• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوم چومسکی 7دسمبر 1928ء کوفلِے ڈیلفیا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1955ء میںلسانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اورپھر ایم آئی ٹی میں پڑھانے لگے جہاں سے وہ 2005ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔انہوں نے دنیا کی بڑی یونی ورسٹیوں میں لیکچر دیئے انہیں فادر آف موڈرن لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔90سالہ نوم چومسکی دنیا کے معروف دانشور ،سوسے زائد کتب کے مصنف اور جدید لسانیات کے پروفیسرہیں جنہوں نے پچاس کی دہائی میں اس وقت شہرت پائی جب انہوں نے لسانیات کے ریاضیاتی ڈھانچے پر معرکتہ الآرا نظریہ پیش کیا۔وہ امریکی خارجہ پالیسیوں کے سب سے بڑے ناقدہیںکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسی دنیا کے امن اور خوشحالی میں سب سے بڑی رکاو ٹ ہے۔اپنے مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے ۔بے انتہا جگہ لیکچر دئیے، اخبارات میں کالم لکھے ،مختلف اوقات میں مظاہرے کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اقبال احمد،ایڈروڈ سعید اورہاورڈ زن سےمل کر مزاحمتی تحریکوں سے وابستہ رہے ۔وہ ویتنام کی جنگ کے خلاف سب سے بڑے امریکی دانشور بن کر ابھرے اسی لئے آج تیسری دنیا اور خاص طور پر لاطینی امریکہ کے ممالک میں ان کی جدوجہد کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

پچھلے ہفتے نوم چومسکی اور ان کی بیگم سے ایری زونا اسٹیٹ یونی ورسٹی میں ملاقات ہوئی۔میں نے ان سے بین القوامی امورکے ساتھ ساتھ چین،انڈیا اور پاکستان کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔اس موقع پر میں نے انہیںمعروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی کے انگریزی کالموں کی کتاب ’’Mirror of History‘‘ اور معروف نیوروسرجن ڈاکٹر حسن عزیز کی کتاب ’’کلامِ عارفانہ‘‘پیش کی جو ہمارے دوست خالد محمود نے چھپوائی تھی۔پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کے بارے میں ان کا کہناتھا کہ مودی اور عمران خان کے پاس تعلقات کو بہتر کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے، انہیں چاہئے کہ وہ ان وجوہات کو دیکھیں جن کی بنا پر یہ خطہ 17ویں صدی میں دنیا کاخوشحال ترین خطہ تھا۔ٹیکسٹائل صنعت جو کہ اس وقت یورپی صنعت سے زیادہ ترقی یافتہ تھی اسے انگریز تاجروں اور انگلستان میں آنے والے صنعتی انقلاب نے تباہ کردیا۔کیا وجہ تھی کہ 18ویں صدی تک یورپین سیاح ہندوستان،چین اور جاپان سے متاثر نظر آتے تھے ۔ 1700ء کی دہائی میں سائوتھ ایشیا صنعتی ترقی میں بہت آگے تھا اور 1820ء تک برطانیہ کے صنعت کار یہاں لوہے سازی کی تربیت لینے آیا کرتے تھے۔ریل کے انجن بنانے کی جو صنعت بمبئی میں تھی وہ ٹیکنیکل طو ر پر برطانیہ کی صنعت کے برابر تھی۔انڈیا کی لوہے کی صنعت اور بھی ترقی کر سکتی تھی اگر برطانیہ کی جانب سے امپورٹ پر ڈیوٹیاں نہ لگائی جاتیں۔یاد رہے ہندوستان نہ صرف صنعتی لحاظ سے انگلستان سے آگے تھا بلکہ تہذیبی لحاظ سے بھی بہت آگے تھاجتنی تعداد میں کتابیں صرف بنگال میں شائع ہوتی تھیں اتنی تعداد میں پوری دنیامیں شائع نہیں ہوتیں تھیں۔ڈھاکہ کا مقابلہ لندن سے کیا جاتا تھا ۔ انگلستان نے اسٹیل ہندوستان سے لے کر اپنی ٹیکسٹائل اور شپ بلڈنگ انڈسٹری بنائی تھی۔خوشحال ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے آج عمران خان اور مودی کو چاہئے کہ وہ ہر قیمت پر دوطرفہ تعلقات بہتر بنائیں تاکہ اس خطے میں امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہو سکے۔جب ان سے چین اور برطانیہ کے سامراجی اور نوآبادیاتی رول کا تقابلی جائزہ لینے کاکہا گیا خاص طور پر جبکہ 17ویں صدی میں یورپ میں جمہوری ادارے کام کررہے تھے جبکہ چین میں اس کے برعکس ایک ڈکٹیٹرشپ تھی تو اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ چین بھی بے شک ایک سامراجی قوت بنتا رہا ہے لیکن برطانیہ کے مقابلے میں بے ضرر اور اس کے مقاصد کمرشل ہیںجو پاکستان،ایران اور ترکی کو فائدہ دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس جب کولمبس نے براعظم امریکہ پر قدم رکھا تو یہاں80سے لے کر100ملین لوگ آباد تھے اور یہ تمام لوگ تہذیب یافتہ کاروباری تھے لیکن کچھ ہی عرصے بعد امریکہ کے 95فیصد لوگ صفحہِ ہستی سے مٹ گئے۔ نہ صرف امریکہ بلکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میںبھی مقامی آبادی کا تقریبا خاتمہ کردیااس کے ساتھ بھارت میں بھی بے حد ظلم کئے اور اس کو ایک انڈسٹریل ملک سے خام مال پیدا کرنے والا ملک بنادیا۔یورپین نے ایک اندازے کے مطابق 1664ء کے دوران 180ٹن سونااور 1700ٹن چاندی امریکہ سے یورپ منتقل کی ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آج بہت ممالک میں جمہوریت کے ثمرات، کارپو ریٹ کلچر اور دوسرے استحصالی ادارے عوام تک نہیں پہنچنے دیتے ان حالات میں اگر جمہوریت ناکام ہو گئی تو کون سا نیا عمرانی معاہدہ قوموں کو امن اور آشتی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے؟ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ اصل وجہ جمہوریت کا نہ ہونا ہے جس کے لئے دانشوروںاور سیاسی کارکنوں کو مسلسل جدوجہد کرنا پڑے گی۔اس سلسلے میں انہوں نے مختلف یورپین ممالک میں جمہوری نظام کے ارتقا میں دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کی مثالیں دیکر یہ واضح کیا کہ جمہوریت کا حصول ایک مسلسل سیاسی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔دورانِ گفتگو انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں 60ء کی دہائی میں جب ہم نے سماجی تبدیلی کے لئے مزاحمتی تحریکوں کا آغاز کیا تومجھے اور ڈاکٹر اقبال احمد کو کئی مواقع پر تین آدمی بھی میسر نہیں آتے تھے کہ جن سے بات کی جائے اور ان کو احتجاج کے لئے تیار کیا جائے مگر بالآخر اسی جدوجہد کے نتیجے میںویت نام کی جنگ کا خاتمہ ہوا۔اسی جدوجہد کا نتیجہ ہی ہے کہ اسی تحریک سے وابستہ ایک سینٹر نے ایک بل پیش کیا ہے کہ کارپوریشنوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں چالیس فیصد نمائندگی مزدوروں کے نمائندوں کو دی جائے۔اس لئے ضروری ہے کہ چھوٹے چھوٹے گروپوں میں کام کرکے لوگوں کی مزاحمتی حس کو ابھارا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح پاکستان جیسے معاشرے میں بھی ضروری ہے کہ لوگوں کے عقائد کو زیرِ بحث لائے بغیر ان کی نظریہ سازی کی جائے تاکہ ان میںمزاحمتی حس بیدار ہو۔جمہوری عمل سے روگردانی سماج کو کسی منزل پر نہیں پہنچا سکتی اور اس عمل میں ہم جتنی دیر کریں گے اتنے ہی ہمارے عوام جدید تصورات اور ان سے حاصل ہونے والے ثمرات سے محروم رہیںگے۔ جب ان پوچھا گیا کہ کیا آج بین الاقوامی طاقت کا مرکز جوکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ سے امریکہ منتقل ہو گیا تھا اب ایسٹ ایشیا کی جانب منتقل ہو رہا ہے ؟۔توانہوں نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا آج چین کی طرف ایک نجات دہندہ کے طورپر دیکھ رہی ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق انسانی ترقی کی شرح میں چین نہ صرف کافی نیچے ہے بلکہ بل اسے شرح نمو کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے میں بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس کے علاوہ چین کے اندرونی مسائل بھی ہیںجن میں خاص طورپر ماحولیات کے مسائل سے وہ بخوبی نمٹ رہاہے لیکن اس کے باجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ بین القوامی طاقت کا مرکز جوکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ سے امریکہ منتقل ہو گیا تھا اب ایسٹ ایشیا کی جانب منتقل ہو سکتا ہے۔

اس ملاقات میں انہوں نے ڈاکٹر اقبا ل احمد اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا بار بار ذکر کیا جن سے ان کی پرانی رفاقت ہے۔اس موقع پر ان کی بیگم نے نوم چومسکی کے ساتھ ہماری تصاویر بھی بنائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین