• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مخصوص ایجنڈےکے تحت پاکستان میں ایک سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا مقصد ریاست پاکستان کی طرف سے ختم نبوت کے منکرین کو غیر مسلم قرار دینے کے متفقہ آئینی فیصلہ کو متنازع بنانا ہے۔ کبھی کسی ایک بہانہ اور کبھی کسی دوسرے بہانہ سےاس آئینی ترمیم کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو کبھی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ریاست کیسے کسی کے مسلمان یا غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے ایک قادیانی مبلغ اور معیشت دان کو ایکنومک ایڈوائزری کونسل میں شامل کرنے اور پاکستانیوں کی طرف سے شدید احتجاج پر چند ہی دنوں میںاُسے نکالنے کے فیصلے نے ایک مخصوص طبقہ کوجیسے حواس باختہ کر دیا ہو۔ ایک طرف عمران خان کی حکومت جس نے اپنے ایک غلط فیصلہ کو واپس لے کر اچھا اقدام کیا اُس پر سوشل میڈیا کے ذریعے تابڑ توڑ حملے کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف ایک بار پھر پاکستان کے اسلامی آئین اور ختم نبوت کے متعلقہ شقوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ کئی افراد جن میں میڈیا کے بھی کچھ لوگ شامل ہیں اپنی لاعلمی کے باعث اس پروپیگنڈہ کا حصہ بنے نظر آتے ہیں۔ ان افراد میں اپنے آپ کو سیکولر اور لبرل ظاہر کرنے والوں کا ایک گروہ پیش پیش ہے جو یہ جھوٹ پھیلانے کی کوشش میں ہیں جیسے یہ مسئلہ صرف مولوی حضرات اور مذہبی طبقہ کا ہے اور یہ بھی کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تو کوئی حقوق ہی حاصل نہیں۔ عمومی طور پر پاکستان کا لبرل اور سیکولر طبقہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے مرعوب نظر آتا ہے اس لیے سوچا کیوں نہ اُن کو بھٹو صاحب کی زبان میں ہی بات سمجھائی جائے۔ 1974 کو جب پاکستان کی پارلیمنٹ نے منکرین ختم نبوت (قادیانیوں) کے غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلہ کو آئین کا مستقل حصہ بنا دیا تو اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ سے ایک تاریخی خطاب کیا جس کے کچھ اقتباسات (اردو ترجمہ) مندرجہ ذیل ہیں:

’’جناب اسپیکر،… آج کے روز جو فیصلہ ہوا، یہ ایک قومی فیصلہ ہے۔ یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے، خواہشات اور ان کے جذبات کا عکاس ہے… یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ بنیادی اور اصولی طور پر مذہبی مسئلہ ہے۔ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ پاکستان، مسلمانوں کے مادر وطن کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ اگر کوئی ایسا فیصلہ کر لیا جاتا، جسے اس ملک کے مسلمانوں کی اکثریت، اسلامی تعلیمات اور عقیدے کے خلاف سمجھتی، تو اس سے پاکستان کے مقصد وجود اور اس کے تصور کو بھی خطرناک حد تک صدمہ پہنچنے کا اندیشہ تھا… آپ کو یہ بتاتے ہوئے جناب اسپیکر، مجھے حیرت نہیں ہو رہی کہ اس مسئلے کے باعث میں اکثر پریشان اور راتوں کو نیند سے محروم رہا ہوں۔ اس مسئلے پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کی شاخ در شاخ پیچیدگیوں اور اس ردعمل سے بھی بخونی واقف ہوں جس کا اثر مملکت کی سلامتی پر ہو سکتا ہے… جناب اسپیکر، جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ ہم نے اس مسئلہ کا باب بند کر دیا ہے۔ یہ میری کامیابی نہیں، یہ حکومت کی بھی کامیابی نہیں ہے۔ میں بار بار زور دے کر کہتا ہوں کہ یہ کامیابی پاکستان کے عوام کی کامیابی ہے، جس میں ہم بھی شریک ہیں۔ میں اس سارے ایوان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ مجھے احساس ہے کہ یہ فیصلہ متفقہ طور پر نہ کیا جا سکتا تھا، اگر تمام ایوان کی جانب سے اور یہاں موجود تمام پارٹیوں کی جانب سے تعاون اور مفاہمت کا جذبہ نہ ہوتا… ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ یہ حل ہمارے لیے نیک شگونی کا باعث ہےاور اب ہم آگے بڑھیں گے اور تمام توقعات، لڑائی جھکڑے پر ابھارنے والے مسائل کو مفاہمت اور مطابقت کے جذبے سے حل کریں گے… میں ایک بار پھر دُہراتا ہوں کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ یہ ایک فیصلہ ہے جس کا ہمارے عقائد سے تعلق ہے۔ یہ پورے ایوان اور پوری قوم کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق ہے۔ میرے خیال میں یہ انسانی طاقت سے باہر تھا کہ یہ ایوان اس سے بہتر کچھ فیصلہ کر سکتا۔ اسی طرح میرے خیال میں یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے موجودہ فیصلہ سے کم کوئی اور فیصلہ ہو سکتا۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں، جو اس فیصلہ سے خوش نہ ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُن کے نزدیک یہ فیصلہ ناگوار ہو۔ یہ ایک فطری سی بات ہے۔ ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ اس مسئلے کے فیصلے سے تمام لوگ خوش ہوں گے، جو گزشتہ نوے سال سے حل نہیں ہو سکا۔ اگر یہ مسئلہ اتنا سادہ سا ہوتا اور ہر ایک کو خوش کرنا ممکن ہوتا، تو یہ مسئلہ بہت پہلے حل ہو گیا ہوتا، الیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا تھا…میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے ایسے لوگ بھی ہیں جو اس فیصلہ پر نہایت ناخوش ہوں گے۔ اب میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کروں لیکن میں یہ کہوں گا یہ لوگوں کو طویل المیعاد مفاد میں ہے کہ یہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ آج یہ لوگ غالباً ناخوش ہوں گے، انہیں یہ فیصلہ پسند نہیں ہو گا اور فیصلہ پر رنجیدہ ہوں گے لیکن حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اور ذاتی طور پر ان لوگوں سے کہوں گا،کہ ان کو بھی اس بات پر خوشی ہونی چاہیے کہ اس فیصلہ سے یہ مسئلہ حل ہوا، ان کو آئینی حقوق کی ضمانت حاصل ہو گئی۔ مجھے یاد ہے کہ جب حزب اختلاف کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی نے یہ تحریک پیش کی، تو انہوں نے ان لوگوں کو فیصلہ کی روشنی میں مکمل تحفظ دینے کا ذکر کیا تھا، جو اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔ اس یقین دہانی پر یہ پورا ایوان اور پوری قوم پرعزم ہے۔ اب ہر پارٹی کا فرض ہے، یہ حزب اختلاف کا فرض ہے اور یہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کی یکساں طور پر حفاظت کرے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ اسلام کی یہی روح ہے اور اس کی نصیحت رواداری ہی ہے۔ مسلمان ہمیشہ رواداری پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اسلام نے فقط رواداری کی تبلیغ نہیں کی بلکہ پوری تاریخ میں اسلامی معاشرے نے رواداری سے کام لیا ہے۔ اسلامی معاشروں نے اس تیرہ و تاریک زمانے میں یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا، جب کہ یورپ میں عیسائیت ان پر ظلم کر رہی تھی اور یہودیوں نے سلطنت عثمانیہ میں آ کر پناہ لی تھی۔ اگر یہودی دوسرے حکمران معاشروں سے بچ کر، عربوں اور ترکوں کے اسلامی معاشرے میں پناہ لے سکتے تھے، تو پھر یاد رکھنا چاہیے ہماری مملکت ایک اسلامی مملکت ہے، ہم مسلمان ہیں، ہم پاکستانی ہیں اور یہ ہمارا مقدس فرض ہے کہ ہم تمام فرقوں، تمام لوگوں اور پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں طور پر تحفظ فراہم کریں۔‘‘

مجھے ڈرہے کہ بھٹو مرحوم کو اس عظیم کارنامہ پر اور اُن کی اس تقریر کو پڑھ کر کچھ سیکولر اور لبرل حضرات اُنہیں بھی bigotنہ کہہ دیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 1974 کی پارلیمنٹ نے جو فیصلہ کیا وہ بہترین فیصلہ تھا جسے تسلیم کر کے ہی یہاں امن قائم رہ سکتا ہے۔ ختم نبوت کے نہ ماننے والے غیر مسلم اقلیت ہیں اور اسی حیثیت میں اُنہیں تمام آئینی حقوق میسر ہوں گے۔ لیکن اگر منکرین ختم نبوت میں سے کوئی یہ ضد کرے کہ وہ مسلمان ہے تو پھر نہ صرف یہ عمل خلاف اسلام اور خلاف آئین ہے بلکہ اس سے انتشار اور فتنہ جنم لیتا ہے جسے ختم کرنا ہی 1974 کی آئینی ترمیم کا اصل مقصد تھا۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین