• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور کئی دیگر پی ٹی آئی کے رہنما بارہا ارشاد فرما چکے ہیں کہ پولیس کو غیر سیاسی ہونا چاہئے اور پولیس کو غیر سیاسی بنائیں گے۔ ہر حکومت نے پولیس کو غیرسیاسی بنانے کی بات کی پھر ہر حکومت نے پولیس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ ہر اعلیٰ پولیس افسر آئی جی کیوں لگنا چاہتا ہے؟ کیوں آئی جی لگنے کے لئے بڑی بڑی سفارشیں کرواتا ہے۔ کیا وہ لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ لوگوں کو انصاف دلانا چاہتا ہے؟ کیا وہ تھانہ کلچر درست کرنے کے لئے آئی جی بننا چاہتا ہے۔ اگر ہمارے ملک کی پولیس ایماندار اور خلوص نیت سے کام کرے تو یقین کریں ہمارے ملک کے عدالتی نظام سے پچاس فیصد دبائو ختم ہو جائے۔ پولیس خود لوگوں کو جھوٹے کیس بنانے کے راستے بتاتی ہے۔ الیکشن کے دنوں میں مخالف امیدواروں کو تنگ کرنا، علاقے کے شریف لوگوں پر دبائو ڈالنا، یہ سب کچھ تو پولیس کرتی ہے۔ عزیز قارئین! آپ کو یاد ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن میں اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے ایک نئی فورس بنانے کا خیال آیا تھا جس کا نام فیڈرل سیکورٹی فورس تھا یعنی ایف ایس ایف۔ اس فورس کی یونیفارم بھی فوج کی یونیفارم سے ملتی جلتی تھی اور یہ پولیس سے سپیریئر فورس تھی جس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود تھے جو نواب محمد احمد خاں کے کیس میں وعدہ معاف گواہ بنے تھے اور اس بنا پر ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت نے پھانسی کی سزا دی تھی۔ بعد میں ایف ایس ایف کو ختم کر دیا گیا تھا اس فورس نے بھٹو کے دور میں ان کے سیاسی مخالفین کو بہت پریشان اور تنگ کیا تھا۔ آج بھی ہر علاقے کا ایم پی اے، ایم این اے علاقے کے تھانیدار کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ سندھ کے ہر اہم علاقے کے تھانے میں تھانیدار وڈے سائیں کی مرضی سے لگتا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ جو سرکاری ملازمین اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بیرون ممالک تعلیم دلاتے ہیں، آخر یہ اخراجات ان کے پاس کہاں سے آتے ہیں۔ یہ سوچنا کہ پولیس کبھی ٹھیک ہو جائے گی ناممکن ہے اور کبھی حکومت یہ بھی سوچے کہ پولیس کا ہر اعلیٰ افسر ریٹائرمنٹ کے بعد فارم ہائوس اور اپنے بچے بیرون ممالک کیسے پڑھا لیتا ہے۔ اسی طرح بیورو کریٹس کے بچے بھی باہر کے ممالک میں پڑھتے ہیں۔ کوئی اس بارے میں نہیں پوچھتا ۔ پی ٹی آئی کی حکومت جس دن انفرادی کرپشن ختم کرے گی اس دن یہ ملک ترقی کرے گا۔ پی ٹی آئی کی حکومت جو میرٹ پر زور دیتی ہے اور سفارش اور رشوت کو روکنے کی بات کر رہی ہے کیا ایسے سخت اقدامات کرے گی؟ یقین کریں پولیس کے ہاتھوں اس ملک کے لوگ بہت تنگ ہیں۔ صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں پولیس واقعی خدا بنی ہوئی ہے۔ لوگ ایف آئی آر درج کرانے کے لئے آج بھی ذلیل ہوتے ہیں اور سینکڑوں جعلی پولیس مقابلے ہوتے ہیں۔ ڈولفن فورس قومی خزانے پر ایک بوجھ اور بہت بڑی رقم کا ضیاع ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ڈولفن فورس کو ختم کر کے ایمرجنسی پولیس کو مزید بہتر کرے اور یہ وسائل جو ڈولفن فورس پر ضائع کئے جا رہے ہیں وہ وسائل 15پر خرچ کرے۔

لیں جی پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر محمد اجمل خاں کو اچھے کام کرنے کی بنا پر ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ ان کی ریٹائرمنٹ میں صرف چھ ماہ رہ گئے تھے۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے عطائیت کے خلاف منشیات میں مبتلا افراد کے علاج کی جعلی علاج گاہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی اور سینکڑوں افراد کو ان عقوبت خانوں سے چھڑایا۔ پورے پنجاب میں سینکڑوں عطائیوں کے اڈے بند کر دیئے۔ ان عقوبت خانوں میں ذہنی مریضوں کو زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ ان پر تشدد علیحدہ کیا جاتا تھا۔ ان مریضوں کے لواحقین سے ماہانہ ہزاروں روپے علاج کے نام پر لئے جاتے تھے۔ ان منشیات کی جعلی علاج گاہوں کو 70برس تک کسی نے چیک نہ کیا۔ ان کو چلانے والے ڈاکٹرز نہیں تھے، کسی حکومت نے ان کے خلاف آواز نہ اٹھائی۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے ان کے خلاف کریک ڈائون کیا تو مافیا اٹھ کھڑا ہوا۔ آج عالم یہ ہے کہ لاہور میں جب ایک ایسی ہی جعلی منشیات کی علاج گاہ کے خلاف کریک ڈائون کیا گیا تو اس کو بچانے کے لئے سیاسی لوگ اور نام نہاد صحافی تک کود پڑے۔ آج ہمارے معاشرے کی پستی کا یہ عالم ہو گیا کہ بعض لوگ عطائیوں کو بچانے کے لئے دبائو ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان غالباً واحد ملک ہو گا جہاں پر عطائیوں کی بھرمار ہے اور وہ بہت مضبوط ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں چار لاکھ عطائی کام کر رہے ہیں اور کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کی تعداد صرف دو لاکھ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی حکومت ان پرہاتھ ڈال سکتی ہے یا بے بس ہو جاتی ہے۔ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بڑے زور دار لہجے میں کہا کہ وہ نہ سفارش سنیں گی اور نہ سفارشیں کریں گی اور نہ کوئی انہیں سفارش کرنے کی جرأت کرے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ آخر کب تک ان عقوبت خانے چلانے والوں اور عطائیوں کے خلاف ڈٹی رہتی ہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں منشیات کی پرائیویٹ علاج گاہیں ہیں۔ ان کے معیار کے بارے میں اور ان کو چلانے والوں کے بارے میں کبھی معلومات حاصل نہ کیں جبکہ بہت ساری علاج گاہوں کے مالک ڈاکٹرز نہیں بلکہ سوشل ورکرز ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت خود منشیات کے مریضوں کے علاج کے لئے ادارے بناتی۔ اس وقت لاہور میں مینٹل اسپتال میں اور شاید کسی اسپتال میں ایک آدھی علاج گاہ ہے۔ حکومت کو ان منشیات کی جعلی علاج گاہوں کے خلاف سخت ایکشن لینا ہو گا۔ پچھلے کچھ عرصہ سے تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے اور حکومت کا کوئی ادارہ اس طرف دھیان نہیں دے رہا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ منشیات کی ان جعلی علاج گاہوں کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔ لاہور میں، وزیر آباد میں اور دیگر شہروں میں جو ادارے پکڑے گئے ہیں ان کو پولیس کی سرپرستی حاصل تھی کیونکہ وہ جن علاقوں میں موجود تھے یہ کیسے ممکن ہے کہ علاقہ کے تھانے دار کو معلومات نہ ہوں۔ شہر میں جرائم کی جو بھی وارداتیں ہو رہی ہیں اور جو ڈرگز کا کاروبار ہو رہا ہے وہ پولیس کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں۔ گزشتہ روز پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے پنجاب کے دونوں صحت کے محکمے پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ اور اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کو اکٹھا کر کے ایک احسن قدم اٹھایا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے اقدامات سے مریضوں کو فائدہ پہنچنا چاہئے۔ ہم پھر یہ کہیں گے کہ میٹنگ میٹنگ کھیلنا ختم کریں اور ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ تعطیلات کے دنوں میں کوئی سینئر ڈاکٹر کسی اسپتال میں نہیں ہوتا بے شک وزیر صحت چھاپہ مار کر دیکھ لیں۔

تازہ ترین