• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیسے اچھا لگا کہ امریکی وزیرخارجہ کی آمد پر ریڈ کارپٹ نہ میں صدقے میں واری اور نہ اتنی سردمہری کہ وزیراعظم بھی نہ ملیں اور جیسے اچھا لگا کہ امریکی وفد کے سامنے وزیراعظم کی سربراہی میں سول ،ملٹری قیادت ایک ساتھ، ویسے یہ بھی اچھا لگا کہ 6ستمبر، تقریب جی ایچ کیو میں ،مہمان خصوصی وزیراعظم اور سامنے بیٹھے شہباز شریف ،بلاول بھٹو ،اچھا لگا کہ آرمی چیف نے کہا ’’ ملکی بقا جمہوری تسلسل میں ، آئین وقانون کی بالادستی اوراداروں کی مضبوطی کا مطلب جمہوریت ، ہمیں اب غربت ،بھوک ،جہالت کے خلاف بھی جنگ لڑنا ہوگی ‘‘ اچھا یہ بھی لگا کہ وزیراعظم سے سنا’’ کوئی سول ،ملٹری کشمکش نہیں ،ہمارا مقصد مشترکہ ،سب کا جینا مرنا پاکستان کیلئے‘‘ ، بلاشبہ یہ آغاز اچھا ،بے شک تاریخ ساز 6ستمبر اک نئی تاریخ رقم کر گئی ‘‘۔

ہم ’’یومِ دفاع ،اس بار یومِ شہدا بھی ‘‘کی تقریب میں ساڑھے 6بجے شام کرسیوں پر بیٹھے اور اُٹھے10بجے ، ساڑھے3گھنٹے کیسے گزرے ،پتا ہی نہ چلا ،میرے دائیں جانب مظہر برلاس ،بائیں جانب حامد میر ،سردار خان نیازی اور مجیب الرحمان شامی،شامی صاحب کو پہلی مرتبہ ’’شامی شامی ‘‘یعنی سرِشام دیکھا ، ان کیلئے جی ایچ کیو نیا ، نہ وہ جی ایچ کیوکیلئے نئے ، تقریب شروع ہونے سے پہلے وہ مغرب کی نماز باجماعت ادا کرنے اور ایک چھوٹے سے شیلولے (قیلولے کا چھوٹا بھائی مطلب شام کے وقت Napمارنا)سے فارغ ہو کر پھر آخری لمحوں تک تازہ دم رہے ،ماشا اللہ شامی صاحب کا ایک کمال یہ بھی کہ کیا سوچ ،محسوس کررہے ،اندر کا موسم کیسا ،چہرے سے ہوا تک نہ لگنے دیں ،عمران خان کی تقریر کے دوران دو چار بار کن اکھیوں سے انہیں دیکھا مگر سینے سے ذرا نیچے اور پیٹ سے تھوڑا اوپر ہاتھ باندھے بیٹھے شامی صاحب کا چہرہ ہر تاثر سے عاری ،وہ کہانیوں ،افسانوں والا سپاٹ چہرہ ،ہاں البتہ وزیراعظم کی تقریر کے آخر پر انہوں نے یہ کہا ’’کمال ہوگیا ‘‘ابھی تک سوچ رہا ،یہ کمال کس senseمیں ہوا اور کمال کے آگے ،پیچھے کیا۔

میرے دائیں جانب تھے حامد میر ،پہلے بھی کئی بار6ستمبرکی تقریب میں آچکے ،انہیں اس شام سب سے زیادہ گرمی لگی اور شروع سے آخر تک سب ان کی جملہ بازی کی زد میں رہے ، میر صاحب کا چہرہ پہلی بار با رونق تب ہوا جب عمران خان کی آمد ہوئی، بولے ’’ویکھ لینا ، عمران خان نے اج میلہ لٹ لینا اے‘‘ دوسری بار انہیں تب پرجوش دیکھا جب آرمی چیف نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ’’میں مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کو سلام پیش کرتا ہوں ،جو بہادری اور قربانی کی لازوال تاریخ رقم کر رہے ہیں ‘‘ اس پریہ اتنی دیر تالیاں بجاتے رہے کہ مجھے کہنا پڑا ’’سربس کردیں، اب آپ اکیلے ہی یہ کام کررہے ‘‘اندر باہر سے کشمیری حامد میر تو ایک لمبی چوڑی تحقیق کے بعد ثبوتوں کے ساتھ اس نتیجے پر بھی پہنچ چکے کہ لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی نہیں بلکہ ہنڈوارہ مقبوضہ کشمیر کے علامہ غلام حسن کاظمی ،جو 1910میں ہفت روزہ’’پاکستان ‘‘ کے مالک وپبلشر ،بات آگے بڑھانے سے پہلے یہاں میجر جنرل آصف غفور ،ان کی ٹیم، فنکاروں،اداکاروں سمیت سینکڑوں گمنام ہنر مندوں کیلئے دعائیں اور شکریہ ،بلاشبہ آپ سب کی بدولت یہ شام یادگار ٹھہری ۔

