• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا گیا ہے کہ مالی کمپنیوں ،بینک فراڈاور نادہندگی کے مقدمات پر ترجیحاً کام کیا جارہا ہے مگر دیکھنے میں معاملات اس کے بر عکس نظر آرہے ہیں آئے دن کسی دفتر میں آگ لگتی ہے اور فراڈ کے سارے ثبوت راکھ بن کر ہوا میں اڑ جاتے ہیں ۔نہ کوئی خنجر پر داغ دکھائی دیتا ہے نہ ہی دامن پر کوئی چھینٹ نظر آتی ہے ۔وہ زمانے گئے کہ جب مقتول کی آستین کا خون اپنے قاتل کا پتہ دیا کرتا تھا۔خاص طور پردفاتر میں ریکارڈ کوآگ لگانے کا نسخہ تو بہت زیادہ قابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے ۔شاید اسی لئے گزشتہ دس سالوں میں پنجاب میں جس قدر آگ سے ریکارڈ جلنے کے واقعات ہوئے ہیں۔ اتنے پچھلے سو سال میں نہیں ہوئے۔ اسی سال مارچ میں نیسپاک کے صدر دفتر میں آگ کے شعلے کھڑکی سے اندر آگئے تھے ۔یہ دوسری منزل تھی ۔ہائی ویز اینڈ ٹرانسپورٹ انجینئرنگ ڈویژن کے شعبہ ڈیزائن میں جو کچھ پڑاتھا جو فائلیں رکھی تھیں ، سب کچھ راکھ ہوگیا۔ یہیں لاہور اور راولپنڈی میٹرو بس منصوبوں سمیت متعدد اہم قومی منصوبوں کا ریکارڈ جل گیا۔ تقریباً ایک سال پہلے نیسپاک کے پاور ڈویژن میں بھی اسی طرح کی آگ لگ چکی ہے، جس میں بجلی کے اہم پیداواری منصوبوں کا ریکارڈ راکھ ہوگیاتھا۔حسنِ اتفاق دیکھئے کہ اس طرح کے آتش زدگی کے واقعات میں ابھی تک کسی افسر کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔صرف محرر کیخلا ف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔اُس کا قصہ بس اتنا ہے۔

2013 ءمیں ایل ڈی اے پلازہ میں آگ لگی تھی۔ جس میں نواز شریف اور شہباز شریف دور کے دوسرے اہم ریکارڈ کے ساتھ بلاکوٹہ الاٹمنٹ کا ریکارڈ بھی جل گیا تھا۔ 1985سے 2012تک بلا کوٹہ کی مد میں پلاٹوں کی بے تحاشاتقسیم ہوئی اور یہ پلاٹ 1500سے بڑھ کر چودہ ہزار ہو گئے تھے۔اس آگ کی وجہ سے 22 افراد ہلاک ہوئے ۔جن کے قتل کا باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیاتھا مگر اِس خوفناک سانحہ کی تحقیقات کا ریکارڈ پولیس کے ریکارڈ سے غائب ہو گیا ہے ۔ریکارڈ گم ہونے کا الزام محررمحمد لطیف پر عائد کیا گیا ہے کہ اس نے سی سی پی او آفس سے تھانہ ریس کورس کی عمارت میں تھانہ سول لائنز کی منتقلی کے دوران ریکارڈ کباڑئیے کو بیچ دیاتھا۔ بائیس افراد کے خون کے داغ کباڑیے کی دکان سے اب کون تلاش کرے ۔ویسے ابھی میں ایل ڈی اے کی آگ پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ یہ فسانہ پھر کسی وقت چھیڑیں گے ۔میں تو اُس آگ کی بات کرنا چاہ رہا ہوں جو پچھلے دنوں لاہور میں نیلا گنبد کے قریب فائلوں پر پٹرول چھڑک کر لگائی گئی تھی ۔

یہ آگ اُس دن لگائی گئی جب بینک کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے حکم پراُس کا آڈٹ ہونا شروع ہوا تھا۔ ممکن ہے کبھی پہلے آڈٹ ہوا ہو مگر یہ طے ہے کہ شہباز شریف کے دس سالہ دورِ حکومت میں اس بینک کا یہ پہلا آڈٹ تھا ۔دراصل تھوڑے دن پہلے سپریم کورٹ نے سوموٹو نوٹس لیا تھااور خوفناک بے ضابطگیوں کے سبب آڈٹ کا حکم دیا تھا۔پنجاب کوآپر ٹیو بینک کی تقریباً بیس ہزار سے زائد کوآپر ٹیو سوسائٹیاں ممبر ہیں اس کا بینک ورکنگ کیپٹل گیارہ بلین ہے ۔ سات بلین اکویٹی میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔اس بینک کی سو سے زیادہ پر اپرٹیز پنجاب میں موجود ہیں ۔ آگ لگا کر ریکارڈ جلانے کا کام اس کے لئے کوئی نیا نہیں ۔یہ کام اس کی مختلف برانچوں میں پچھلے آٹھ سال میں بہت مرتبہ چکاہے۔ تقریباً دوسو ایسے معاملات ہیں جن پرمقدمات درج ہیں ۔معاملہ صرف یہیں تک ختم نہیں ہوتا ۔ اس بینک نےکچھ عرصہ پہلے سونا رکھنے کی ایک اسکیم متعارف کرائی۔ بڑی اچھی اسکیم تھی لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔مگر دو ہزار سترہ میں شجاع آباد برانچ سےچھ کروڑ کا سونا چوری ہوگیا ۔چندماہ کے بعد یعنی دوہزار اٹھارہ میں سونا چوری کی پھر واردات ہوئی۔یہ راولپنڈی برانچ میں ہوئی جہاں سے بارہ کروڑ کا سونا چوری ہو گیا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔اللہ تعالیٰ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا بھلا کرے جنہوں نے از خودنوٹس لیا اور بینک میں ہونے والے اربوں روپے کے فراڈ پر آڈٹ شروع ہوا۔ابوبکر خدا بخش ایڈیشنل آئی جی اِنویسٹی گیشن اِس کی انکوائری کر رہے ہیں۔بینک کے لوگوں کا خیال ہے کہ اس بینک کی تباہی کاجو شخص ذمہ دار ہے اس نےدوہزار آٹھ میں ستر ہزار روپے ماہانہ پر اس بینک میں ملازمت اختیار کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی غیر فطری منازل طے کرتا چلا گیا اور بینک کا صدر بن گیا۔خبر ہے کہ اس کے احد چیمہ اور فواد حسن فواد کے ساتھ انتہائی قریبی مراسم ہیں ۔فواد حسن فواد نے اپنے اقبالی بیان میں کہیں اُس کا ذکر بھی کیا ہے ۔اس بینک کی تباہی کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ کئی سال ہو گئے ہیں مگر بورڈ آف ڈائریکٹر کا اجلاس تک نہیں ہوا ۔ بائی لاز منسوخ کر دئیے ہیں۔ بینک حکام اپنی مرضی کے قوانین بناتے اور انہیں بدلتے رہتے ہیں ۔چیف جسٹس آف پاکستان بڑی باریک بینی سے اربوں کھربوں کے اس فراڈ کی تحقیقات کرا رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اس فراڈ میں بڑے بڑے شرفا کا نام آرہا ہے ۔اگرچہ شرفا کی لسٹ میرے پاس موجود ہے مگر ابھی اسے سامنے لانے کا وقت نہیں آیا۔

ابھی تک یہی لگ رہا ہے عمران خان کے کرپشن سے پاک پاکستان کے خواب کوتعبیر یقیناً چیف جسٹس آف پاکستان کے ایسے ہی ازخود نوٹسوں سے ہی ملے گی۔ بڑے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہی جو جعلی اکائونٹس والا کیس ہے ۔اس کی جے آئی ٹی بن چکی ہے مگر پیپلز پارٹی نون لیگ سے کہیں زیادہ تیزی اور توانائی سے آصف علی زرداری کا دفاع کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ ابھی تک تو میڈیا پر بھی کوئی آسانی سے یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ زرداری فیملی کے پاس چوبیس بلین ڈالر کی رقم اور اثاثے ہیں ۔جعلی اکائونٹس والا کیس اصل میں منی لانڈرنگ کا کیس ہے ۔ یہ بھی درست کیس ہے مگر آمدن اور اثاثوں میں تفاوت کا یہ معاملہ ہے آصف علی زرداری کا مقدمہ اُس قانون کے تناظر میں کیوں نہیں دیکھا جا رہا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی سے پہلے آصف علی زرداری کی مالی حیثیت اور آج کی مالی حیثیت یقیناً زیر بحث آنی چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین