• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترم جناب رائو منظر حیات نے واٹس ایپ پر ایک نہایت تلخ تجربہ اور اس کا نہایت اعلیٰ حل بہ زبانی قریشی صاحب بیان کیا ہے۔ یہ تجربہ اکثر بعض والدین کو ہوتا ہے جو اپنی تمام پونجی بچوں کی تعلیم، شادی اور خوشی پر خرچ کردیتے ہیں اور پھر یہ بچے ’’اپنا مستقبل‘‘ تابناک بنانے کیلئے عموماً امریکہ یا کینیڈا چلے جاتے ہیں۔ دو تین سال میں چند دن کیلئے والدین سے ملنے آجاتے ہیں اور دل میں خفیہ آرزو ہوتی ہے کہ بوڑھے کب مریں کہ وہ جائداد بیچ کر رقم لے جائیں۔

اب آپ کی خدمت میں رائو منظر حیات صاحب اور ان کے دوست قریشی صاحب کا حقیقی واقعہ پیش کرتا ہوں۔ نصیحت حاصل کیجئے۔ رائو صاحب نے اس کو تنہائی کا جن کہا ہے۔

قریشی صاحب سے دوستی پرانی نہیں ہے صرف دو ڈھائی برس پہلے کا ذکر ہے۔ قریشی صاحب ستر برس کے لگ بھگ ہیں لیکن پچاس برس سے زیادہ نہیں لگتے ۔ ملاقات بھی عجیب طریقے سے ہوئی۔ مجھے اسکول کے زمانے سے اب تک تیرنے کا شوق ہے ۔ گرمیوں میں مقامی کلب اور سردیوں میں سول افسروں کے میس میں گرم پانی کے سوئمنگ پول میں شوق پورا کرتا ہوں۔ بذات خود تیراکی ایک بہت بڑا مضمون ہے۔ اس پر کسی اور وقت لکھوں گا۔ دو برس پہلے تیراکی سے فارغ ہوکر باہر کرسی پر بیٹھا تھا ساتھ ہی صحت مند بزرگ تشریف فرما تھے۔ انہیں کئی مہینوں سے دیکھ رہا تھا مگر کبھی بات نہیں ہوئی تھی۔ اس دن سلسلہ شروع ہوا ۔ مجھے قریشی کہتے ہیں۔ یوں ابتدائی تعارف ہوا۔ خیر تھوڑے سے عرصے میں دوستی ہوگئی۔ پچاس منٹ تیرنے کے بعد قریشی صاحب کافی کا ایک کپ پیتے تھے۔ یہ بات چیت کا بہترین وقت ہوتا تھا۔ تعجب ہوا جب انہوں نے اپنی اصلی عمر بتائی۔ تاریخ پیدائش ملک بننے سے پہلے کی تھی۔ بڑھاپے میں اتنی پھرتی، اتنی بھرپور صحت بہت عرصے بعد دیکھنے کو ملی تھی۔ ایک دن ہم دونوں سوئمنگ پول کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ کافی کا ایک کپ پینے کے بعد دوبارہ کافی منگوائی۔ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ انہوں نے کافی کے دو کپ منگوائے ہوں۔ چہرے پر سوال دیکھ کر کہنے لگے، آج میری ’’برتھ ڈے‘‘ ہے اور اسے صرف اپنے ساتھ منا رہا ہوں۔ دوسری کافی میرا برتھ ڈے گفٹ ہے۔ قریشی صاحب ترنگ میں تھے۔ ان سے وہ سوال کیا جو تقریباً ایک سال سے میرے دماغ میں تھا۔ آپ کی اچھی زندگی اور صحت کا کیا راز ہے۔ کہنے لگے، ڈاکٹر ! بڑی مشکل بات پوچھ لی ہے آپ نے۔ اب جواب غور سے سنو۔ پچاس برس کی عمر تک بہت اچھی زندگی گزاری۔ کاروبار کیا، پیسے کمائے، ہروقت ذہن میں یہی دھن سوار رہتی تھی کہ بچوں کو سیٹل کرنا ہے۔ خیر ان کو بھی کاروبار کروا کر دے دیا۔ وہ بھی دولت میں کھیلنے لگے۔ پھر بڑے بیٹے کے ذہن میں بھوت سوار ہوا کہ بہتر زندگی کیلئے کینیڈا منتقل ہونا ہے۔ کیونکہ اب تمام فیصلے خود کرتا تھا لہٰذا میں نے انکار نہیں کیا۔ بیٹا صرف ایک ہے۔ باقی بیٹیاں ہیں۔ خیر اسے کینیڈا منتقل ہونے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ پر اس دو سال میں مجھے یہ فکر لاحق ہوگئی کہ گھر تو خالی ہوجائے گا۔ بیٹیاں بیاہی جاچکی ہیں اب بیٹا بھی چلا جائے گا تو پھر کیا ہوگا۔ ہاں، ایک بات بتانا بھول گیا بیوی کا انتقال اس وقت ہوا جب بیٹا چھوٹاتھا۔

