• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّدہ تحریم فاطمہ،کراچی

اپنےبچپن کا تذکرہ کریں، تو وہ تقریباً سب ہی کا ایک جیسا تھا،جس میں شوخی و شرارت، بے فکری وآزادی اورسادگی و سچائی کے پھول اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ کِھلے نظر آتے تھے۔ تاہم، موجودہ دَور میں بعض عناصر اس بچپن کی معصومیت و بے ساختگی کو کسی عفریت کی طرح نگلنےکو تیاربیٹھے ہیں۔اب نہ گلی کُوچوں میں بچّوں کے کھیلنے کی آوازیں سُنائی دیتی ہیں، نہ ہی پارکس وغیرہ ان کے دم قدم سےآباد ہیں۔ بلاشبہ ماضی میں بچّوں کو معاشرے میں جو تحفّظ حاصل تھا، وہ اب نہیں رہا۔ بچّہ گھر سے باہر جائے، تو واپسی تک اِک اَن جانا سا خوف گھیرے رکھتا ہے۔کافی حد تک ان حالات کی بنیادی وجہ، والدین کی اولاد کے بیش تر معاملات سے چشم پوشی بھی ہے۔ پھر وہ ذہنی طور پر بیمار افراد، جن کے سبب بچّے بے فکری سے اپنا بچپن نہیں جی پاتے، دراصل اُن کی تربیت کے معاملے میں کہیں نہ کہیں کوئی کوتاہی ضرور ہوئی ہے۔پچھلے دِنوں کی بات ہے، ایک عزیزہ اپنی چھے سالہ بچّی کی شکایت کررہی تھیں کہ وہ ان کا کہنا نہیں مانتی۔ پہلے تو پڑوس کی دکان سے جو منگواتی، لاکر دے دےدیتی تھی، مگر اب کچھ دنوں سے سُنی اَن سُنی کرجاتی ہے۔ہم نے بچّی کو اپنے پاس بلایا۔ ادھر اُدھر کی باتیں کیں اور پھر اصل مدّعے کی طرف آگئے۔بچّی نے بھول پَن سے،لیکن دو ٹوک جواب دیا، ’’باجی! دکان والے انکل پیار کرتے ہیں، مگر مجھے ان کے پاس جانا اچھا نہیں لگتا۔‘‘ ہم نے بچّی کی بات سُن کرخاتون سے صرف اتنا کہا،’’اگر ماں ہوکراب بھی غفلت برتی، تو بعد میں صرف پچھتاوے ہی رہ جائیں گے۔‘‘

عام مشاہدہ ہے کہ بچّے اتنےخالص اور مَن کے سچےہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ بیتنے والے ہر تجربے کا عکس ان کے چہرے پر باآسانی دیکھا جاسکتا ہے، خصوصاً والدین کی ایک نگاہ بخوبی بھانپ سکتی ہے کہ بچّہ کسی الجھن سے دوچار ہے۔ اگر بچّوں کو جسمانی یا ذہنی طور پر ہراساں کیا جائے، تو وہ کچھ وقت کے لیے بالکل خاموش یا الجھ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی کسی مخصوص شخص سے کترانے یا اس کو ناپسند کرنے لگتے ہیں۔ کچھ بچّے والدین کو اعتماد میں لے کر بتانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر افسوس کہ بہت سے والدین ان کی بات سُننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ امریکا میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق،’’بچّوں کو ہراساں کیے جانے والے97فی صد کیسز میں اُن کے جاننے والے یا قریبی افراد ملوث ہوتے ہیں۔ جیسے کہ قریبی دکان دار، گھریلو ملازم، وین ڈرائیورز، ٹیچرز، کزنز، عُمر میں بڑا کوئی دوست یا پھر رشتے دار وغیرہ۔ اور اس میں لڑکے یا لڑکی کی کوئی تخصیص نہیں، بلکہ یہ تناسب برابر یعنی تقریباً50 فی صد ہے۔‘‘اگر آپ کو اپنے بچّے میں کوئی بھی ایسی تبدیلی نظر آرہی ہے، جو آپ کے لیے اچنبھے کا باعث بنے۔ مثلاً کسی مخصوص فرد سے گھبرانا، اس سے ملنے سے انکار، گریز یا غیر معمولی خاموشی وغیرہ ،تو ازراہِ کرم اُس کے آنے جانے، ملنے ملانے کی روٹین پر کڑی نظر رکھیں۔ بظاہر کوئی علامت نہ ہو، تب بھی آنکھیں کُھلی رکھیں کہ کہیں کوئی آپ کے بچّے سے بلاوجہ، غیر ضروری حد تک بے تکلّف تو نہیں ہورہا ہے۔ گھر میں ٹیوشن پڑھنے والوں بچّوں کو بالکل الگ تھلگ بند کمرا دینے کی بجائے ایسی جگہ پڑھانے کا انتظام کریں کہ جہاں آپ کی نظر رہے۔اگر بچّہ آپ سے کسی قریبی رشتے دار کے حوالے سے کسی قسم کے تحفّظات کا اظہار کرے، تو اس کی بات پر توجّہ دیں اور مذکورہ شخص کو اپنی آبزرویشن میں رکھیں۔ 

ہمارے معاشرے میں رشتے داریاں بچانے کے لیے عموماً ایسی باتوں کو گھروں ہی میں دفن کردیا جاتا ہے کہ کہیں رشتے نہ ٹوٹ جائیں، کوئی بدمزگی نہ ہوجائے، بدنامی نہ پھیلے وغیرہ وغیرہ۔مگر کیا آپ کا بچّہ اتنا بےمول ہے کہ اُسے،اُس کی عزّتِ نفس اور ذہنی صحت کو رشتے داری پر قربان کردیا جائے؟ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچیں کہ جو رشتے دار بچّے کو ورغلا رہا ہے، کیا اُس نے اس رشتے داری کا بھرم رکھا؟؟بچّوں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ اگر خدانخواستہ اُن کے ساتھ کچھ غلط ہوا، تو آپ ہمیشہ اُن کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔انھیں اس قدر اعتماد دیں کہ وہ ہر چھوٹی، بڑی بات آپ سے بےجھجک شیئر کرسکیں۔بچّوں کو مہنگے اسکولوں میں پڑھانا، برانڈڈ کپڑے پہنانا، ایک سے بڑھ کر ایک کھلونا خرید کردینا بُرا نہیں، مگر سب سے ضروری اور اہم انھیں اچھےاور بُرے لوگوں کی پہچان کروانا ہے۔ اس ضمن میں کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ بچّوں سے ایسی باتیں کرنے سے ان کے ذہن پختہ ہوجاتے ہیں اورچہروں سے معصومیت بھی ختم ہوجاتی ہے، تو ان کے لیے عرض ہے کہ یہ دَور ،سوشل میڈیا کا دَور ہے۔ اسمارٹ فون استعمال کرنے والے اسمارٹ بچّوں کے ایک ٹچ پر اچھی اور بُری ہر طرح کی معلومات موجود ہیں، تو بجائے اس کے کہ ایسی باتیں، منفی اور بے باکانہ انداز میں اُن تک پہنچیں اور وہ ان سے اپنی مرضی کے مطلب اخذ کریں، ان کی تربیت اس نہج پر کریں کہ بڑوں کی غیر موجودگی بھی انھیں راہِ راست سے بھٹکنے نہ دے۔ دینِ اسلام میں محرم، نا محرم کا تصوّر انتہائی واضح طور پر بیان کیاگیاہے، لہٰذا بچّوں میں اچھے اور بُرے افراد سے متعلق شعور بلوغت سے قبل بیدار کریں، تاکہ وہ کسی بھی قسم کےحادثے سے محفوظ رہ سکیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہراساں اور نظر انداز ہونے والے بچّے، بڑے ہوکر کئی طرح کے مسائل کا شکار ہوجاتےہیں۔مثلاً وہ جانوروں اور دیگر افراد کے ساتھ پُرتشدد رویّہ اختیار کرتے ہیں۔ اُن کی ضد اور غصّہ بڑھ جاتا ہے۔ان کی شخصیت متوازن نہیں رہتی اور جلد منفی سرگرمیوں کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔سو، اپنے آنگن کے پھولوں کی بھرپور حفاظت کریں۔اُن کے لیے پوری دنیا خُوب صُورت نہ سہی، کم از کم اُن کا گھر، اردگرد کا ماحول، تعلیم کی جگہ اور تفریح گاہوں کو ضرور محفوظ، خُوب صُورت اور پُرسکون بنانے کی کوشش کریں۔

تازہ ترین