• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت ہی اچھا لگا جب مقہور جمہوری عبور کے پانچویں وزیراعظم نے یومِ دفاع پر بطور چیف گیسٹ اور چیف ایگزیکٹو جی ایچ کیو کے وسیع میدان میں اپنے خیالات کا بلاجھجک اظہار کیا۔ ایسا لگا کہ وزیراعظم عمران خان اپنے ہی حلقہ انتخاب سے خطاب کر رہے ہیں۔ سول اور فوجی دل و دماغ یوں شیر و شکر ہوتے پچھلے چالیس برس میں شاید ہی کبھی دیکھے گئے ہوں گے۔ لیکن جب عمران خان نے ببانگِ دُہل اپنا روایتی موقف دہرایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں تھی تو شکنوں پہ بل تو پڑنے ہی تھے کہ حاضرین کی اچھی خاصی تعداد اُن شہدا کے لواحقین پر مشتمل تھی جنہوں نے دہشت گردوں کے فتنے سے نپٹتے وطنِ عزیز کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ اور جب فوراً ہی وزیراعظم نے شہدائے دہشت کو خراجِ عقیدت پیش کیا تو مجمع کا ردِّعمل دیدنی تھا۔ غالباً وزیراعظم کا یہ عزم بے جا نہ تھا کہ پاکستان آئندہ کبھی دوسروں کی جنگ میں ملوث نہیں ہوگا۔ ہم کب سے ابتدائے پاکستان سے غیروں کے فوجی بلاکوں کا لقمہ بنے رہے ہیں۔ سیٹو، سینٹو، افغان جہاد، طالبان حکومت کے داعی اور پھر نائن الیون کی دہشت گردی کے ساتھ اُنہیں جہادیوں کے خلاف جہاد جنہیں ہم نے امریکہ کی سرپرستی میں تیار کیا تھا۔ اس سب کا خمیازہ نہتے لوگوں، سپاہیوں، افسروں کی شہادتوں اور وطنِ عزیز کے چپہ چپہ پہ لگنے والے زخموں کی صورت ہم نے بھگتا اور اب تک بھگت رہے ہیں۔ جنرل باجوہ نے اشارہ تو دیا کہ ہم نے 1965ء کی جنگ اور 1971ء کے المیے سے سبق سیکھا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ان تمام جنگوں، جہادوں اور کارگل سمیت تمام ایڈونچرز سے ٹھوس نتائج اخذ کیے جائیں۔ ہم کسی کی بھی جنگ میں کودیں اور نہ اپنی دھرتی کو کسی فتنہ گری کے ہاتھوں استعمال ہونے دیں۔ خطے اور ہمسایوں کے ساتھ امن و امان سے رہنے کی خاکی و مفتی مشترکہ خواہش کو عملی جامہ پہنا کر اپنے خلاف بڑھے ہوئے بیرونی خطرات کے امکانات کو معدوم کرنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔ سول ملٹری تعلقات میں بُعد کوئی افسانہ نہیں جیسا کہ عمران خان صاحب کا خیال ہے۔ ہماری قومی تاریخ کے مدوجذر میں یہ ایک کلیدی عنصر رہا ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد اور صدر اسکندر مرزا کی صورت سول نوکرشاہی کا غلبہ اور پھر جنرل ایوب خان کے مارشل لا کی صورت فوجی غلبہ۔ 1971ء کے المیہ کے نتیجے میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، صدر اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صورت سویلین غلبہ اور 1973ء کے آئین کا عمرانی معاہدہ۔ پھر جنرل ضیاء الحق کی فوجی بغاوت اور سویلین بالادستی کے نشان بھٹو کی پھانسی۔ جنرل ضیاالحق کی نرسری میں تیارکردہ سیاسی قیادت اور بھٹو روایت کی وارث بے نظیر بھٹو اور فوجی قیادت کے درمیان کشمکش کے کئی ادوار۔ بے نظیر بھٹو کا قتل اور وزیراعظم نواز شریف کی پے در پے برطرفیاں۔ جنرل مشرف کا دور اور ایک نئی سیاسی پود کی تشکیل اور اب تبدیلی۔ سول و ملٹری قیادت کے اس ہنی مون پیریڈ میں کیا ہی اچھا ہو کہ جنرل باجوہ (جو آئینی نظام اور جمہوری تسلسل کے بڑے حامی ہیں) اور وزیراعظم عمران خان سول ملٹری تعلقات کو ایک مستحکم آئینی و اداراتی بنیاد فراہم کر دیں کہ طاقت کے آئینی و غیرآئینی مراکز کی بے جا کشمکش کی بجائے اداراتی معاونت فروغ پائے۔ (جس کا اظہار امریکا کے خارجہ سیکرٹری کے دورہ کے وقت ہوا اور سول و فوجی قیادت وزیراعظم کی سربراہی میں اکٹھے بیٹھے نظر آئے۔)

امریکی وفد کے ساتھ پاکستان کی متحدہ قیادت نے جو بھی بات چیت کی ہے، اس کا اچھا تاثر قائم ہوا ہے۔ اب بات چیت وزیراعظم عمران خان کی انتظامیہ کے ساتھ ہی کی جائے گی جس کا افواجِ پاکستان ایک آہنی حصہ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جو باتیں پہلے طے ہوئی تھیں اُن پر عملدرآمد ہونے سے پاکستان اور امریکہ میں اعتماد بحال ہونے کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ ویسے بھی موجودہ دگرگوں مالیاتی حالات میں کر و فر مردَ بیمار کی حالت بہتر بنانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ دہلی میں امریکہ کے خارجہ اور دفاعی سیکرٹری کی اپنے بھارتی ہم منصب خواتین کے ساتھ پریس کانفرنس میں پاکستان کا لفظ آیا نہ چین کا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مشترکہ بیان میں اُسی موقف پہ اصرار ہے جو ہم کئی برسوں سے بار بار سنتے آئے ہیں۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی تقریب میں امریکی وزیردفاع کے نائب کی جانب سے تہنیتی کلمات سے ظاہر ہے کہ کچھ برف پگھلی ضرور ہے۔ اچھا ہوگا اگر ہم جنرل مشرف کی دوغلی حکمتِ عملی کی باقیات سے جان چھڑا کر قول و فعل کے تضاد کی شرمندگی کے بوجھ سے اپنی سفارت کاری کو نجات دلا کر عالمی تنہائی سے نکلنے کا اہتمام کریں۔ میری رائے میںیہ جو ’’ڈو مور‘‘ (اور کریں) کو ہم نے بلاوجہ قومی حمیت کا مسئلہ بنا دیا ہے (جیسا کہ ڈرون حملوں کے وقت نظر آیا) وہ خود ہمارے قومی مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ہمارا اپنا قومی و ریاستی اصرار ہے کہ ہم کسی بھی طرح کی دہشت گردی کو پنپنے نہیں دیں گے اور اپنی دھرتی کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اور یہ کہ ابھی دہشت گردی کی ’’باقیات‘‘ کے خلاف ردّالفساد جاری ہے۔ اگر ہم ایسا بلا کم و کاست کر رہے ہیں تو پھر کسی کو ’’ڈو مور‘‘ کہنے کی زحمت کیوں ہوگی؟ اگر امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں سے بھنّا کر ہم پر ملبہ ڈالتا رہے گا تو دُنیا ہماری کارگزاریوں سے ہماری سچائی کی معترف ہو سکے گی۔ ہم نے امریکہ کے ذریعہ جو بھارت کو بات چیت شروع کرنے کا پیغام دیا ہے وہ مناسب ہے۔ اگر امریکہ کو افغانستان سے روانگی کے لیے سیاسی حل نکالنا ہے اور پاک افغان سرحد پہ دہشت گردی کا سدباب کرنا ہے تو ہماری مشرقی سرحد کو ٹھنڈا کروانا امریکہ اور خطے کے امن کے مفاد میں ہے۔

