• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی بہت خوبصورت ہے بس اسے جینے کا ڈھنگ آنا چاہئے۔ اللہ نے زندگی گزارنے کے بڑے آسان راستے دکھائے ہیں اگر آپ نے اپنی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیرنے ہوں تو سادگی، کفایت شعاری، خلوص نیت، اپنے کام سے جنون کی حد تک لگن، دیانت داری، سچائی ، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں تو پھر دیکھیں آپ کیلئے خوشیوں کا کیسا گلستان کھلتا ہے آپ کو ہر چیز اور ہر کام میں خوشی محسوس ہوگی۔ ماریہ میری ہم سفر ہے اور اس کے لبوں سے پھول جھڑتے ہیں۔ ماریہ کہتی ہے یہاں ہر کوئی اپنا کام دیانت داری سے کرتا ہے۔ کراکوسے برلن کا سفر براستہ سڑک تقریباً سات گھنٹے ہے اور ہمیں پولینڈ کے شہر راکلوف (wroclow) میں نماز جمعہ کی ادائیگی اور دوپہر کے کھانے کیلئے رکنا ہے۔ گوگل سرچ نے یہ سہولت فراہم کردی کہ ہم ایک مسجد کے باہر کھڑے ہیں۔ تھوڑی تاخیر ہوگئی نماز جمعہ باجماعت ادا نہ ہوسکی۔ تاہم نماز کی ادائیگی کے بعد مقامی نمازیوں سے ملاقات ہوئی اور مسجد سے منسلک مراکو(مراکش) کی ایک کینٹین سے جہاں حلال فوڈ دستیاب ہے کھانا کھایا۔ کینٹین کے باہر لاہور جوہر ٹائون کی رہنے والی ایک فیملی سے ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ یہاں کے مقامی لوگ بہت اچھی طبیعت کے ہیں۔ اس شہر میں بیس، پچیس سے زائد پاکستانی نہیں رہتے جبکہ پولینڈ خصوصاً اس شہرمیں پاکستانیوں کیلئے آئی ٹی کے شعبے میں روزگار کی بڑی گنجائش ہے۔ اس مختصر ملاقات کے بعد ہمارا قافلہ برلن کی طرف رواں دواں ہے۔


ماریہ میرے پہلو میں بیٹھی ہے۔ اس کے پرفیومTiffany کی خوشبو سے زیادہ اس کی سانسوں کی مہک مجھے سحر میں لئے ہوئے ہے۔آٹوبان (موٹروے) کے دائیں بائیں سبزہ ہی سبزہ ہے ، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کبھی گھنے جنگل آجاتے ہیںتو کبھی جنگلوںکے درمیان دور تک سر سبز میدان اور بہت کم آبادی ہے۔ ہر دس پندرہ کلو میٹر کے بعد ہوا سے بجلی بنانے والی سفید ہوائی چکیاںخوبصورت ترتیب کے ساتھ گھوم رہی ہیں۔ یہ مقامی آبادی کو بجلی کی فراہمی کا آسان ، سستا اور منظم ذریعہ ہے۔ یقین سے تو نہیں کہہ سکتا مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ ہوا سے گھومتی ان چکیوں سے پیدا ہونے والی بجلی مقامی آبادی کو ہی فراہم کی جاتی ہے اور زائد بجلی کی تقسیم کا یقیناً بڑا منظم نظام موجود ہوگا۔ راستے میں گیس اسٹیشن پر رکیں تو خوبصورت ٹوائلٹس ہیں مگر یہاں اپنی (حاجت) پوری کرنے کیلئے بھی ایک یورو (144)روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ایسی ہی سہولت اب پاکستان کی موٹروے پر بھی دستیاب ہے اور اس کا معیار کسی صورت بھی یورپی ٹوائلٹ سے کم نہیں۔ہماری لاہور اسلام آباد موٹروے آٹو بان سے کہیں زیادہ کشادہ اور اس کے گرد لہلہاتے کھیت زندگی سے بھرپور محسوس ہوتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ آپ کو جگہ جگہ موٹروے پولیس کی طرح یہاں مقامی پولیس کی گاڑیاں گھومتی نظر نہیں آئیں گی۔ ہر شخص ٹریفک قوانین سے واقف ہے اور اس کی پاسداری کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ آٹو بان پر سروس ایریاز میں وہی رونق ہے جو ہمارے ہاں موٹروے پر نظر آتی ہے۔ خاندانوں کے خاندان، عام سفر کرنے والے گروپوں کی شکل میں سیروسیاحت کے شوقین آپ کو یہاں طرح طرح کے نظارے دکھائیں گے۔


پولینڈ یورپ کا سستا ترین ملک ہے۔ یہاں تمام کاروبار، مقامی کرنسی ’’لوٹی‘‘ میں ہی ہوتاہے۔ آپ مقامی دکانداروں کو جتنا مرضی زور دیں وہ ڈالر اور یورو میں کسی صورت لین دین نہیں کریں گے۔ جرمنی کی حدود میں داخل ہونے سے قبل ہر غیر ملکی سیاح خصوصاً ایشینز کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ’’لوٹی‘‘ پولش کرنسی کو ’’لوٹے‘‘ کے پانی کی طرح بہا دیں تاکہ انہیں دھات کے بنے بھاری ’’لوٹوں‘‘ کا بوجھ ساتھ نہ اٹھانا پڑے کیونکہ یورپ کے دیگر ممالک میںیہ ’’ لوٹے‘‘ نہیں چلتے۔ ماریہ اگرچہ بڑی کنجوس ہے مگر وہ بھی چاہتی ہے جتنا ممکن ہوسکے ’’لوٹے‘‘ خرچ کرکے کھانے پینے کی اشیاء،گیس اسٹیشن پر بنی پاکستان کی طرح شاپس سے خرید لیں۔ گیس اسٹیشن پر رکتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ یورپ سے زیادہ پاکستان خصوصاً موٹروے پر بنے گیس اسٹیشن خوبصورت ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ گیس اسٹیشن سیلف سروس (خود کار )سہولت کے تحت چلتے ہیں۔ یہاں کوئی ملازم پٹرول ڈالنے کیلئے موجود نہیں اور یہ کام شہری بڑی دیانت داری سے کرتے ہیں نقصان اتنا ہے کہ سیلف سروس کی وجہ سے بہت سارے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ لاکھوں لوگوں کے روزگار اورچند لوگوں کیلئے ’’ڈنڈی‘‘ مارنے کا آسان ترین ذریعہ ہے۔ کم ، غیر معیاری پٹرول ڈالنا ہماری بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں۔ پٹرول پمپ مالکان چند ٹکوں کی خاطر اپنا ایمان بیچتے ہیں، قیمتی گاڑیوں کے انجن بھی تباہ کرتے ہیں اور رزق حلال کو آسانی سے حرام کرتے ہیں۔ ماریہ کی خواہش ہے کہ برلن سے پہلے جرمنی کے شہر Hanover کا تاریخی ٹائون ہال دیکھا جائے۔ میرے ہم سفر دیگر ساتھی بھی یہی چاہتے ہیں۔ یقیناً ماریہ کی خواہش پوری ہوئی۔ ہم ایک بار پھر قلعہ نما دنیائے تعمیر کے ایک شاہکار کے باہر کھڑے ہیں۔ یہ پرشکوہ عمارت 1913 ء میں بارہ سال کی مسلسل تعمیر کے بعد مکمل ہوئی۔ اس کا اندرونی منظراس شہر کو بسانے والوں کے تعمیراتی ذوق کی عکاسی کررہا تھا۔ ہمارے لئے یہ عمارت محض دیکھنے تک محدود تھی مگر پاکستان کے معروف آرکیٹیکٹ رضوان جنہوں نے ملک میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل کئے ہیں ان کی آنکھیں کچھ اور دیکھ رہی ہیں۔ وہ بہت کم وقت میں اس شاہکار کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ اس عمارت میں اب انتظامی دفاتر نہیں ہیں۔ اب یہ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن چکی ہے۔ شام ڈھل رہی ہے۔ گرمی کا احساس کم ہونے لگا ہے۔ جذبات بھی اسی طرح مچل رہے ہیں۔ ڈھلتا سورج نظروں کے سامنے ہے، میں اور ماریہ اس حسین نظارے کو اپنے احساسات میں سمو رہے ہیں، اندھیرا چھانے لگا ہے آسمان پر تارے چمک رہے ہیں، جنگلوں اور سبز میدانوں میں بجلی بنانے والی ہوائی چکیاں گھوم رہی ہیں۔ ہرطرف خاموشی کا راج ہے۔ ڈھلتا سورج ، چمکتے چاند تارے، روشن روشن رات، جنگلوں کے درمیان رواں دواں گاڑی(چاندنی رات ڈھل رہی ہے نہ جانے تم کب آئو گے ) کا خوبصورت گیت دو دلوں کی دھڑکن کو ایک کررہا ہے۔ رات کے نو بج رہے ہیں اور ہم ہیں برلن میں دوستو۔ دیوار برلن خیال کا پہلا جھونکا، مونا لیزا کا خوبصورت چہرہ دوسرا احساس، ہٹلر کی ہٹ دھرمی تیسراتصور،یورپ کی خوش حالی جرمنی سے ہے ۔ خیالات ، سوچیں تاریخ کو دہرا اور تجسس بڑھا رہی ہیں۔ ہمارا ہوٹل آگیا، استقبالیہ پر اپنے کمرے کی چابیاں وصول کیں۔ کسی نے پوچھا ہی نہیں آپ کو ویلکم ڈرنک (ہوٹل میں آمد پر مہمان نوازی) پیش کیا جائے یا نہیں۔ شہر سے ذرا باہر مشہورومعروف ہوٹل مگر کنجوسی اور بے مروتی کی انتہا، انٹرنیٹ، وائی فائی کی سہولت 2 یورو ایک دن کیلئے ،کمرے میں پینے کے پانی کی کوئی بوتل مفت نہیں۔ جیب سے 2 سے 5 یورو کے سکے نکالیں ، استقبالیہ کے قریب پڑی آٹو میٹک مشین میں سکے ڈالیں ، پینے کا سادا پانی، کولایا ’’لال پری‘‘ مشین سے باہر خودبخود نکل آئے گی اور انجوائے کریں برلن میںاپنی آمد۔(جاری ہے)


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین