• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی ہے یا کوئی اسپتال ہے؟

چیف جسٹس:یہ نجی اسپتال کاروبار کا ذریعہ بن چکے، کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی۔ دوران زچگی خاتون کی ہلاکت کی رپورٹ طلب کر لی، اسپتال نجی ہوں یا سرکاری دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ اسپتال اگر نجی ہوں تو کاروبار کے لئے ہی کھولے جاتے ہیں، مگر کاروبار اگر اخلاقیات سے آزاد ہو تو چاہے اسپتال چلانا ہو یا کریانے کی دکان دونوں قابل گرفت ہیں، اسپتالوں میں اگر محض کاروبار پیش نظر ہو تو ایسے شفا خانوں کو اخلاق سکھانا ریاست کا کام ہے، ہمارے ہاں زچگی کا عمل جان لیوا ہوتا جا رہا ہے،اتنے زچہ بچہ تو اس وقت نہیںمرتے تھے جب ان پڑھ دائیاں زچگی کا عمل انجام دیتی تھیں، اسپتال ہوں یا اسکول دونوں ایک ہی ڈھب پر چل رہے ہیں، دونوں فیس لیتے ہیں، تعلیم دیتے ہیں نہ شفاء، گویا ہم ذہنی و جسمانی دونوں لحاظ سے مریض بنائے جا رہے ہیں، اگر ہمارا نظام تعلیم معیاری سستا اور عام ہوتا تو ہمیں بہت سے ہولناک جرائم کا منہ نہ دیکھنا پڑتا، اسکول و اسپتال والے صرف اپنی تہہ در تہہ کمائی پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، انسانی اخلاقی اقدار کی ان کو صرف اس لئے پروا نہیں کہ کون پوچھنے والا ہے، اور اگر چیف جسٹس تنگ آ کر پوچھ لیں تو کہا جاتا ہے یہ کام عدلیہ کا تو نہیں۔ اگر یہ کام متعلقہ ریاستی اداروں نے سنبھالا ہوتا تو چیف جسٹس آف پاکستان کو اسپتالوں پر چھاپے مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ آخر کیوں یہ بات ہمارے ہاں زبان زد عام ہے کہ اللہ تعالیٰ، تھانہ، کچہری، اسپتال سے بچائے، کیا وہاں پھندے لٹکے ہوئے ہیں، اور اب تو چند اداروں تک ہی بات محدود نہیں آوے کا آوا ہی خراب ہے، انسان ماں کے پیٹ میں محفوظ ہے نہ زندگی کے سفر میں، کیا ہم موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلا رہے ہیں یا اس کے تماشائی؟ نجی اسپتالوں کا وہ حال دیکھا کہ سب کی زبان پر ایک ہی شکوہ ہے؎

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

آخر ہم نے اپنے شفا خانوں میں زندگی ہی کو کیوں قاتل بنا ڈالا؟ نجی اسپتال بھی دو طرح کے ہیں، ایک اشرافیہ کے لئے جہاں ایک دن کا ایک لاکھ وصول کیا جاتا ہے، اور زندگی کی ہر سہولت فراہم کی جاتی ہے، دوسرے وہ نجی اسپتال جو غریبوں، متوسط طبقے کی آخری آرام گاہیں ہیں، یہ پیسے لے کر دھکے دیتے ہیں۔

٭٭٭٭

پسند و ناپسند کی شادی

حافظ آباد:پسند کی شادی کرنے پر باپ نے بیٹی، داماد، 2نواسے قتل کر دیئے مریدکے:پوتے نے گولی مار کر دادی کو قتل کر ڈالا۔ پسند کی شادی ہی دراصل شادی ہوتی ہے، اسلامی فقہ کے مطابق ایجاب و قبول کے بعد ہی نکاح جائز اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ناپسند ہو تو شادی نہیں ہو سکتی، اب شادی میں ماں باپ کی مرضی چلتی ہے لڑکے، لڑکی نے اگر اپنی مرضی ظاہر کی اور شادی کر لی تو ماں باپ کی عدالت سے دونوں میاں بیوی کو سزائے موت دے دی جاتی ہے۔ ایسے واقعات اب بکثرت دیکھنے سننے میں آ رہے ہیں، اگر ایک مرد اور ایک عورت شادی کریں تو وہ والدین سے ضرور مشورہ کرتے ہیں اجازت بھی مانگتے ہیں مگر والدین یا بھائی ناں کر دیتے ہیں، لڑکا لڑکی اپنا شرعی اختیار استعمال کر کے شادی کر لیتے ہیں یہ شادی اس لئے تسلیم نہیں کی جاتی کہ والدین کی رضا مندی نہیں ہوتی، علماء دین، عوام الناس کو نکاح و طلاق کے شرعی قوانین سے آگاہ کیوں نہیں کرتے؟ جن دو افراد یعنی مرد و زن نے زندگی بھر ساتھ رہنا ہے اگر ان کی جبری شادی کرا دی جائے تو یہ شادی شرعاً جائز نہیں کیونکہ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا، اگر بیٹا کسی کی عزت لوٹ لے تو آج تک نہیں سنا کہ باپ نے بیٹے کو گولی ما ردی ہو حالانکہ زانی کی شرعی سزا موت ہے مگر وہ بھی عدالت کے حکم پر، والدین شرعی قانون ہاتھ میں نہیں لے سکتے، بہتر ہے کہ لڑکا لڑکی اپنے والدین سے مشورہ کر لیں مگر یہ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دو بالغ مرد و زن اپنی مرضی سے شادی ہی نہیں کر سکتے۔ اسلامی شریعت کے مطابق پسند کی شادی ہی جائز ہے اور نا پسند کی شادی ناجائز، خود ساختہ غیرت، سوائے جہالت کے اور کچھ بھی نہیں، آخر ہمارے ہاں اس سلسلے میں تعلیم کیوں نہیں دی جاتی اور جس پوتے نے ’’مریدکے‘‘ میں اپنی دادی کو مار ڈالا کیا اس کے دادا دادی نے بھی پسند کی شادی کی تھی؟ ہمارے معاشرے میں شریعت کے بجائے غیرت رائج ہے،حالانکہ غیرت محض غیظ و غضب اور اپنی مرضی ٹھونسنے کا نام ہے، کوئی شراب پیئے، بدکاری کرے، نشہ کرے، چوری کرے باپ کو اس وقت غیرت کیوں نہیں آتی؟

٭٭٭٭

وزیر ریلوے کی دریا دلی

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے:شیخ ہوں اپنی جیب سے 10کروڑ نہیں دے سکتا، شیخوں نے یہ مشہور کر کے اپنی جان ہمیشہ کیلئے کچھ دینے سے چھڑا لی ہے کہ ہم تو شیخ ہوتے ہیں، کوئی کہے کہ شیخ جی ہاتھ دو تاکہ تمہیں کنویں سے باہر نکالوں تو ہاتھ نہیں دیتے کنویں سے ہی کہتے ہیں کہو ہاتھ لو تاکہ تجھے باہر نکالوں، مگر شیخ صاحب ریلوے والے! اس طرح جان نہیں چھوٹے گی، اپنی جیب کی بھی قربانی دو، کنوارے ہو اور 9ویں مرتبہ وزیر بن رہے ہو۔

لال حویلی میں تنہاء کھانے والے، کوئی کمی نہیں، بہت کچھ جمع کر رکھا ہے، چیف جسٹس کی پکار پر لبیک کہیں اور اس خود ساختہ پروپیگنڈے میں نہ چھپیں کہ شیخ ہوں اور شیخ پر دینا حرام اور لینا حلال ہے۔ وہ بھی تو شیخ ہی ہوتے ہیں جن کے لنگر چلتے ہیں، اور اگر لوگ کچھ دیتے ہیں تو ان پر خرچ بھی کرتے ہیں، حضرت داتا صاحب بھی شیخ تھے مگر وہ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی روزانہ ہزاروں لوگوں کو بریانی کھلاتے ہیں، لال حویلی میں کبھی کوئی دیگ چڑھی ہے؟ تمام شیخ برادری کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اب اکیسویں صدی ہے شیخ بن کر خلاصی ممکن نہیں، کم از کم جان بچانے کیلئے تو ڈیم فنڈ میں کچھ نہ کچھ دینا پڑیگا۔ خان صاحب نے شیخ صاحب کو ریلوے کا وزیر تو بنا دیا ہے مگر وہ کیا ریلوے کو کچھ دیں گے؟ اس پر بھی غور کیا کہ نہیں؟ ہر روز ریلوے بارے ایک چوندی چوندی خبر لگوا دیتے ہیں مگر ریلوے تو وہاں بھی نہیں جہاں خواجہ صاحب کے زمانے میں تھی۔ کم از کم ایک سگار ہی فنڈ میں دے دیں، جسے فروخت کرکے ایک قطرہ تو ملے جس کی قسمت میں ہے دریا ہونا، بہرحال شیخ رشید نے ہر دور میں موج ہی کی ہے، واقعی شیخ، شیخ ہوتا ہے چاہے بلخ کا ہو یا بخارا کا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین