• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح نےاپنی وفات سےچند ماہ قبل پشاور میں سول سرونٹس کےساتھ خطاب میں ان کیلئےسمت کاتعین کیا تھا، اگرہم اسے اختیار کرلیتےتوہمارےملک کی سمت درست ہوجاتی۔ ان کی نصیحت واضح تھی انہوں نے کہا تھاکہ سول سرونٹس کوقربانی دینے کیلئے تیار رہنا چاہیئے۔ ان کامشورہ تھاکہ دبائو کےسامنےمزاحمت دکھائیں لیکن غیرقانونی احکامات نہ مانیں۔ انہوں نے کہا، ’’وزراء آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن آپ وہاں ہی رہیں گے۔ دبائو کاسامناکریں حتٰی کہ آپ کومشکلات بھی پیش آئیں۔‘‘ جناح نےجمہوری پاکستان کی سمت کاتعین کیاتھا، ہم دوسری جانب چلےگئےاورآج تک صحیح راستےپرنہیں آئے۔ بہت زیادہ سیاست زدہ ’سول سروس‘ میں اصلاحات کرنے کی وزیراعظم عمران خان کی کوشش کوسراہناجاناچاہیئے، کیونکہ انھوں نےایک اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹی تشکیل دی ہےلیکن یہ اتناآسان نہیں ہوگاکیونکہ طاقت کا مرکز’قانون کی حکمرانی‘ سےتبدیل ہوکرچندلوگوں کی حکمرانی تک چلاگیاہے۔ حتٰی کہ اگرسٹیٹ بینک کےسابق گورنرڈاکٹرعشرت حسین جنھیں سول سروس میں اصلاحاتی ایجنڈےکاکام سونپا گیاہے، یہ کیسے نافذ ہوگا۔ وہ ’غیریقینی صورتحال‘ اوراپنی حدود جانتے ہیں لیکن پاکستانی معاشرہ غیرسیاسی ہوچکاہےاوروہ جنھیں غیرسیاسی ہوناچاہیئے تھا وہ بہت زیادہ سیاسی ہیں۔ لہذا، نتائج تک پہنچنےسےپہلےاس معاملے کوتاریخی حوالےسے دیکھنا ضروری ہے، 50اور60کی دہائی میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں تھی۔ آپ کوان اداروں کے درمیان ایک ملی بھگت ملےگی، قائداعظم کےمطابق انھیں ’قانونی احکامات‘ ماننےتھےنہ کہ غیرقانونی احکامات۔ اگرجہاں چاہ ہو تو وہاں راہ ہوتی ہے لیکن اس کیلئےمضبوط ارادےاور سمجھ بوجھ کی ضرورت بھی ہوتی ہے، چیزیں کہاں غلط ہوئیں اورادارے کیوں کمزور ہوگئے۔ تمام برائیوں کیلئے محض ایک حصے کوالزام دینے سے کوئی صیحیح حل نہیں نکلے گا۔ یہ تاریخی معاملہ ہے کہ کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی اور امید کی جاسکتی ہے کہ عمران اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں گے۔ یہ بھی سچ ہےکہ اس ملک میں غیرقانونی حکمرانوں نے زیادہ عرصے تک حکمرانی کی اس کیلئےاسٹیبلشمنت کے ساتھ عدلیہ اوربیوروکریسی کاشکریہ۔ غیرقانونی آرڈرزنہ ماننےکیلئےفیلڈ مارشل ایوب خان کےدورکی سول سروس کی مثال دینابھی غلط ہوگا۔ جب ہم نے پاکستان معاشرے کوغیرسیاسی، انتہاپسندی پرمبنی بیانیےکےہاتھوں یرغمال بنایاتھاتو ہمارے ریفارمسٹ قائد کے ویژن کی روشنی میں سمت کے بارے میں تاحال کشمکش کاشکار ہیں کیونکہ ان کے ویژن کیلئے ہر کسی کےپاس اپنی تشریح ہے۔ ’سول سروس‘ میں مشکلات قائداعظم کےانتقال کےفوری بعد شروع ہوئیں اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی قتل کے بعدمزیدبڑھ گئیں۔ وہ لوگ جو انڈین سول سروس سے آئے تھے اور بعد میں پاکستانی کی ایڈمنسٹریٹوسروس کاحصہ بن گئے انھیں پنجاب اور یوپی کےگروپس میں تقسیم کردیاگیا اور انھوں نے خود کو سیاست میں شامل کرلیا، جوپہلے ہی مشکل اور غیریقینی صورتحال سےگزررہی تھی۔ پہلے بیوروکریٹ غلام محمد نے جوکچھ کیا اس کانتیجہ بالآخرپہلےمارشل لاء کی صورت میں نکلا، لیکن اعلیٰ عدلیہ نے پاکستان کانقصان کیا جب اس نےپہلےمارشل لاءکوقانونی قراردیا۔ اس سب کے باعث بدانتظامی پھیلی کیونکہ اسےقانون کی حکمرانی کانام دیاگیاتھا۔ سوسل سرونٹس نےسول سروس میں پڑھائےجانےوالےبنیادی قانون کی خلاف ورزی کی تھی یعنی غیرقانونی احکامات کونہ ماناجائے۔ جیساکہ پاکستان کے ایک سینئربیوروکریٹ رودادخان جوپاکستان ایڈمنسٹریٹوکےپہلےبیچ سےتعلق رکھتے ہیں، انھوں نے مجھےبتایاتھاکہ 1958کےبعدسےہم پبلک سرونٹس سے ڈومیسٹک سرونٹس بن گئے تھے۔ ’’ہمیں قانون کی حکمرانی قائم کرنی چاہیئیےتھی، لیکن ہم نے حکمرانی والے شخص کی پیروی کی یعنی مارشل لاء‘‘۔ انھوں نے کہاکہ ’’1946کےپہلے بیچ میں 26افسران تھےان میں مشرقی پاکستان سے 12افسران شامل تھے، لیکن آخری سول سرونٹس نہ صرف یوپی اور پنجاب گروپس میں تقسیم ہوگئے بلکہ انھوں نےسیاست میں مداخلت بھی شروع کردی تھی۔‘‘ جو انڈین سول سروس سے آئے تھے وہ نہ صرف قابل تھے بلکہ ان میں سے بہت سوں نے اصولوں کی پیروی کی اور غیرقانونی احکامات ماننے سے انکار کردیاتھا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا،’’اگر اعلیٰ عدلیہ پہلی اسمبلی کی تحلیل کوقانونی قرارنہ دیتی توپاکستان درست راستے پر ہی رہتا۔ اس وقت کے بعد سے ہم ٹھیک نہیں ہوسکے اور ایوب کامارشل لاء ٹرننگ پوائنٹ تھا اوراس سے بیوروکریسی اور عدلیہ میں سیاست کی بنیاد پڑی۔‘‘ انھوں نے تسلیم کیاکہ ایوب نے اعلیٰ بیوروکریٹس جو انڈین سول سروس سےآئےتھےانھیں دورکردیا اور ان لوگوں کو ترقی دی جنھوں نے ان کے ’حکم‘ کومانا۔ وہ قوانین جوان کے دور کے دوران بنے ان سے صرف سیاسی بے چینی پھیلی یہ نہ صرف سول بیوروکریٹس میں تھی بلکہ پاکستان کےسیاسی نظام کی تبدیلی کیلئے بھی تھا۔‘‘ انھوں نے کہاکہ،’’مجھے یہ کہنے والےبنگالی بیوروکریٹس بھی یاد ہیں کہ طاقت کا مرکز پارلیمنٹ سے جی ایچ کیومنتقل ہوگیاہے اور اس میں ہماری مرضی بہت کم شامل ہے۔‘‘ خان خود بھی تقریباً تمام حکومتوں کاحصہ رہے اور وہ جانتے ہیں کہ بیوروکریسی کوسیاست زدہ کردیاگیاتھا اور کئی ایماندار افسران کو مشکلات کاسامناکرناپڑاتھاجبکہ دیگر نے سمجھوتاکرلیاتھا۔ اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایوب کی جانب سےسپیکر نیشنل اسمبلی کی بجائےجنرل یحیحیٰ خان کواقتدارکی منتقلی کےبعد ان کے جانشین نے بھی کئی ایماندار افسران کو برطرف کردیا اور بدترین صورتحال اس وقت ہوئی جب بنگلہ دیش بننے کے بعد پہلی بار ایک منتخب حکومت 1972میں اقتدارمیں آئی۔ پاکستان نے کبھی بہترین پیشہ ورانہ سول سروس کو نہیں دیکھا کیونکہ نہ ہی جمہوریت جڑیں پکڑسکی اور نہ ہی قانون کی حکمرانی جڑیں پکڑ سکی۔ روداد خان کی طرح کے بیوروکریٹس تاحال یقین کرتے ہیں کہ پہلے وزیراعظم کاقتل ایک بہت بڑی شازش تھی، اس کی کبھی صیحیح طرح سے تحقیقات ہی نہیں کی گئیں۔ اگر یحییٰ خان کی حکومت نے 313افسران کو برطرف کیاتو ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت نے 1400افسران کو برطرف کیاتھا کیونکہ انہوں نے یہ سمجھے بغیر ہی اقتدارپر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی کہ سیاست زدہ ’سول سرونٹس‘ کمزور تھےکیونکہ وہ قابل ہی نہیں تھے۔ اگر وہ پیشہ ورانہ کیڈرکوواپس لے آتے اورمضبوط بیوروکریٹس کو دوبارہ بلالیتےجوصرف قانون کی حکمرانی کی پیروی کرتے ہیں تو ان کی حکومت بھی مضبوط ہوجاتی۔ بیوروکریسی کوسیاست زدہ کرنا جناح کے انتقال اور لیاقت علی خان کے قتل کےبعدشروع ہوا تھا، توبیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی ملکی بھگت کانتیجہ ون یونٹ، بنگلہ دیش کی تخلیق اور ایک بعد دوسرے مارشل لاءکی صورت میں نکلا۔

تازہ ترین