• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے بالآخر اپنے انتخابی اعلانات پر مرحلہ وار عملدرآمد کا آغاز کردیا ہے۔ دو روز قبل انہوں نے’’ ڈیم بنائو، ملک بچائو‘‘ مہم کیلئے بیرون ملک پاکستانیوں سے فی کس ایک ہزار ڈالر فنڈ بھجوانے کی ا پیل کی ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کی طرف سے بیرون ملک پاکستانیوں کوE votingکے ذریعے ووٹ کا حق دے دیا گیا۔ یہ معاملہ کئی سالوں سے زیر التواتھا۔ پاکستان کی معیشت میں 70لاکھ سے زائد بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بجھوائی جانے والی ترسیلات زر کا بنیادی کردار ہے۔ ان 70لاکھ میں سے 40لاکھ کے قریب پاکستانی ز یادہ تر مشرق وسطیٰ، سعودی عرب، قطر، دبئی، بحرین اور دوسری ریاستوں میں محنت و مزدوری اور بڑے بڑے کاروبار کررہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے دو روزقبل امریکی صدر کی طرح ٹی وی پر بڑا ہی مختصر خطاب کیا اور ایک بڑا اعلان کرکے اپنے انتخابی منشور کی طرف قدم بڑھادئیے۔ امریکہ میں صدر وائٹ ہائوس میں ہوں یا کسی اور مقام پر وہ تقریباً ہر ہفتے ریڈیو پر اس طرح کسی نہ کسی پالیسی کے پس منظر میں امریکی عوام کو کوئی نہ کوئی پیغام دیتے یا امریکی مفادات کے حوالے سے خطاب کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں وزیر اعظم عمران خان نے شاید یہی طریق کار اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ سب کو اچھا لگا، خاص کر بیرون ملک پاکستانیوں سے نئے ڈیمز کیلئے رقوم بھجوانے کا! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر 80-70لاکھ پاکستانی، ایک ایک ہزار ڈالر بھجوادیں تو شاید پاکستان کو اربوں ڈالر کے وسائل مل جائیں، مگر اس کیلئے حکومت کا کیا میکنزم ہوگا کہ ان فنڈز کا نہ تو غلط استعمال ہو اور نہ ہی1988میں وزیر اعظم نواز شریف کی قرض اتارو، ملک سنوارو اسکیم جیسا انجام۔ اس وقت بھی اسلام آباد میں اسٹیٹ بینک کی سابق بلڈنگ میں وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے بیرون ملک پاکستانیوں کی فیملیز اور مقامی خواتین و حضرات نے اپنی بچیوں تک کے زیور ملک کو قرضہ سے نجات کیلئے دے دئیے تھے، مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ اسٹیٹ بینک کے حکام اور اسلام آباد کے طاقتور لوگ سب جانتے ہیں۔ اس مہم کے فنڈز کا کہاں استعمال ہوا، یہ بات آج تک معمہ بنی ہوئی ہے۔

دوسری طرف قرض کا حجم کم ہونے کے بجائے 30کھرب ڈالر سے بھی بڑھ گیا ہے جو کہ اس وقت 8کھرب سے10کھرب ڈالر کے درمیان تھا۔اس طرح صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اقرا سرچارج کے فنڈز کا کیا ہوا، کہنے کا مقصد یہ کہ وزیر اعظم عمران خان چونکہ وزارت عظمیٰ کا پہلے تجربہ نہیں رکھتے اس لئے ان سے یہ اعلان کرانے والے فنکار کوئی دھوکہ بھی کراسکتے ہیںتاکہ بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد مجروح ہوجائے، عمران خان اور پی ٹی آئی کو سیاسی فرنٹ پر ایک سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ اس وقت بیرون ملک پاکستانی مجموعی طور پر پاکستان میں 22ارب ڈالر بھجواتے ہیں ، جس میں16ارب ڈالر قانونی طریقے سے اور تقریباً 7سے 8ارب ڈالر ہنڈی اور دیگر ذرائع سے بھجواتے ہیں۔ اس وقت بہترین موقع یہ ہے کہ حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کی رقوم کو’’ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ کمیونٹی ڈیویلپمنٹ کیلئے استعمال کرے، یعنی ہر پاکستانی سے کہا جائے کہ وہ آزاد کشمیر سے لے کر پاکستان کے جس حصہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں ، ان فنڈز کا ایک حصہ ان کے علاقہ میں بھی کسی نہ کسی تعلیم، صحت عامہ یا کسی اور منصوبہ پر خرچ کیا جائے گا۔ اس سے ان پاکستانیوں میں زیادہ رقوم بھجوانے کا جذبہ ابھر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم ڈیمز کے حوالے سے کالا باغ ڈیم کے بلاوجہ مخالفین کو کسی طریقے سے بھی قائل کریں کہ وہ اس کی سیاسی مخالفت سے باز آجائیں، اس لئے کہ جتنی جلدی کالا باغ ڈیم کا منصوبہ سستی ترین بجلی کے ساتھ 7-8 سالوں میں پیداوار شروع کرسکتا ہے ا تنی جلدی بھاشا ڈیم کا بننا مشکل ہے، البتہ مہمند ڈیم کے بنانے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں وزیر اعظم چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو خصوصی ٹاسک دیں۔ قومی سطح پر اس حوالے سے مہم چلائی جائے، جس کی ذمہ داری وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور واپڈا سمیت مختلف حکام کو سونپی جائے۔ اس لئے کہ سستی بجلی ہی پانی کے بعد پاکستان اور اس کے عوام کی سب سے ناگزیر ضرورت ہے، جس کیلئے کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے کا یہ بہترین وقت ہے، مگر ا س کیلئے جذبات نہیں احتیاط سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعات کے حل کیلئے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا جائے تاکہ فرنٹ ڈور ڈپلومیسی مہم سے پاکستان اپنے پانی کی حفاظت کو یقینی بناسکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین