• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں پر میں نے 2017-18ء میں 7 کالم تحریر کئے جس میں پاکستان کے ناقابل برداشت قرضے، مختلف ادوار میں بیرونی قرضوں کا موازنہ، پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے، آئی ایم ایف سے قرض ناگزیر اور قرضوں پر قرضے جیسے کالم شامل تھے۔ رواں مالی سال 5ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں، 18ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ، 35ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کے پیش نظر معیشت دانوں کا خیال ہے کہ ہمیں 31ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے اور نئی حکومت کو سخت شرائط پر 12 ارب ڈالر کے نئے قرضے کیلئے جلد ہی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا لیکن امریکہ نے کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی پاکستان کو قرضے دینے کی مخالفت کرے گا۔ گزشتہ حکومت کو یہ امید تھی کہ غیر ملکی اثاثوں کی ایمنسٹی اسکیم کے تحت 2 سے 3 ارب ڈالر غیر ملکی اثاثے ملک میں واپس لائے جائیں گے لیکن ملک میں انتخابات اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حکومت کو مطلوبہ نتائج نہیں ملے۔ سابق عبوری وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے متعدد بار کہا تھا کہ عبوری حکومت آئی ایم ایف سے نئے قرضے کیلئے تیاریاں مکمل کرکے نئی حکومت کو دیکر جائیگی کیونکہ آئی ایم ایف عبوری حکومت سے مذاکرات کیلئے تیار نہیں۔

اِن حالات میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے بجائے اپنے دوست ممالک چین اور سعودی عرب سے 6 سے 8 ارب ڈالر کی کیش گرانٹ کی درخواست کی ہے جس پر ان دونوں ممالک کی طرف سے حوصلہ افزا اعلانات سامنے آئے ہیں کہ وہ پاکستان کی مالی مدد کریں گے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر جبکہ چین نے بھی 2 ارب ڈالر کی مالی امداد کا اعلان کیا جس میں ایک ارب ڈالر گزشتہ ہفتے دیئے جاچکے ہیں جسکے باعث پاکستانی روپیہ 4.3 فیصد مستحکم ہوا تھا۔ اسکے علاوہ دہشت گردفنانسنگ اور منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے ایشین ڈیولپمنٹ بینک (ADB) نے پاکستان کو مالی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ نئے وزیر خزانہ اسد عمر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ غیر ملکی پاکستانیوں کیلئے ڈالر بانڈ کے اجراء کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ حکومتوں نے بھی قرضوں کے علاوہ گلوبل کیپیٹل مارکیٹ میں 2 بلین ڈالر کے یورو بانڈ اور 2.5 بلین ڈالر کے سکوک بانڈز بھی جاری کئے ہیں جن کی ادائیگیاں 2019ء، 2025ء ، 2027ء اور 2036ء میں ہیں۔

پاکستان اور چین کے مابین 12.5ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے۔ ڈالر پر دبائو کم کرنے کیلئے پاکستان نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان سے چین کی امپورٹ کی 50فیصد ادائیگی پاکستانی روپے میں قبول کرے۔ اسکے علاوہ سی پیک کے منصوبوں کیلئے کی جانے والی اضافی امپورٹ کے دبائو کو کم کرنے کیلئے چین کو4 سے 5ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کو سافٹ ڈپازٹ دینے کی تجویز ہے تاکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی کے بغیر چین سے امپورٹس کی ادائیگیاں کی جاسکیں۔ 30 جون 2018ء کو پاکستان کے بیرونی قرضے اور مالی ذمہ داریاں 14 فیصد اضافے سے 95 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور اس طرح ہمارے مجموعی قرضے 29.86 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں جو ہماری جی ڈی پی کا 86.8 فیصد ہے جبکہ قرضوں کی حد کے قانون(Fiscal Responsibility Debt Limitation Act 2005) کے تحت حکومت جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن ہمارے قرضے اس حد سے تجاوز کرگئے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

مختلف ادوارِ حکومت میں لئے گئے بیرونی قرضوں کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے پہلا غیر ملکی قرضہ 1950ء میں 145ملین ڈالرز کا پہلے پانچ سالہ منصوبے کیلئے لیا تھا جسکے بعد آئندہ پانچ سالہ منصوبوں کیلئے ہم ہر بار 57ملین ڈالر سالانہ کے غیرملکی قرضے حاصل کرتے رہے۔ 1960ء میں یہ قرضے بڑھکر 585 ملین ڈالرز ہوگئے اور 1970ء تک قرضوں میں اضافے کا رجحان اسی طرح جاری رہا، اس طرح ہمارے بیرونی قرضے دگنے سے زیادہ ہوتے گئے۔ دسمبر1971ء میں غیرملکی قرضے3ارب ڈالرز تھے جو جون 1977ء تک 6.3 بلین ڈالرز ہوگئے جس کے بعد پاکستان نے سالانہ ایک ارب ڈالرز قرضے لئے۔ 1979ء میں بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد حکومت نے 1984ء تک اوسطاً 1.6 ارب ڈالرسالانہ بیرونی قرضے حاصل کئے۔ جون 1998ء تک پاکستان نے مجموعی 40 بلین ڈالرز کے غیرملکی قرضے اور 10.2بلین ڈالرز کی امداد حاصل کی۔ انسٹیٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز (IPPR) کی رپورٹ کے مطابق 2016-17ء قرضوں کا ریکارڈ سال تھا جس میں مسلم لیگ (ن) حکومت نے 7.9 ارب ڈالرز اضافی قرضے لئے اور 30جون 2018ء تک ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم 95.097ارب ڈالرز تک پہنچ گیا۔ ان بیرونی قرضوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1951ء سے 1955ء تک پاکستان کے بیرونی قرضے صرف 121 ملین ڈالر تھے تاہم 1969ء میں یہ قرضے بڑھ کر 2.7ارب ڈالر اور 1971ء میں 3 ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ 1977ء میں پاکستان پر واجب الادا قرضے بڑھ کر دگنا یعنی 6.3 ارب ڈالر ہوگئے جس کے بعد بیرونی قرضے لینے کی روایت بن گئی اور 1990ء میں یہ قرضے بڑھ کر 21.9 ارب ڈالر جبکہ 2000ء میں 35.6 ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ موجودہ دور حکومت میں پاکستان کے بیرونی قرضے 2016ء میں 72.98 ارب ڈالر اور اب 30جون 2018ء کو یہ قرضے ریکارڈ 95.097 ارب ڈالر کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔

گزشتہ سال ایف بی آر کے 3500ارب روپے کے ریونیو میں سے 1482ارب روپے (42.36فیصد) قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے گئے۔ دوسرے نمبر پر 775.86 ارب روپے دفاعی اخراجات اور تیسرے نمبر پر ترقیاتی منصوبوں کیلئے 661.29 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ تجزیئے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حکومت نے مقامی قرضوں پر 1,112 ارب روپے اور بیرونی قرضوں پر 1,118.4ارب روپے سود ادا کئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ہمارا زیادہ تر ریونیو اور وسائل قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کیلئے ہمارے پاس فنڈز دستیاب نہیں۔ معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہماری حکومتیں Debt Managment میں ناکام رہی ہیں۔ نواز شریف حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مجموعی 480 ارب روپے کے گردشی قرضے ادا کئے تھے لیکن انہی کی حکومت نے آج 1.14 کھرب روپے کے گردشی قرضے نئی حکومت کو تحفے میں دیئے ہیں جس میں 566 ارب روپے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ذمہ اور 817 ارب روپے کے واجبات حکومتی و نجی شعبے کے صارفین کے ذمہ ہیں۔ جانے والی حکومت نے تجویز دی ہے کہ گردشی قرضے صارفین کے بجلی کے بلوں میں سرچارج لگاکر وصول کئے جائیں جس سے ملک میں بجلی مہنگی ہوگی اور صنعتیں اور ایکسپورٹس مزید غیر مقابلاتی ہوجائیں گی۔ نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں پی آئی اے، اسٹیل ملز اور واپڈا کی نجکاری نہ کرنے کی وجہ سے حکومت نے ان اداروں کو چلانے کیلئے 980 ارب روپے قومی خزانے سے ادا کئے۔ ان اداروں کے مالی نقصانات بڑھنے کی وجہ سے 2017ء میں انہیں 823 ارب روپے اور 2018ء میں 980 ارب روپے حکومتی قرضے دیئے گئے جس میں سب سے زیادہ قرضے پی آئی اے 122.4 ارب روپے، دوسرے نمبر پر واپڈا 81.4 ارب روپے، تیسرے نمبر پر پاکستان اسٹیل ملز 43.2 ارب روپے ہیں۔ ان اخراجات کی وجہ سے 2018ء میں بجٹ کا مالی خسارہ بڑھکر 2.1کھرب روپے یعنی جی ڈی پی کا 6.1 فیصد رہا جبکہ اس کا ہدف 4.1فیصد تھا۔

ملکی قرضوں کے باعث 2011ء میں ہر پاکستانی 46,000 روپے، 2013ء میں 61,000 روپے اور آج 1,44,256 روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ ان قرضوں کیلئے ہم اپنے موٹر ویز، ایئرپورٹس اور دیگر قومی اثاثے قرضہ دینے والے اداروں کے پاس گروی رکھوا چکے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک نے بڑھتی ہوئی درآمدات کی حوصلہ شکنی کیلئے جو اقدامات کئے ہیں، ان کے بہتر نتائج نکلے ہیں اور امپورٹس میں اضافے کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان اقدامات اور دوست ممالک کی مالی امداد سے ہم نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھ سکیں گے بلکہ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے ہمیں تقریباً ایک سال کا ریلیف مل جائیگا جس سے ہم ملکی ایکسپورٹس، ترسیلات زر، بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے اور لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لاکر اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھ سکیں گے۔

تازہ ترین