• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عارف علوی کے صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ملک میں جمہوری طرز پر انتقال اقتدار کا عمل کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے ، صدر، وزیر اعظم ، اسپیکر ،ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں سمیت مرکز ، پنجاب اور سندھ میں پاکستان تحریک انصاف جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کے حصول کے بعد راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے مکمل تعاون کے بعد اس چین میں اگر خلل پیدا ہوگا تو وہ اپوزیشن کے ہاتھوں نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے کیونکہ پہلے تین ہفتوں میں بد انتظامی اور نا تجربہ کاری کے جوثبوت پیش کئے گئے ہیں ان سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے چونکہ میڈیا سے تین ماہ کی مہلت طلب کی ہے جو کہ ایک جائزبات ہے اسلئے حکومتی کارکردگی پر اس مدت کے پورا ہونے پر ہی سوالات اٹھائیں گے۔ فی الوقت اس ایوان صدر کی بات کرتے ہیں جہاں آصف علی زرداری کے بعد دوسرے جمہوری صدر ممنون حسین پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرتے ہوئے باعزت طریقے سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ ایوان صدر کے نئے مکین ڈاکٹر عارف علوی اگرچہ فرما چکے ہیں کہ بطور صدروہ نہ تو آصف زرداری ثابت ہوں گے اور نہ ہی ممنون حسین۔ یقیناً ان کا اشارہ صدر کے کردار کے حوالے سے تھا کیونکہ بطور صدر آصف علی زرداری ایک طاقتور اور فعال صدر مملکت تھے لیکن جناب ممنون حسین درویش صفت اور خاموش طبع صدر مملکت رہے ہیں۔ موجودہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آصف علی زرداری صرف اس لئے انتہائی متحرک اور با اثر صدرمملکت تھے کیونکہ وہ حکومتی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے شریک چیئرمین تھے۔ پارٹی کے وزیر اعظم ،وفاقی کابینہ کے ارکان کی نامزدگی سے لیکر سیاسی جوڑ توڑ سمیت سب ان کے ہاتھ میں تھا اسلئے تب طاقت کا مرکز ایوان صدر تھا۔ اس دور میں ایوان صدر سیاسی سرگرمیوں کا محور تھا جہاں ہر روز کے ظہرانوں اور عشائیوں پر سجائی جانے والی سیاسی بساط کے باعث ایک موقع پر لاہور ہائی کورٹ نے آصف زرداری کو پارٹی عہدہ چھوڑنے اور ایوان صدر کو سیاست کا گڑھ نہ بنانے کی ہدایات بھی دی تھیں،اس کے برعکس گزشتہ روز آئینی مدت پوری کرکے سبکدوش ہونے والے ممنون حسین کے پانچ سالہ دور میں ایوان صدر غیر اہم اور صدر مملکت کا عہدہ بظاہر نمائشی رہا۔ اپنے پیش رو کی طرح ممنون حسین کے بہت زیادہ متحرک نہ ہونے کے باعث ان کے بارے میں طرح طرح کے لطیفے گردش کرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ممنون حسین اس عہدے پر اس وقت کے پارٹی صدر نواز شریف کی خصوصی شفقت کے باعث پہنچے تھے اور یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس یا کسی دیگر میٹنگ میں وہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے ہمراہ نظر آئے تو ہمیشہ ان سے دو قدم پیچھے چلنے کی کوشش کرتے رہے۔ بطور صدر مملکت پارٹی کی طرف سے انہیں اہمیت دینے کا یہ عالم تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے موجودہ آرمی چیف کی تقرری کے وقت جب وہ فائل لے کر خود ایوان صدر گئے تو تقررنامے سے متعلق سطروں پر کاغذ رکھ کر صدر مملکت سے دستخط کرائے گئے تاکہ وفاقی حکومت کی طرف سے اس اہم تقرری کا باضابطہ اعلان کرنے تک اسے خفیہ رکھا جا سکے۔ یہ تو مسلم لیگ ن اور صدر مملکت کے درمیان معاملہ تھا جہاں طاقت کا مرکز بلا شبہ مسلم لیگ ن کی قیادت تھی تاہم بطور صدر مملکت ممنون حسین کے قومی منظرنامے میں کوئی اہم کردار ادا نہ کرنے پر طنز کرنے اور نئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنیوالے شاید آئین پاکستان سے ناواقف تھے اور ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ موجودہ آئین پاکستان میں صدر مملکت کا عہدہ اگرچہ سب سے بڑا ہے لیکن اسکے اختیارات نہایت محدود ہیں۔ سابق وزیر اعطم نواز شریف کے دوسرے وزارت عظمی کے دور 1997 ءمیں انہوں نے دو تہائی اکثریت کی مدد سے صدر کے سب سے اہم اختیار یعنی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے آرٹیکل 58 ٹو بی کو آئین سے نکال دیا تھا لیکن پرویز مشرف کی آمریت میں نہ صرف اسے دوبارہ آئین کا حصہ بنا دیا گیا بلکہ آئین میں وسیع پیمانے پرترامیم کے ذریعے انہوں نے تمام اختیارات صدر کی ذات میں مرتکز کر دئیے۔ سابق صدر آصف زرداری کی ہدایت پر آئینی اصلاحات کمیٹی کی متفقہ سفارشات پر 18 اپریل 2010 ءمیں پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کی گئی متفقہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے آمروں کی طرف سے آئین میں شامل کی گئی تمام غیر آئینی ترامیم کو نکال دیا گیا۔ یوں ایک بار پھر نہ صرف صدرمملکت کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار ختم کر کے اسے وزیر اعظم کی ایڈوائس سے مشروط کر دیا گیا بلکہ مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی سمیت دیگر اہم اختیارات بھی واپس وزیر اعظم کے حوالے کردئیے گئے اگرچہ صدر بدستورمسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ موجودہ آئین پاکستان میں صدر مملکت کے اہم اختیارات کا جائزہ لیا جائے تو وہ وزیر اعظم اور کابینہ کے مشورے پر عمل کا پابند ہے،وزیر اعظم، وفاقی کابینہ کے ارکان، چیف جسٹس پاکستان، آڈیٹر جنرل اور وفاقی محتسب جیسے عہدوں کا حلف لے سکتا ہے،صدر مملکت کو کسی عدالت، ٹریبونل یا دیگر ہئیت مجاز کی دی گئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصے کیلئے روکنے ،اس میں تخفیف کرنے یا اسے معطل اور تبدیل کرنیکا اختیارحاصل ہے۔آئین کی رو سے صدر مملکت ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں حکومت کو امور سلطنت چلانے کیلئے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پارلیمنٹ سے منظور کوئی بل اس وقت تک ایکٹ نہیں بن سکتا جب تک صدر مملکت اس کی توثیق نہ کریں۔ مالیاتی بل کا اطلاق بھی صدر کی توثیق کے بعد ممکن ہے، صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے ، نوے دن کے اندرعام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے،صدر مملکت چیف جسٹس ، آڈیٹر جنرل مسلح افواج کے سربراہان سمیت اہم عہدوں پر تعیناتی بھی صرف وزیر اعظم کی ایڈوائس پر کر سکتا ہے،آئین کے تحت وزیر اعظم صدر کو عالمی اور خارجہ پالیسی کے تمام معاملات اور ان تمام قانونی تجاویز پر جو وفاقی حکومت پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ارداہ رکھتی ہے ،آگاہ کرنے کا پابند ہے ( عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے)۔

صدر مملکت سینیٹ یا قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی صورت میں آرڈیننس وضع اور نافذ کر سکتا ہے، صدر کسی صوبے کے گورنر کو اپنے نمائندے کے طور پر بعض امور سر انجام دینے کا حکم دے سکتا ہے، صوبوں سے متعلق محصولات کیلئے کوئی بھی بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل صدر مملکت کی منظوری ضروری ہے،آڈیٹر جنرل وفاق سے متعلق سالانہ آڈٹ رپورٹیں صدر مملکت کو پیش کرنے کے پابند ہیںجنہیں وہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہیں،صدر جنگ یا داخلی خلفشار کی بنیاد پر کسی صوبے میں ہنگامی حالت کے نفاذ اور اس دوران بنیادی حقوق کو معطل کرنے کا اعلان کر سکتا ہے تاہم اس کیلئے صوبائی اسمبلی کی قرارداد ضروری ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے بھی صدر مملکت کے تحت ہیں، اسی طرح وفاقی کے زیر انتظام تمام یونیورسٹیاں بھی صدر مملکت کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ موجودہ اختیارات کے مطابق وہی قصر صدارت جو آمریت کے دور میں طاقت کا مرکز ہوا کرتا تھا اب محض نمائشی حیثیت اختیارکر چکا ہے۔ سبکدوش ہونروالے صدر مملکت ممنون حسین نے آئین کی پاسداری کو مقدم رکھا اور اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کرتے ہوئے بعض اہم اقدامات کئے، جن میں ارکان پارلیمنٹ کی حاضری کو عام کرنا، ایوان صدر میں اردو زبان کا نفاذ، ہرملکی و غیر ملکی فورم پر اردو زبان میں خطاب، وسطی ایشائی ریاستوں سے روابط کو فروغ ، نائیجیریا اور آذر بائیجان کے ساتھ دفاعی آلات کی فراہمی، تیل گیس کے شعبوں میں تعاون کے معاہدے، آذر بائیجان میں نیشنل بینک کی برانچ کھولنا، زیر انتظام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرری کیلئے خود انٹرویو لینا،وفاقی اردو یونیورسٹی میں اربوں روپے کی بد عنوانی کے مرتکب افراد کا احتساب یقینی بنانا، بابائے اردو مولوی عبد الحق کی ہزاروں نایاب کتابوں اور قلمی نسخوں کو اردو باغ کے قیام سے محفوظ بنانا،صوابدیدی فنڈزغریب مستحق بچوں اور انڈس اسپتال جیسے فلاحی ادارے کو دینا اور سب سے اہم رائل کالج آف فزیشنز کے پاکستانی ڈاکٹروں کے امتحانات کو پاکستان میں لینے کو ممکن بنانا قابل ذکر ہیں۔ ادب اور صحافت سے تعلق رکھنے والے سابق صدر ممنون حسین کے کنسلٹنٹ فاروق عادل کی یہ بات بہت بھلی کہ جو صدر مملکت آئین کے مطابق فرائض منصبی ادا کرے گا ناقدین اسے نمائشی صدر ہی کہیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین