنا تھا جو ہر آمر کے آتے ہی اپنی سیاسی وفاداریاں ترک کرکے حکمران کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں یا عام حالات میں اقتدار کی ہوس کی آگ بجھانے کے لئے حزب مخالف کو چھوڑ کر حزب اقتدار امیں چلے جاتے ہیں۔ پارٹیوں کا کردار اپنی جگہ کہ وہ خود بھی اراکین اسمبلیوں کی خرید و فروخت میں مصروف ہو کر لوٹا کلچر کو فروغ دیتی رہی ہیں لیکن یہ اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ لوٹا ازم کو سب سے زیادہ فروغ آمریتوں نے دیا ہے۔ اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے وہ یہ کہ لوٹا ازم آمریتوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔ وہ اس طرح کہ شب خون مارنے والے جرنیل کو علم ہوتا ہے کہ اقتدار کی گدی پر قبضہ کرتے ہی بہت سے بااثر سیاسی خاندان، موروثی خانوادے اور خاص طور پر دولت اور زر کی سیاست کرنے والے راتوں رات وفاداریاں بدل لیں گے اور میرے ہاتھ پر بیعت کرلیں گے۔اس طرح میرے لئے حکومت اور حکمرانی سہل ہوجائے گی اور میرے ہاتھ سیاسی حوالے سے مضبوط ہوجائیں گے۔ یہ یقین آمریتوں کے شب خون کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اگر آمروں کو علم ہو کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں فوجی ا قتدار کے خلاف متحد ہوجائیں گے اور ان کے لئے حکمرانی کرنا مشکل ہوجائے گا تو شاید وہ مداخلت کرنے سے قبل ہزار بار سوچیں ۔آپ ماشا اللہ خود سیانے اور سمجھدار ہیں۔ اپنے ارد گرد آپ کو کئی ایسے سیاسی خاندان ،دولت مند حضرات اور موروثی سیاستدان نظر آئیں گے جنہوں نے ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ہر فوجی حکمران کا ساتھ دیا ہے بلکہ ہر فوجی آمر کی بیساکھی بنے رہے ہیں اور اس کے باوجود عوام انہیں ووٹ دیتے اور ان کی بے اصولی، مفاد پرستانے اور لوٹا سیاست کی حمایت کرتے ہیں۔ وفاداری بدلنے میں ان معززین کی ایک مصلحت یا مجبوری بھی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ چونکہ انہوں نے غلط ذرائع سے دولت کمائی ہوتی ہے اور ان کے سیاسی اعمال نامے کبیرہ گناہوں سے بھرے ہوتے ہیں چنانچہ انہیں یہ خوف بھی فوجی حکمران کے قدموں میں ڈال دیتا ہے کہ اگر اس کا احتساب کیا تو ہماری بقایا زندگی جیل میں گزرے گی۔ علاوہ ازیں اقتدار کی مستقل ہوس انہیں وفاداری بدلنے پر مائل کرتی ہے۔ پرویز مشرف نے محاورے کی زبان میں شب خون مارا تو سرراہ مجھے ایک سیاستدان صاحب مل گئے جن سے پرانی”یاد اللہ“ تھی۔ وہ ان دنوں ایک جرنیل کے زیر اثر تھے لیکن فوجی مداخلت سے قبل میاں صاحب کے گن گایا کرتے تھے بلکہ ایک عدد وزارت کے بھی مزلے لیتے رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ حضرت کیا ارادے ہیں؟ بولے”جنرل آیا ہے تو کم از کم دس سال تو رہے گا، اتنا عرصہ اقتدار سے باہر رہنا مشکل ہے پھر بھائی جان آپ تو سمجھتے ہیں کہ جیل کاٹنی مشکل کام ہے، وہ کہتا ہے یا ادھر آؤ ا ور وزارت لے لو اور یا جیل جانے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ میں نے زمینی حقائق کے پیش نظر فیصلہ کیا ہے کہ وزارت لے لی جائے“ ۔میں نے پوچھا” آپ تو میاں برادران کے گن گاتے اور وفاداری کے گیت گاتے تھے“ جواب ملا”اول تو ہر جنرل اپنی نرسری لگاتا اور اقتدار سونپ کر جاتا ہے ،ہوسکتا ہے کہ میاں برادران طویل عرصے تک واپس نہ آسکیں اور واپسی تک ان کی سیاسی راہیں مسدود ہوچکی ہوں گی لیکن بفرض محال وہ واپس آگئے تو ہم ان سے معافی مانگ کر ان کے ساتھ ہوں گے۔ جب لیڈروں کو علم ہو کہ یہ امیدوار طاقتور ہے اور اپنے زور پر الیکشن جیت جائے گا تو وہ آسانی سے معاف کرکے خوش آمدید کہتے ہیں۔” ڈاکٹر صاحب آپ نے کتابی سیاست پڑھی ہے ہم نے عملی سیاست کے پاپڑ بیلے ہیں“اس سے بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے کہا”کیا آپ کے حلقے کے لوگ آپ کی اس ادا اور حرکت کو ناپسند نہیں کریں گے، اس سے آپ کا گراف بری طرح متاثر نہیں ہوگا؟“ وہ مسکرائے اور بولے”سر! ووٹروں کو اپنے کام کروانے سے غرض ہوتی ہے۔ کام اقتدار میں رہ کر ہوتے ہیں نہ کہ اقتدار سے نکل کر۔ جب میں اپنے حلقے کے لوگوں کو نوکریاں دلواؤں گا، تبادلے کرواؤں گا اور حلقے میں ترقیاتی کام کرواؤں گا تو لوگ بہرحال ووٹ مجھے دیں گے“۔پھر وہ”حضرت“ پرویز مشرف کے ساتھ مل گئے، وزارت کے مزے لوٹتے رہے۔ انشاء اللہ آنے والے ا نتخاب میں وہ مسلم لیگ(ن) کے پکے امیدوار ہیں اور انشاء ا للہ ان کے حلقے کے لوگ ان کو ووٹ بھی دیں گے۔ ”بدقسمتی“ سے میں سیاستدانوں کی بہت بڑی اکثریت کو جانتا ہوں، ان کے ماضی سے اچھی طرح واقف ہوں، ان میں میرے دوست اور واقف کار بھی بہت ہیں کیونکہ طویل دوران ملازمت میں ان سے پالا پڑتا رہا ہے۔ اکثریت کی یہی عملی اپروچ ہے جسے آپ مصلحت بروزن منافقت کہہ سکتے ہیں۔ وفاداری بشرط استواری، جب عوام بھی اس طرح کی وفاداری کا برا نہیں مناتے اور بار بار انہیں ہی ووٹ دیتے ہیں تو پھر وہ اپنی وفاداری بشرط استواری کو کیوں بدلیں اور صرف وفاداری پر کیونکر کار بند ہوں۔ سیاستدان کو ایک ہی خوف آتا ہے اور وہ خوف خدا پر نہیں بلکہ ووٹروں کا ہوتا ہے جب عوام نے لوٹوں کو مسترد کرنا شروع کیا تو یقین رکھیئے کہ لوٹا ازم اپنی موت مرجائے گا۔ رہی سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادتیں، ان کی اصول پسندی محض”ہاتھی کے دانت دکھانے کے لئے اور کھانے کے اور“ والی بات ہوتی ہے۔ امیدوار مضبوط ہو اور انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ ماضی بھول کر اسے اپنے ساتھ ملانے کے لئے بے چین ہوتے ہیں۔ انہی سیاستدانوں نے آپ کے سامنے2008ء کے انتخابات کے دوران یہ عہد کئے تھے کہ وہ مشرف کے ساتھیوں کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ آئندہ نتائج کی پرواہ کیئے بغیر اصول اور صرف اصول کی سیاست کریں گے۔ مشرف کے ساتھیوں پر پارٹی دروازے بند کرنے کا مقصد عبرت کی مثال قائم کرنا اور آمریت کے”بیج“ ختم کرنا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے لیڈران اپنے”عہد“ وعدے اور اعلانات بھول گئے۔ گویا انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ عوام کو جھوٹے خواب دکھا رہے تھے۔ آج مشرف کے ساتھی اور ماضی میں موجودہ لیڈروں پر نفرت کے پتھر مارنے والے کاریگر، خوبصورتی سے زبانیں چلانے والے، فوجی دور میں دولت کے انبار اکٹھے کرنے والے اور ذہن و ضمیر نیلام کرنے والے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں، مسلم لیگ (ن) پی پی پی اور تحریک انصاف کی نہ صرف زینت بنے ہوئے ہیں بلکہ ان پر چھائے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے کچھ لیٹروں پر دروازے کھول کر پارٹی کے اندر خلفشار اور بغاوت کے انگارے جلادئیے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کے ا ندر ناراضگی کی کوئی بڑی لہر پیدا نہیں ہوئی۔ بھلا کیوں؟ کیونکہ ان کا ماضی اور سیاسی کلچر ہی یہی ہے۔ تحریک انصاف نئی نئی سیاسی قوت بنی ہے۔ تبدیلی کی خواہشمند اور مخلص کارکنوں کی ایک تعداد اس کا اثاثہ ہے جنہیں قیادت کی اس حماقت سے دھچکا لگا ہے ، ہم منافقت کے سمندر میں اصولوں کے جزیرے بنانے کے خواب دیکھتے ہیں، بے وفاؤں سے وفا کی امیدیں باندھتے ہیں۔ جھوٹے وعدے کرنے والوں سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں اور وفاداریاں بیچنے والوں کو ووٹ دے کر ملک کے مسائل یعنی لاقانونیت ، لوٹ مار، غربت اور بے انصافی کے خاتمے کی توقع رکھتے ہیں۔ کتنے سادہ لوح ہیں ہم……؟؟ بقول صوفی شاعر میاں محمد بخش
کیکر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا
تازہ ترین