دوسری شادی نہیں کی۔ صرف اس لئے کہ مرد جب دوسری شادی کرتا ہے تو وہ اپنی اولاد کیلئے اجنبی سا تیسرا انسان بن جاتا ہے۔ خیر سوچنے سے کیا ہوتا ہے بیٹا بڑے آرام سے کینیڈا منتقل ہوگیا۔ گھر میں اکیلا رہ گیا۔ اس وقت عمر تقریباً ساٹھ برس ہوچکی تھی۔ گھر، اس قدر خالی ہوچکا تھا کہ ہول آتا تھا۔ روز فیکٹری جانا بھی عجیب سا لگتا تھا۔ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بستر سے خود ہی زبردستی نکالتا تھا۔ پھر لائونج میں گھنٹوں بیٹھا اخبار پڑھتا رہتا تھا۔ پرانے دوستوں سے کبھی کبھی ملاقات ہوتی تو اکثر کہتے کہ چلو کسی عورت کو سہارا دینے کیلئے شادی کرلو کم از کم کوئی بات کرنے والا تو موجود ہوگا۔ مگر مجھے یہ تجویز پسند نہیں آتی تھی۔اسی طرح پورا ایک سال گزر گیا۔ ایک دن ٹی وی پر جانوروں کا چینل Animal Planet دیکھ رہا تھا۔ دیکھا کہ ہاتھیوں کا ایک جھنڈ شدید خشک سالی میں بھی اکٹھا رہتا ہے کوئی بھی دوسرے جانور کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔ دماغ میں پتہ نہیں کیا خیال آیا۔ تحقیق کرنے لگا کہ جنگلی جانوروں کی اکثریت کیسے رہتی ہے۔ جواب بے حد آسان تھا۔ اکثر جانور، گروہ کی صورت میں رہتے ہیں۔ ضمنی سوال اُٹھا کہ اگر اکیلے رہ جائیں توکیا ہوتا ہے۔ تجزیے کا نتیجہ خوفناک تھا۔ اکیلا جانور بہت تھوڑے سے عرصے کے بعد کسی نہ کسی وجہ سے مر جاتا ہے۔ جب اس معاملے کو انسانوں میں دیکھا تو نتائج حیران کن حد تک یکساں تھے۔ پختہ عمر کے اکثر لوگ تنہائی کے بوجھ کو برداشت نہیں کرسکتے۔زندگی کے تجربات کو یکسانیت کا بھالا بنا کر روح میں اُتارلیتے ہیں۔ تلخیوں کو کرید کرید کر زندہ رکھتے ہیں۔ سوچ کو اس قدر منفی کرلیتے ہیں کہ اولاد، رشتہ دار اور دوست ملنے سے بھی کتراتے ہیں۔ اپنی کامیابیوں کو بھول کر، صرف اور صرف زندگی کے حوادث کو اوڑنا بچھونا بنا دیتے ہیں۔ چند سال میں ہی کسی مہلک بیماری کو تمغے کی طرح سینے پر سجائے، قبر میں اُتر جاتے ہیں۔ ایک چیز جو جانور ہر وقت یاد رکھتے ہیں کہ جنگل میں گروہ کی صورت میں رہنا ہے۔ ہرگز ہرگز تنہا نہیں رہنا۔ یہ دانا اور بزرگ لوگ یکسر اس اہم نکتے کو بھول جاتے ہیں۔ قریشی نے کافی کی چسکی لگاتے ہوئے کہا، یہی نکتہ گرہ سے باندھ لیا۔ اپنے آپ کو لوگوں سے جوڑنے کا نایاب فن سیکھ لیا۔میرا سوال تھا، مگر کیسے؟ قریشی صاحب نے ہنسنا شروع کردیا ۔ کہنے لگے، دن میں ساری نمازیں دفتر یا اپنے کمرے میں بیٹھ کر پڑھتا تھا وجہ یہ کہ گھٹنوں کے بل بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ سب سے پہلے گاڑی کی ڈگی میں ایک فولڈنگ چیئر رکھوائی۔ فجر کی نماز نزدیک مسجد میں پڑھنے چلا گیا، کرسی نکال کر کونے میں رکھی اور جب جماعت ہوئی تو صف کے آخر میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے لگا۔ دن میں جتنی بھی نمازیں ہوتیں، نزدیک ترین مسجد میں پڑھنا شروع کردیں۔ پہلی مثبت بات یہ ہوئی کہ اپنے علاقے کے لوگوں سے شناسا ہوگیا۔

میں جس ہائوسنگ کالونی میں رہتا ہوں وہاں محلے کا کوئی وجود نہیں تھا مگر میں نے نزدیک ترین لوگوں سے ملنا شروع کردیا۔ معلوم ہوا کہ یہاں تو ہر ایک اکیلا ہے۔اپنی ان سوچوں کو لوگوں سے ’’شیئر‘‘ کرنا شروع کردیا۔ صبح کا وقت بے حد خوشگوار گزرنے لگا، پھر ہفتے میں تین دن گھر کے نزدیک پارک میں جانا شروع کردیا۔ پہلی بار پتہ چلا کہ اس پارک میں ایک ’’یوگا گروپ‘‘ بنا ہوا ہے، ستر کے قریب مرد، بچے، بوڑھے، خواتین، ایک گروپ کی صورت میں ورزش کرتے ہیں۔ ان کیلئے یوگا کا ایک ماہر، مفت ورزش کراتا ہے۔ میں بھی گروہ میں شامل ہوگیا۔ ایک ماہ تک میں تقریباً ساٹھ ستر دوست بنا چکا تھا۔

فیکٹری سے چھٹی کرنا چھوڑ دی ساتھ ساتھ دفتر میں بیٹھنا تقریباً ختم ہوگیا۔ دن میں تین دفعہ پوری فیکٹری کا چکر لگاتا تھا، ہر ورکر کے پاس جاکر کام دیکھتا تھا، معیار جانچتا تھا، سب سے بڑی بات اپنے مزدور کی ہمت بڑھاتا تھا۔ ان کی مشکلات کو اپنی مشکل بنانا شروع کردیا۔ یہ حالت ہوگئی کہ اسٹاف اور عملے نے کئی بار اتوار کو بھی چھٹی کرنے سے انکار کردیا۔ فیکٹری اس درجہ بہتر ہوگئی کہ آرڈر آنے تقریباً دگنے ہوگئے۔ منافع کو دو حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ پہلے کی طرح اپنے لئے اور دوسرا حصہ اپنے ورکروں کی بھلائی کے لئے، ان کی اولاد کی بہتر تعلیم کے لئے، ان کی بیماریوں کے علاج کے لئے۔ صرف دو سال میں ، میں نے دوسری فیکٹری لگا لی۔ صرف اس لئے کہ میرے ورکر اب مجھے اپنا سمجھنے لگے تھے۔ بالواسطہ طور پر منافع میں بھی شرکت دار تھے۔ سیٹھ اور مزدور کا تعلق کب کا ختم ہوگیا۔

بیٹا، کینیڈا سے سالانہ چھٹیوں پر وطن آیا تو میری روٹین دیکھ کر حیران ہوگیا۔ فیکٹری گیا تو ششدر رہ گیا۔ جس طرح میرا عملہ کام کرتا تھا۔

اس لگن سے تو یورپ میں بھی کام نہیں ہوتا تھا۔ وہ میرے پاس آیا، بیٹھے بیٹھے کہنے لگا کہ بابا، آپ نے تو کمال کردیا ہے۔

آپ کو تو تنہائی ’’راس‘‘ آگئی ہے۔ میرا جواب تھا کہ تنہائی نہیں، مجھے دوستی اور شناسائی راس آچکی ہے۔ خیر ایک اور نکتہ ، پانی سے ہمیشہ ڈر لگتا تھا خواب میں بھی پانی نظر آتا تھا تو خوف سے اُٹھ بیٹھتا تھا۔ اپنے دیرینہ خوف کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ پینسٹھ برس کی عمر میں ایک انسٹرکٹر سے تیرنا سیکھنے لگا، پہلے لوگ مجھ پر ہنستے تھے کہ یہ بابا اس عمر میں کیا کررہا ہے۔ مگر صرف دو مہینے میں تیراک بن گیا۔ اب میں ہفتہ میں تین چار دن، بھرپور سوئمنگ کرتا ہوں۔ پانی میرے لئے مذاق بن گیا ہے۔ میں نے اپنے بچپن کے خوف پر بھی قابو پالیا ہے۔

قریشی صاحب نے بڑے آرام سے اپنی زندگی کے اَن دیکھے گوشے بیان کئے۔ پچھترسال کے عمررسیدہ کے چہرے پر، بچوں جیسا سکون اور مسکراہٹ تھی۔ اُٹھتے ہوئے کہنے لگے، ڈاکٹر! ہم لوگ اتنے کندذہن ہیں کہ جانوروں تک سے سبق نہیں سیکھتے۔ میں نے دوبارہ زندہ رہنا ان ہی جانوروں سے سیکھا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین