• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا ہے۔اب ایوان صدر میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔ ملک میں تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔مرکز اور تین صوبوں میں تحریک انصاف کی نومنتخب حکومتیں معاملات حکومت سنبھالے ہوئے ہیں۔اب تحریک انصاف کے ڈیلیور کرنے کا وقت ہے۔وزیراعظم عمران خان کو عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں سخت محنت کرنا ہوگی۔اپنے اہداف کا حصول تحریک انصاف کے لئے آسان نہیں ہوگا۔عمران خان اور ان کی ٹیم کو سخت محنت کرنا ہوگی۔عوام نے یہ سوچ کر تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے کہ ایک موقع انہیں بھی ملنا چاہئے۔تحریک انصاف کے سربراہ اس ایک موقع کو پہلا موقع بھی بناسکتے ہیں اور آخری موقع بھی۔تحریک انصاف کی بہترین کارکردگی ان کی عوام میں جڑیں مضبوط بھی کرسکتی ہے اور کمزور بھی۔تحریک انصاف کو درپیش چیلنجز میں سب سے اہم معاشی بحران ہے۔معاشی مسائل سے نکلنے کے لئے تحریک انصاف کو موثر حکمت عملی وضع کرنا پڑے گی۔بیرونی سرمایہ سے پہلے ملک میں موجود سرمایہ داروں کااعتماد بڑھانا ہوگا۔جب تک ملک میں موجود صنعتکاروں ،سرمایہ داروں کا ملکی اداروں پر اعتماد بحال نہیں ہوگا،ملک معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوسکے گا۔ملک کے وزیراعظم عمران خان نے کچھ اچھے فیصلے لئے ہیں۔عبدالرزاق داؤد جیسے کامیاب بزنس مین کے مشوروں پر عمل کرکے معاشی چیلنجز پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔مگر اب وقت آچکا ہے کہ سرمایہ داروں کو تحفظ دینے کے حوالے سے وطن عزیز میں قانون سازی ہونی چاہئے۔تاکہ سرمایہ دار بغیر کسی خوف کے ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔عمران خان کو ایسا نظام متعارف کرانا چاہئےکہ حکومتوں کے آنے جانے سے سرمایہ داروں کو کوئی فرق نہ پڑے۔ملک کی معاشی پالیسیاںسیاسی حکومتوں کی محتاج نہیں ہونی چاہئیں،بلکہ معاشی پالیسیاں ایسی مضبوط اور جامع ہونی چاہئیںکہ ہر آنے والی حکومت ان کی تقلید کرے۔

عبدالرزاق داؤد جیسے قابل بزنس مین کو چاہئےکہ آج پندرہ سال بعد انہیں دوبارہ حکومت میں آنے کا موقع ملا ہے۔2002میں ان کی کوشش تھی کہ سرمایہ داروں کے حوالے سے ایسی قانون سازی کر دی جائے ،جس سے انہیں ملک میں قانونی تحفظ حاصل ہو اور کوئی بھی ادارہ انہیں بلاوجہ تنگ نہ کرسکے۔مگر وہ چاہتے ہوئے بھی ایسا نہیں کرسکے۔سابق دور حکومت میں بھی اپوزیشن لیڈر محمد شہباز شریف کی خواہش تھی کہ وفاقی حکومت ایسی قانون سازی کرے،جس سے بزنس مینوں کا حکومت پر اور وطن عزیز پر اعتماد بڑھ سکے۔تاکہ نیب ،ایف آئی اے سمیت کوئی بھی ادارہ انہیں بلاوجہ تنگ نہ کریں۔مگر ان کی بھی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔پاکستان میں چند ہی بڑے سرمایہ کار ہیں۔جن کی ملک میں ایک ساکھ اور اچھی شہرت ہے۔جب کسی بھی ادارے کے معمولی سے نوٹس کی خبر بھی میڈیا چینلز پر چلتی ہے تو چھوٹے سرمایہ دار بوکھلا جاتے ہیں اور اپنا تھوڑا بہت سرمایہ بھی چھپا لیتے ہیں اور سفید دھن کو بھی بیرون ملک منتقل کرنے پر غور شروع کردیتے ہیں۔چند ماہ کے میڈیا ٹرائل کے بعد اس نوٹس میں سے کچھ بھی نہیں نکلتا مگر سرمایہ دار کو اس قدر خوف زدہ کردیا جاتا ہے کہ وہ ملک میں رہ کر ایک روپے کی بھی سرمایہ کاری کرنے کا حامی نہیں ہوتا۔یہ صرف آج نہیں ہورہا بلکہ ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے۔مشرف دور میں سرمایہ داروں کو خوب ڈرایا گیا۔نیب کی تلوار ان پر لٹکائی گئی۔جس کے بعد بڑے بڑے سرمایہ داروں کا پیسہ سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے میں استعمال ہوا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کی سابق مرکزی حکومت میں صدر الدین ہاشوانی کے لئے ایسے حالات بنادئیے گئے کہ انہوں نے زرداری صاحب کے پانچ سالوں میں باہر رہنے کو ترجیح دی۔

اسی طرح پاکستان کے ایک اور بڑے سرمایہ دار کے کراچی میں بزنس کو بہت ڈسٹرب کیا گیا۔لیاری کے چند غنڈوں سے دفاتر پر حملے کرائے گئے پھر ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے اس صنعتکار کو تحفظ دلوایا۔مسلم لیگ ن کا سابق دور سرمایہ داروں کے حوالے سے بہتر تھا مگر اس میں بھی ایک بزنس مین کی رائیونڈ روڈ پر پراپرٹی کے لئے مشکلات پیدا کی گئیں ۔پھر اس بزنس مین نے چائنہ اور ترکی سے سفارش کرائی تو اس کی جان بخشی ہوئی۔

اس لئے یہ کہنا کہ آج سرمایہ داروں کے لئے خوف کی فضا بنائی جارہی ہے اور انہیں تنگ کیا جارہا ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ہر نئی آنے والی حکومت میں سرمایہ داروں کو تنگ کیا جاتا ہے اور ان کے لئے خوف کی فضا قائم کی جاتی ہے۔جس کا براہ راست نقصان ملکی معیشت کو ہوتا ہے۔حال ہی میں ایک بڑے صنعتکار کے حوالے سے ملک کے ایک نیوز چینل نے بریکنگ نیوز کا طوفان کھڑا کردیا۔ان کی ذات اور ان کے بزنس کے حوالے سے بڑا پروپیگنڈا کیا گیا۔تحقیقات اور اثاثوں کی چھان بین تک معاملہ پہنچادیا گیا۔حالانکہ جب میں نے معاملے کی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ معاملہ تو پہلے ہی لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت رہ چکا ہے اور عدالت اس الزام کو مسترد کرچکی ہے۔اس لئے آج تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عبدالرزاق داؤد جیسے منجھے ہوئے بزنس مین کی قابلیت کا فائدہ اٹھائیں اور ملک کے تمام بڑے سرمایہ داروں کو وزیراعظم ہاؤس میں بلائیں اور ان سے سفارشات مانگیں۔جس کی روشنی میں عبدالرزاق داؤد ایک ایسی قانون سازی کرسکیں ۔جس سے بزنس مین کو تحفظ حاصل ہوسکے۔سرمایہ داروں کو کچھ معاملات میں استثنیٰ دیا جانا چاہئے۔تاکہ لوگ اپنا پیسہ پاکستان لانے میں کوئی جھجک محسوس نہ کریں۔دنیا بھر میں بڑے سرمایہ داروں کے لئے ریاستی پالیسیاں ہوتی ہیں۔فرانس جیسے ملک میں سرمایہ داروں کو بہت سے معاملات میں استثنیٰ حاصل ہے۔جہاں پر کسی سرمایہ دار کے خلاف تحقیقات ناگزیر ہو تب بھی اتنی خاموشی اور خفیہ طریقے سے تحقیقات کی جاتی ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔یہ صرف پاکستان ہے کہ جہاں پر الزام ثابت ہونے سے پہلے شرفاء کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں اور پھر تحقیقات شروع کی جاتی ہیں۔اگر وزیراعظم عمران خان اور کچھ بھی نہ کریں صرف سرمایہ داروں کو قانونی تحفظ دینے کے حوالے سے چند اقدامات کرلیں تو ملکی معیشت اپنی ڈگر پر واپس آجائے گی۔ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے سرمایہ داروں کا ملکی اداروں پر اعتماد بحال کرنا اشد ضروری ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین