• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل میں 27 اور گھریلو تشدد کے واقعات میں 26 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
جہاں جرم کی سزا ملنے کی توقع نہ ہو لوگ گھر ہی میں عدالت لگا کر خود ہی فیصلہ سنا کر سزا بھی دے دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ سراسر ناجائز غیر قانونی، غیر انسانی اقدام ہے۔ غیرت کیا ہے؟ لغوی لحاظ سے یہ کسی کو غیر سمجھنا ہے، گویا یہ ”غیرت مند قاتل“ غیرت سے آزاد وہ افراد ہیں جو خود اپنے نفس کو غیر سمجھتے ہیں، وہی گناہ جس پر ”غیرت“ میں آ کر ایک یا دو انسانوں کو زندگی سے محروم کر دیا جاتا ہے، اگر قاتل سے سرزد ہو تو وہ خود کو کوئی گزند نہیں پہنچنے دیتا، وہ کسی کی عزت سے کھیلے تو جائز اور کوئی اس کی عزت پر ڈاکہ ڈال دے تو پاپ، معاشرے سے عدل اٹھ جانے کا نتیجہ ہے، کہ ہر شخص نفس امارہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیتا ہے اور نفس امارہ کا فیصلہ غیرت کے نام پر قتل اور تشدد کی صورت ظاہر ہوتا ہے
جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو
گھر، مکان بن گئے اور مکان ٹارچر سیل شوہر بیوی کو، بھائی بہن کو بیٹا ماں باپ کو اذیت دیتا ہے، اور سمجھتا ہے کہ وہ غیرت مند ہے، آج مغرب میں کوئی باپ اپنے بچے کو غلطی پر سزا نہیں دے سکتا، کہ بچہ اسے زندان بھیج سکتا ہے، جب زبان گنگ اور ہاتھ بولنے لگے تو صرف ڈنڈا ہی چلتا ہے، تلقین، تربیت، شیریں کلامی اور افہام و تفہیم سے معاملہ نمٹانے کے تو آثار ہی مٹ گئے، غیرت نے ظلم کو جنم دیا، مظلوموں کی فریاد رسی نہ ہوئی تو وہ ظالم بن گئے اور یوں قتل و غارت اور تشدد کا بازار گرم ہو گیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

عمران خان کہتے ہیں: زرداری نواز سمجھوتہ ایکسپریس روک کر ٹرینیں چلائیں گے۔
چلیں، خوب چلیں چلنے سے کون روکتا ہے مگر کسی کو مونڈھا مار کے نہ چلیں کہیں گرانے کے شوق میں خود نہ گر پڑیں، یہ گزہے اور یہ میدان، اپنی اپنی سیاسی اداکاری کے جوہر دکھائیں، جس نے بہترین رول پلے کیا اسے قوم بہترین سیاسی ایکٹر کا ایوارڈ دے کر اپنے اوپر مسلط کر دیگی ایسی جلدی کیا ہے، کسی کو ملک دشمن قرار دینے سے بہتر ہے اپنی وطن دوستی کو ثابت کیا جائے، یہی نصاب ہے انتخابات کا، اگر کوئی سمجھوتہ ایکسپریس سیاسی پٹڑی پر رواں ہے تو اس میں حرج کیا ہے، آپ کھوتہ ایکسپریس چلا دیں، کیونکہ #
احمقوں کی کمی نہیں غالب
ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں
زرداری، نواز شریف کی پارٹیوں کے درمیان کب کی پارٹیشن ہو چکی ہے، اور دونوں ایک دوسرے سے دیپک سروں میں کہہ رہے ہیں
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
ویسے جس بلیغ کنایئے میں خان صاحب نے بات کی ہے، وہ خوب ہے، اس بیان سے ایک اشارہ تو ملتا ہے کہ ان کے دور میں ٹرینیں چل پڑیں گی، تاحال تو وہ مے پئے چل نکلی ہیں، ویسے تو عمران خان کی مقبولیت کے ڈنکے بج رہے ہیں، تاہم یہ ایک ڈنکہ آپ بھی سن لیں کہ ایک حسینہ نے ایک بھدی سی لڑکی سے کہا میں تو عمران بھائی کو ووٹ دوں گی، بھدی لڑکی نے کہا شکر ہے آپ نے انہیں بھائی بنا لیا ہے۔

برطانوی وزیر برائے خواتین ماریہ ملر نے کہا ہے: خواتین پادریوں کے حوالے سے اصلاحات ضروری ہیں۔ برطانیہ اس ضمن میں قانون سازی میں ناکام رہا ہے۔
مغرب اس لحاظ سے بہت سیانا ہے، کہ باہر گڑبڑ روکنے کے لئے اندر گڑبڑ کو برداشت کر لیتا ہے، ظاہر ہے کہ ماریہ ملر کو خواتین پادریوں کے سکارف خطرے میں نظر آتے ہوں گے، امریکہ میں سنا تھا کہ مسلمان مولویانیاں بھی امامت کے فرائض انجام دیتی ہیں، اگر ہمارے ہاں بھی یہ رسم آ گئی تو خواتین اماموں والی مساجد میں حاضری سو فیصد ہو جائے گی۔ برطانیہ کی حکومت اپنی وزیر برائے خواتین کے خدشات کا مداوا کرے، اور جلد از جلد قانون سازی کرے تاکہ عیسائیت کے دامن پر مزید کوئی دھبہ نہ آئے، اسلام میں بھی مخلوط عبادت گاہوں پر کوئی پابندی نہیں بس اتنا کہا گیا ہے کہ عورتوں کی صف آخری ہونی چاہئے، اختلاط مردوزن کو روکنا سمندر کے پانی کو دو نیم کرنے کے مترادف ہے، تاہم کوشش کرنے میں کیا حرج ہے، تاکہ اتمام حجت تو ہو جائے، ”اگے تیرے بھاگ لچھئے!“
حرمین شریفین میں بھی خواتین نمازیں ادا کرتی ہیں، اور طواف بھی مخلوط ہوتا ہے، تنگ نظری کی داڑھی میں تنکا ہوتا ہے، خواتین کو کم از کم اللہ کے دربار میں حاضری کے لئے تو آزاد دچھوڑ دیا جائے، برطانیہ کے بارے مشہور ہے کہ وہاں معاشرہ قدرے قدامت پرست ہے، اس لئے تو وہاں کی وزیر برائے خواتین کو خواتین پادریوں کی فکر لاحق ہو گئی ہے، کیا انہیں مرد پادریوں سے خدشہ ہے کہ وہ کہیں کسی خاتون پادری کو صلیب پر نہ چڑھا دیں، بہرحال سفارش کی جاتی ہے کہ برطانوی دارالعوام جلد خواتین پادریوں کے بارے اصلاحات نافذ کرنے کے لئے قانون سازی کرے۔

فلپائنی میڈیکل ایسوسی ایشن نے فلپائن کے صدر سے درخواست کی ہے کہ وہ سگریٹ نوشی ترک کر دیں، عوام پر برا اثر پڑتا ہے۔ لیکن صدر نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے عوام کی کوئی پرواہ نہیں۔
سگریٹ تو چھوڑے جا سکتے ہیں البتہ نوشی کو چھوڑنا مشکل ہے، یہی وجہ ہے کہ فلپائنی صدر بھی بپھر گئے اور کہہ دیا کہ وہ سگریٹ اور نوشی دونوں کو نہیں چھوڑیں گے، عوام پر برا اثر پڑتا ہے تو ان کی بلا سے، ویسے آپس کی بات ہے کہ فلپائن کی میڈیکل ایسوسی ایشن اپنے صدر سے سیدھے سیدھے یہ کہہ دیتی کہ سگریٹ ترک فرمائیں، تو ممکن ہے جواب نفی میں نہ ملتا۔ تمباکو نوشی کی وباء بہت پرانی ہے، اور اس نشیلے پودے کو کئی صورتوں میں، پھیپھڑوں میں اتارا جاتا ہے، اور وہ انسانی عضو جو صاف شفاف ہوا کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے، دھواں دھواں ہو کر دل دماغ اور رگ تاک سی باریک رگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیتا ہے، ایک سگریٹ میں 40 ایسے عوامل موجود ہوتے ہیں جو کینسر کا سبب بن سکتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ انسانوں سے کوئی صحت بخش لذت چھینی گئی ہے، جس کی کمی پوری کرنے کے لئے اکثر لوگ تمباکو پیتے ہیں اور یوں لمحاتی لذت سو قسم کے آزار دے جاتی ہے، اگر سگریٹ نوشی کو روکنا ہے تو اس کی مینوفیکچرنگ بند کی جائے، تاکہ نہ سر رہے نہ درد رہے، ان دنوں شیشہ کے نام سے ایک حقہ عام ہے، لڑکے بالے تو کجا لڑکیاں بھی اونچے درجے کے قہوہ خانوں میں اس سے لطف اندوز ہوتی ہیں،
ایک بار یہ منظر کھلی آنکھوں سے دیکھا تو ناسخ کا شعر یاد آ گیا
حقہ ہے جو حضور معلی کے ہاتھ میں
گویا کہ کہکشاں ہے ثریا کے ہاتھ میں
تازہ ترین