• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جسٹس عائشہ ملک کے والداور برادرم ہمایوں احسان کے سسر ارشد مسعود مرحوم کی قرآن خوانی کے بعد بھگت سنگھ فاؤنڈیشن کے کرتا دھرتا عبداللہ ملک نے فرمائش کی کہ لاہور کے شادمان چوک کو تحریک ِ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ سے منسوب کرنے کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دوں، اس پر کچھ لکھوں۔
میں نے عرض کی میاں شہباز شریف کی پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے تو یقینا کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہوگا۔ پنجاب نہیں تو لاہورکے شہریوں کے جذبات و احساسات سے مکمل آگاہی کے بعد ہی شادمان چوک کو بھگت سنگھ سے منسوب کرنے کی کارروائی کی گئی ہوگی۔ عدالت ِ عالیہ نے حکومتی فیصلے کو غیرقانونی قرار دے کر حکم امتناعی جاری کیا ہے تو اس کی بھی کوئی معقول وجہ ہوگی مگر میں اپنی کمزوری اور بزدلی کی وجہ سے آپ کی تائید نہیں کرسکتا۔ عبداللہ ملک کیا کہتے خاموش ہوگئے۔
9/11 سے پہلے غیر ملکی استعمار، جبر و تسلط اور بیرونی فوجی قبضے، ظالمانہ اقدامات اور وحشت و بربریت کے خلاف جدوجہد جائز تھی۔ کشمیر، فلسطین، ایریٹیریا، اراکان، مورو اور چیچنیا میں اپنی آزادی وخودمختاری کے لئے لڑنے والوں کو حریت پسند، مجاہد اور قومی ہیرو قرار دیاجاتا تھا۔ لیلیٰ خالد فلسطینیوں کی ہیرو تھی اور بھارتی طیارہ اغوا کرنے والے ہاشم قریشی اور اشرف قریشی کو ہار پہنانے ذوالفقار علی بھٹو لاہور ایئرپورٹ پرپہنچ جایاکرتے تھے۔ لاہور میں گولے بارود کی فیکٹری قائم کرکے دہلی کی قانون ساز اسمبلی اور پنجاب کے سول سیکرٹریٹ سمیت کئی سرکاری عمارتوں کو بم دھماکوں سے اڑانے اور انگریز پولیس کے دو اہلکاروں اے ایس پی سندرس اور کانسٹیبل چانن سنگھ کو سرعام قتل کرنے والے بھگت سنگھ ہندوستان بھر کے آزادی پسندوں کی آنکھ کاتارا اور حریت پسندی کا استعارہ سمجھے جاتے تھے۔ یاسرعرفات، ہوچی منہ، لوممبا اور چی گویرا کی عسکریت پسندی اور مسلح جدوجہد دنیا بھر کے انقلابیوں کے لئے مشعل راہ تھی مگر اب صورتحال مختلف ہے۔
میں ذاتی طور پر استعماری طاقت اور جبر واستبداد کی علمبردار قوت کے خلاف ہر قسم کی جدوجہد کے حق میں ہوں۔ میں سید عطا اللہ بخاری کی طرح اس کتے کا منہ چومنے کیلئے تیار رہتاہوں جو کالی یا سفید چمڑی والے استعماری درندوں کی طرف منہ کرکے بھونکے مگر میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصرہوں کہ بھگت سنگھ کو دہشت گرد قراردے کر سزائے موت سنائی گئی تو عملدرآمد رکوانے کے لئے کانگریس کے باپو گاندھی نے مرن برت کیوں نہ رکھا، جواہر لال نہرو نے صدائے احتجاج کیوں بلند نہ کی اور لاہور کے کسی آزادی پسند نے شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ چوک رکھنے کی زحمت کیوں نہ کی جو بھارتی شردھالو ان دنوں شادمان چوک میں جمع ہوکر انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ کلدیپ نیر ان میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ وہ سری نگر کی کسی معروف شاہراہ اور دہلی کے کسی چوک کو مقبول بٹ شہید کے نام سے منسوب کرنے کی تحریک کیوں نہیں چلاتے؟ جو بھگت سنگھ ٹائپ کارروائیوں کی بناپر تختہ دار پر لٹک گئے اورپوری کشمیری قوم کے متفقہ ہیرو ہیں۔
میں بھگت سنگھ کو ہیرو قرار دینے کے بعد کشمیر، فلسطین، افغانستان اور دنیا کے مختلف خطوں میں غیرملکی غلبے اور فوجی تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے والے تمام حریت پسندوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنے پرمجبور ہوں گا۔ غزہ میں اسرائیلی طیاروں کی درندگی کانشانہ بننے والے بچوں اور ان کی عصمت مآب ماؤں کا بدلہ لینے والے حماس کے نوجوانوں اور مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی، افغانستان میں امریکی و اتحادی فوج کے خلاف برسرپیکار شہریوں کو بھی آزادی کے متوالوں اور قومی خودمختاری کے علمبرداروں میں شمار کروں گا تو امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے سارے نمک خوار، ثنا خواں اور ذہنی غلام میرے پیچھے پڑ جائیں گے مجھے دہشت گردوں کا حامی اور انتہاپسندوں کا خیر خواہ قرار دے ڈالیں گے کیونکہ استعماری فرمان امروز یہی ہے کہ کوئی طاقتور خواہ بزورشمشیر آپ کے وطن پر قبضہ کرے، آزادی، خودمختاری پامال کرڈالے اور آپ کو غلام، آپ کی عورتوں کو باندیاں اور کنیزیں اور آپ کی عزت و آبرو کو جنس بازار بنا ڈالے آپ کوجوابی اقدام کرنے، اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کاکوئی حق حاصل نہیں۔ یہ دہشت گردی ہے، تخریب کاری اور امن دشمنی انہیں سمجھنے کے بجائے ہمیں صرف اپنے بارے میں سوچنا چاہئے کیونکہ سیانے کہہ گئے ہیں کہ تجھ کو پرائی کیا اپنی نبیڑ تو…
میرے بس میں ہو تو میں لاہور کے سول سیکرٹریٹ، پنجاب اسمبلی ہال اور دہلی کی قانون ساز اسمبلی کو بھگت سنگھ سے منسوب کردوں کیونکہ آنجہانی کا اصل ہدف پولیس کے دومعمولی اہلکار نہیں یہ بڑی عمارتیں تھیں، یہاں انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگانے اور بھگت سنگھ کی یاد میں شمعیں جلانے میں بھی مزہ آئے گا۔ ہمارے حکمرانوں کو تو شاید اس پر بھی اعتراض نہ ہو مگر مجھے یقین ہے کہ بھارتی حکومت ہرگز نہیں مانے گی کیونکہ وہ بھی امریکہ کی پیروکار اور مسلح جدوجہد کو دہشت گردی سمجھتی ہے۔ آج اگر بھگت سنگھ زندہ ہوتا تو اپنے عسکریت پسندانہ نظریات اور مسلح کارروائیوں کی بنا پر بھارتی فوج کے ہاتھوں اسی انجام سے دوچار ہوتا جودربارصاحب امرتسر میں بھنڈرانوالہ کا ہوا۔
ویسے ہمیں سوچنا چاہئے کہ بھگت سنگھ یا اس نوع کے دیگرانقلابیوں کا مقصد محض انگریز حکومت سے چھٹکارا اور اس کی جگہ کاٹھے انگریزوں کو کروڑوں عوام کے سر پر مسلط کرکے ظلم، استحصال، نا انصافی، لوٹ کھسوٹ اور قانون شکنی پر مبنی عوام دشمن نظام کو پروان چڑھانا تھا یا آزادی کے حصول کے بعدایک ایسے معاشرے کا قیام جس کا طرہ امتیازعدل و انصاف، دیانت و امانت، اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور شہری حقوق کی بلاامتیاز فراہمی ہو، کشمیریوں، فلسطینیوں، افغانوں، چیچن اور اراکانی عوام کی جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر بھگت سنگھ کی یاد میں شمعیں جلانے والوں کو سوچنا ضرور چاہئے مگر اس کی فرصت کہاں؟
تازہ ترین