• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے بچپن کو دیکھتے ہوئے اور بزرگوں کی باتیں سن کر یہ احساس ہوتا ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے، محلوں اورگھروں کی چھتوں پر بلاخوف و خطر دیر تک کھیلنا، دوستوں اورمحلے داروں کے گھروں میں اپنے ہی گھروں کی طرح آنا جانا، چوکوں، شاہراؤں اور چوراہوں پر لگے ٹھیلوں، چھابڑی فروشوں اور ریڑھیوں پرکھڑے ہو کر پکوڑے، سموسے، چاٹ، مرنڈے، پیتسے، ٹانگری کھانے اور گول گپے، فالودے، برف کے گولوں کا لطف نہ جانے کہاں کھو گیا ہے، سروں پر رنگ دار ا چوڑیوں کے ٹوکرے اٹھا کر’ونگاں چڑھا لو کڑیو‘ کی آوازیں لگانے والی ونگیاریاں نجانے کہاں گم ہو گئی ہیں۔
گول دائرے میں گھومنے والے جھولوں پر لندن، پیرس، ٹوکیو اور بیجنگ کی سیر کرانے والے کدھر چلے گئے ہیں، رنگ دار لچھے اور بڑے سے بانس پر رنگدار اور مٹھاس سے بھرپور پٹی کو تیلے پر چڑیاں اور مور بنا کر بیچنے والے کہیں اوجھل ہو گئے ہیں۔
گلیوں، محلوں میں ’سرما، کریمیں، کانوں کی بالیاں، ناکوں کے کوکے اور آنکھوں کے کاجل بیچنے والے نجانے کس دیس چلے گئے ہیں، کندھوں پر ایک ڈبہ نما سینما اٹھا کر آٹے کی ایک مٹھی یا چند سکوں کے عوض بیک وقت تین تین بچوں کو فلمیں دکھانے والے اب نہ جانے کن گورکھ دھندوں میں الجھ گئے ہیں۔ یا یہ سارے لوگ علاقوں، سیکٹرز اور آبادیوں کی تقسیم کی وجہ سے ادھر ادھر ہو گئے ہیں۔
بظاہر زندگی بڑی خوشنما اور سہل ہو گئی ہے۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں، ہاتھوں میں اٹھائے موبائل فونز نے رابطوں کو آسان بنا دیا ہے، خطوط میں لکھے گئے الفاظ اور فقروں کی چاشنی اور انتظار کے لطف کی جگہ اب ای میل کی تیزی نے لے لی ہے۔ صابن سے رگڑ رگڑ کرکپڑے دھونے اور میل نکالنے کے لئے انہیں لکڑی کے ڈنڈے (ڈمڑی)سے کوٹنے کی جگہ کپڑے دھونے کی مشینوں نے لے لی ہے۔ زور بازو سے کپڑوں کو نچوڑ کر اورانہیں جھٹکے کے بعد خشک کرنے کیلئے تاروں اور رسیوں پر پھیلانے کی جگہ ڈرائیرز نے لے لی ہے، گھروں میں نیل پالش لگا کر، دانتوں پر دنداسہ مل کر، آنکھوں میں سرمہ اور ہونٹوں پر سرخی لگا کر تقاریب میں شرکت کی بجائے الیکٹرانک آلات سے سجے قد آور آئینوں سے مزین بیوٹی پارلرز نے لے لی ہے۔
جھاڑو کے لیکن صاف تیلوں اور ماچس کی تیلیوں سے مہندی لگانے کی جگہ کون مہندی آگئی ہے۔محلے یا گھروں کی گرہستی عورتوں کی سلائی کے کپڑوں کی بجائے بڑے بڑے ڈریس ڈیزائنر آگئے ہیں۔ ہاتھوں سے پیاز توڑ کر اور روٹی پر مکھن کے پیڑے رکھ کر یا اچار سے روٹی کھانے کی سادگی اور رواج کی جگہ اب سیلڈ بارز اور فاسٹ فوڈز نے لے لی ہے۔تیلے پرلگی قلفی یا رنگدار برفانی آئس کریم کی جگہ چاکلیٹ، سٹرابری، ونیلا، کوکونٹ، مینگو، پیسٹیشیو اور ٹوٹی فروٹی نے لے لی ہے، ایف ایم ریڈیوز آگئے ہیں۔ٹھوک ٹھوک کر کیسٹوں کو چلانے اور ٹیپ ریکارڈرز میں پھنسی کیسٹوں کوپیچ کسوں کی مدد سے نکالنے کی سردردی ختم ہو گئی ہے اس کی جگہ سی ڈی ز، ایم پی تھری پلیرز اور یو ایس بی نے لے لی ہے، جن میں آٹھ دس گانوں کی بجائے سینکڑوں ٹریکس لوڈ ہوتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں شاید انسانی ترقی ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی پرریسرچ کرنے والوں کی محنت اور ذہانت ہے اور یہ سب چیزیں شاید وقت کی ضرورت اورترقی کیلئے ضروری بھی ہیں لیکن ان ساری تبدیلیوں اور ترقی میں ایک چیز جو سب سے زیادہ بڑھ چکی ہے وہ خوف ہے، جوموبائل فون پر پابندی، موٹر سائیکل کی بندش یا ڈبل سواری کی ممانعت اور گھروں میں محصور ہو کر رہنے کی شکل میں ہم پر طاری ہو گیا ہے۔GHQ جیسے حساس ادارے کے مین گیٹ تک آسانی سے رسائی تھی۔راولپنڈی کے ریس کورس گراؤنڈ میں ہر سال 23 مارچ کو مسلحہ افواج کی پریڈ ہوا کرتی تھی جسے سویلین اور فوجی حضرات کی بڑی تعداد اپنی فیملیز کے ساتھ دیکھا کرتے تھے۔کسی بھی ادارے میں جانے کے لئے پہلے میٹل ڈیٹیکٹر اور واک تھرو گیٹس استقبال نہیں کرتے تھے۔جگہ جگہ سکیورٹی گارڈ یا ناکے لگے نظر نہیں آتے تھے۔ہم کسی کو اپنے گھر یا دفتر میں گھسانے سے خوف زدہ رہنے لگے ہیں۔ لفٹ لینے یا لفٹ دینے سے کترانے لگے ہیں۔ سربازار اپنی جیب یا پرس سے نوٹ نکال کر گننے سے گھبرانے لگے ہیں، کوئی آپ کو بھلا پیار سے یا پہچانتے ہوئے ہی چند لمحوں کیلئے لگاتار دیکھے تو آپ گھبرا جاتے ہیں۔گھروں میں نوکر رکھنے سے ڈرنے لگے ہیں۔ بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہوئے خدشات کا شکار رہنے لگے ہیں، کھانے پینے کی اشیاء کو ڈر ڈر کر کھاتے ہیں، جراثیموں کے خدشے سے چیزوں کو چھونے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ میڈیکل کے شعبے میں بے پناہ ریسرچ اور سہولتوں کے باوجود بیماریوں سے ڈرنے لگے ہیں، سفرکی شاندار سہولتوں کے باوجود حادثات سے ڈرتے رہتے ہیں۔گزشتہ چند برسوں میں اتنا سب کچھ بدل گیا اور ہم نے اس کو محسوس تک نہیں کیا۔
اس خوف کی وجہ کیا ہے۔۔۔؟
کیا ہمارا اللہ پر یقین کم ہو گیا ہے۔۔۔؟
کیا ہم انسانیت کی قدر کرنا بھول گئے ہیں۔۔؟
دولت اور وسائل کی تقسیم غیر مساوی ہے۔ چاہے کوئی بھی موقف ہوہم صرف اپنی بات کو درست سمجھنے لگے ہیں۔
یہی وہ وقت ہے کہ ہمیں اپنے اس پرانے دور کے امن و سکون کو واپس لانا ہوگا ۔
تازہ ترین