اب ذکر وزیراعظم کی تقریر کا ، پہلی بار 6ستمبر کی تقریب میں شہدا کے لواحقین اورغازیوں کے سامنے کھڑے عمران خان کا یہ کہناکہ ’’پہلے میں اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتا تھا ‘‘، اب یہ علیحدہ بحث کہ انہیں اس موقع پر لکھی تقریر کرنا چاہئے یا یہ دو چار جملے نہ بوتے تو اچھا ہوتا،لیکن پوچھنا یہ کہ جو وزیراعظم نے کہا ،کیا غلط ہے ، یہ کہنا کہ پہلے میرا خیال یہ تھا مطلب اب نہیں اور پھرجیسے یہ سچ کہ 76ہزار شہادتوں ،کھربوں کے نقصان کے بعد اب یہ ہماری بقا کی جنگ ، ویسے ہی یہ بھی سچ کہ امریکہ سے آئی ایک ٹیلی فون کال پر جب ہم امریکہ کے ساتھ جا کھڑے ہوئے ،تب اکثریت کا خیال یہی تھا کہ یہ پرائی لڑائی اور دوسرا وزیراعظم کا یہ کہنا کہ ’’ میں نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان کسی اور ملک کی جنگ میں پڑے‘‘یقین جانیئے میں تو آج بھی سوچوں کہ کاش ہم افغان وارسے بچ جاتے ،نائن الیون کے بعد غیر جانبدار رہتے اور پھر وہ عمران خان جو کبھی کہا کرتے ’’ میں وزیراعظم بنتے ہی خود کو امریکی جنگ سے علیحدہ کر لوں گا ‘‘، جنہوں نے کہا ’’ میں وزیراعظم ہوتا تو امریکی ڈرون مار گراتا ‘‘جو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر بولے’’ امریکہ وہ بے حس جسے ہمار ا احساس ہی نہیں ‘‘،جنہوں نے ٹرمپ دھمکیوں کے بعد وزیراعظم عباسی کو یوں مخاطب کیا ’’ کہاں چھپے بیٹھے ہو ،امریکی دھمکیوں کا جواب کیوں نہیں دیتے‘‘ اوروہ عمران خان جو امریکی جارجیت پر کہا کرتے ’’ ہمیں نیٹو سپلائی بندکر دینی چاہئے ‘‘ ،وہی عمران خان شہدا کے لواحقین اور غازیوں کو بتار ہے تھے کہ پہلے میں اس جنگ کو اپنی نہیں سمجھتا تھا مطلب یہ میرا کل تھا ،بہرحال اب عمران خان وزیراعظم ،وہ بہت کچھ کرنے ،بدلنے کی پوزیشن میں ، اور نہیں تو کم ازکم ان سے پاک امریکہ تعلقات میں عزت ، برابری کی توقع تو سب کو ، پچھلوں نے تو وہ لٹیا ڈبوئی کہ خدا کی پناہ ۔

یہ بھی اچھا ہے کہ اقتدار میں آکر عمران خان کو زمینی حقائق کا ادراک ہو رہا،ورنہ اپوزیشن میں توجو جی چاہے کہہ دو ،واہ واہ ہی ہو ،تالیاں ہی بجیں ۔

پھر وزیراعظم کا اگلا جملہ کہ ’’ آئندہ ہم کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے ‘‘ جہاں یہ قابلِ تعریف عزم ، جہاں عمران خان نے یہاں بھی اپنے ماضی کے مؤقف کو دہرایا ، وہاں جی ایچ کیو میں کھڑے ہو کر وزیراعظم پاکستان نے امریکہ کویہ پیغام بھی دیا کہ اب ’’نومور‘‘، یہ ایک جملہ اُ س امریکہ کیلئے تھا جو تمام تر قربانیوں کے باوجود ہمیں جھوٹا، دھوکے باز سمجھے، جو 70کروڑ کولیشن فنڈ روک لے ،جو ہمیں گرے لسٹ میں شامل کرواچکا ،جو آئی ایم ایف کو کہے’’ پاکستان کو قرضہ نہ دیں ‘‘ جو پاکستان مخالف واشنگٹن کے کنگ زال،خلیل زاد زلمے کو ہمارے سروں پر بٹھا دے ،جو نیو کلیئر ٹیکنالوجی سے خوشحالی وترقی کا ہر معاہدہ بھارت سے کرے ، جو افغانستان میں نیٹو سمیت اپنی 3ہزار بلین ڈالر ناکامی کا ذمہ دار ہمیں گردانے اور اڑی ،پٹھانکوٹ کا مجرم تو ہمیں ٹھہرائے مگر کلبھوشن پر ایک بات نہ کرے ،ان لمحوں میں جب خطے میں ایک عرصے بعد چین ،روس،ترکی ،ایران اور پاکستان قریب آرہے ،جب ایران معاملے پر آدھا یورپ امریکہ مخالف اورجب ٹرمپ کا امریکہ اور نریندر مودی کا بھارت ’’غیر مستحکم ‘‘ پاکستان کے مشن پر ساتھ ساتھ، ان لمحوں میں وزیراعظم پاکستان کا یہ پیغام بہت اہم ،البتہ یہ ضرور کہ ہم دودھ کے جلے جوچھاچھ بھی اب پھونک پھونک کر پی رہے ، ہم یہ دعا ضرور کر رہے کہ اللہ کرے ہماری حکومت ثابت قدم رہے ،ورنہ گزرے تو ایسے گئے گزرے نکلے کہ نااہلیوں ،بے وقوفیوں ، ڈالروں کے لالچ اورامریکی خوشنودی میں 22کروڑ کے ملک کو دنیا بھر میں تماشا بنا کر رکھ دیا ۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی ،واپس آئیں ،شہدا کے خاندانوں اورغازیوں کے سنگ گزری شام پر ، ویسے تو ان چند گھنٹوں میں جذبات ،احساسات ،جوش،جذبہ ایسا کہ بتایا نہ سمجھایا جا سکے ، ویسے تو ہر اگلے لمحے قربانی کی اک نئی داستان ،ہر اگلی گھڑی وطن پرستی کی اک نئی کہانی اور ہر اگلے پل بہادری ،شجاعت کا اک نیا قصہ سننے کو ملااور ویسے تو کئی مواقع ایسے بھی آئے کہ وزیراعظم سے ہم جیسوں تک سب کی آنکھیں نم ہوئیں، لیکن میرے لئے حاصلِ 6ستمبر ، وہ لمحے ہوئے جب تقریب کے اختتام پر واپس جاتے ہوئے میں نے حامد میر کو ایک خاندان کے ساتھ کھڑے ہو کر بچوں سے بڑی اپنائیت سے تصویریں کھنچواتے، باتیں کرتے دیکھا ، جب وہ وہاں سے فارغ ہو کر میرے قریب پہنچے تو میں نے پوچھا ’’ یہ کون تھے ‘‘ میر صاحب نم آنکھوں ، گلوگیر لہجے میں بولے ’’ میجر طفیل شہید (نشان حیدر)کی فیملی ‘‘ ،وہ یہ کہہ کر بیرونی گیٹ کی طرف بڑھ گئے ،میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا ، لیکن نجانے پھر کیا ہوا،چند قدم چلنے کے بعدمیں اچانک رُکا، واپس مڑا، تیزی سے میجر طفیل شہید کے خاندان کے پاس جا کر جھک کر سلام کیا،بچے کو زور سے جپھی ڈالی ،ماتھا چوما اور اس سے پہلے کہ حیران وپریشان یہ خاندان کچھ کہتا ، میں تیز تیز چلتا واپس جاتے لوگوں کی ایک ٹولی میں شامل ہوگیا،یقین جانیئے مجھے یہ تو نہیں پتا کہ یہ سب کیسے ہوگیا لیکن شائد یہ میں کبھی نہ بھلا پاؤں کہ واپس جاتے ہوئے آنسوؤں کی رفتار میرے چلنے کی رفتار سے زیادہ تیز تھی ۔

تازہ ترین