امریکی دورے کے بعد اب چین کے وزیرخارجہ تشریف لے آئے ہیں۔ اُن سے کرنے کو بہت باتیں ہیں۔ خاص طور پر سی پیک کو عمران خان کے تبدیلی کے ایجنڈے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سماجی شعبوں میں بہت گنجائش ہے۔ پاک چین شراکت داری کو دست نگری سے نکلنے اور معیشت کی پیداواری اور پائیدار بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے بروئے کار لانا چاہیے۔ پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ڈیمز کی تعمیر کے لیے وزیراعظم نے جو بیرونِ ملک پاکستانیوں سے اپیل کی ہے، اُس میں چین کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ اگر چین عظیم الشان شاہراہیں بنا سکتا ہے، گوادر تعمیر کر سکتا ہے اور بجلی کے بحران کو حل کرنے میں مدد کر سکتا ہے تو وہ پانی، زراعت اور برآمداتی شعبوں کی ترقی میں بھی بہت معاون ہو سکتا ہے۔

ہمارے موجودہ مالیاتی خسارے کے بحران کو حل کرنے کے لیے چین سے امداد حاصل کرنے سے زیادہ ضرورت یہ ہے کہ چین سے موجودہ تجارتی خسارے (جو اس وقت 16.4 ارب ڈالرز ہے اور ہمارے کل تجارتی خسارے کا بڑا حصہ ہے) پہ قابو پانے کے طریقہ ہائے کار پہ بات کی جائے۔ مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت اس کا حل نہیں بلکہ پاکستان کی چین کو موجودہ برآمدات (جو 1.83 ارب ڈالرز ہیں) کو کئی گنا بڑھانے کی راہیں نکالنی چاہئیں۔ دوسرے کئی ملکوں کو چین نے برآمدی رعایات دی ہیں، تو پاکستان کو کیوں نہیں مل سکتیں؟ چین نے بھارت کے ساتھ لمبے چوڑے علاقائی جھگڑوں اور امریکہ کے ساتھ مل کر چین کے گھیراؤ کے عالمی سامراجی منصوبوں میں شرکت کے باوجود اپنے معاشی و سفارتی تعلقات کو بگڑنے نہیں دیا۔ اور آپ دیکھیں گے کہ کیسے چینی، جاپانیوں اور بھارتیوں کو امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ میں اپنا ہمنوا بناتے ہیں۔

ہم بھارت چین سفارتی و معاشی ماڈل کو کیوں پاک بھارت تعلقات میں اپنی قومی معاشی اولیتوں کے مطابق اپنا نہیں سکتے۔ چینی وزیرخارجہ کے دورے کے وقت ہمارے وزیرِ خزانہ ایک نیا بجٹ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مالیاتی خسارے کو کیسے پورا کیا جائے۔ بہتر ہوگا ہم اس کے لیے چین کو زیادہ نہ دوہیں، بلکہ چین کے ساتھ زیادہ کارآمد معاشی بنیاد کی تعمیر کے لیے بات کریں۔ جو منصوبے شروع ہو چکے وہ جاری رہیں اور جو نئے منصوبے بنیں وہ ہماری اپنی صنعتی، تکنیکی، سائنسی، علمی، زرعی، آبی اور توانائی کی بنیادوں سے متعلق ہوں۔ چین سے قرضوں کی ادائیگی کے التوا پر بھی بات ہونی چاہیے اور عالمی مالیاتی اداروں کو یہ موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ یہ بہانہ تراشیں کہ اُن کی امداد کو چین کے قرضے دینے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چین پاکستان اکنامک کاریڈور کو پاکستان کے صنعتی، زرعی اور سائنسی انقلاب کو مہمیز لگانے کے لیے استعمال میں لانا ہوگا۔ دست نگری خواہ مغرب کی ہو یا مشرق کی آخری نتیجے میں دست نگری ہوتی ہے۔ موضوع تو اور بھی ہیں لیکن یہ کالم اپنے دوست فواد چوہدری سے اس گزارش پہ ختم کرتا ہوں کہ پہلے سے موجود سنسرشپ ختم کروائے بغیر آپ میڈیا کی اصلاح کے دردمیں مبتلا نہ ہوں تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین