• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو درپیش بھیانک حالات میں پوری جواں مردی سے اپنا کردار ادا کرنے والے صحافیوں میں خوبرو نوجوان حامد میر سر فہرست ہیں۔ انہیں ہلاک کرنے کی جو سازش حال ہی میں سامنے آئی ہے وہ رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے اگر خدانخواستہ میر صاحب کو کچھ ہوجاتا تو اس کے ہولناک نتائج ملک و قوم کو بھگتنا پڑتے کیونکہ حامد میر صرف قومی نہیں بین الاقوامی شہرت کے حامل صحافی ہیں چنانچہ پوری دنیا میں اس کی بازگشت سنائی دیتی اور دشمنوں کو پاکستان کے خلاف زہریلے پراپیگنڈہ کا ایک اور موقع مل جاتا۔ میر صاحب ایک عرصے سے ان افراد اور اداروں کے خلاف برسرِپیکار ہیں جن کی سرگرمیوں کو وہ ملک و قوم کے مفاد کے خلاف گردانتے ہیں۔ وہ چومکھی لڑائی لڑتے ہیں اور صحیح معنوں میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا لہجہ بہت تلخ بھی ہوجاتا ہے اور ایسے مواقع پر میں ان کی سلامتی کے لئے دعائیں کرنے لگتا ہوں۔ حامد میر ان لوگوں میں سے ہیں جن کے متعلق اقبال نے کہا ہے
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اور اس کی وجہ بھی اقبال ہی نے بتائی ہے۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جیسے حق
نے ابلہٴ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے ہی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
چنانچہ” ابلہٴ مسجد“ اور ”تہذیب کے فرزند“ ان دونوں کی آنکھوں میں حامد میر کا وجود کھٹکتا رہا ہے۔ سو ان دونوں میں سے کسی ا یک نے ”دکھ“ کا مداوا یہی تلاش کیا کہ اس شخص کو راستے سے ہٹادیا جائے لیکن بقول حامد میر”مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقتور ہے“۔
حامد میر کو اس خطرناک صورتحال کا سامنا اس لئے بھی کرنا پڑا کہ ان کے دشمنوں کی پوٹلی میں ان کا کوئی سیکنڈل نہیں ہے۔ اس نوجوان کی رگوں میں وارث میر کا خون ہے، اس کی پرورش رزق حلال سے ہوئی ہے اور خود ا س کی قبائے ذات پر کسی قسم کی کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ وہ ایک صاف ستھرا، اجلے کردار کا نوجوان ہے اور یہی چیز اس کی جان لینے کی کوشش کا باعث بنی ہے، ورنہ اسے بلیک میل کرکے زندہ درگور کیا جاسکتا تھا۔ مجھے حامد میر کے تمام تجزیوں اور تمام گفتگوؤں سے کبھی مکمل اتفاق نہیں رہا کہ بعض اوقات مجھے ان میں کہیں کہیں مبالغہ بھی نظر آتا تھا لیکن اس کی پاکستان سے محبت اور اس محبت کے لئے اپنی جان تک خطرے میں ڈالنے کا جذبہ ہمیشہ شک و شبہ سے بالا رہا، جن لوگوں نے حامد میر کی جان لینے کی کوشش کی انہیں علم ہونا چاہئے کہ میڈیا میں اگرچہ کچھ کالی بھیڑیں بھی ہیں لیکن حامد میر ایسے کچھ لوگ ا ور بھی اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے کلمہ حق بلند کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان جیسی کچھ جانیں یہ لوگ پہلے لے چکے ہیں اب اور کس کس کی جان لیں گے؟ ہم لوگ سمجھتے تھے کہ کلمہ حق کہنے والے نامور صحافیوں کی نسل گزشتہ نصف صدی کے دوران ختم ہوچکی ہے اور اب اس ڈالی پر کوئی اور پھول نہیں کھلے گا مگر انہیں شاید علم نہیں کہ آج بھی بہت سی ڈالیوں پر بہت سے پھول اپنی بہار دکھارہے ہیں ۔گلچیں یہ پھول نوچتے جائیں ،ان کی جگہ نئے پھول کھلتے رہیں گے۔
حامد میر پر حملے کی غلیظ کوشش کے حوالے سے مختلف تجزئیے سامنے آرہے ہیں، ابھی تک کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم مختلف النوع تنظیموں کے حوالے سے اس شک کا اظہار کیا جارہا ہے کہ حملے کی پلاننگ میں ان کا ہاتھ تھا۔ حامد میر کو انتہا پسند مذہبی تنظیموں کی طرف سے دھمکیاں ملتی رہی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے بعض ادارے بھی ان سے ناخوش تھے، سو جب تک کسی عدالتی کمیشن کے ذریعے آزادانہ اور شفاف تحقیقات سامنے نہیں آتیں اس ضمن میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ مقصد میرصاحب کو ہلاک کرنا نہیں تھا بلکہ یہ ا یک سنگین قسم کی آخری وارننگ تھی کہ باز آجاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جو اس سے پہلے ولی خاں بابر ایسے صحافیوں کا ہوچکا ہے لیکن میر صاحب نے اس وارننگ کے جواب میں کہا ہے کہ”میں اپنے راستے سے نہیں ہٹوں گا، اگر کوئی میری جان لینا چاہتا ہے تو حق و صداقت کی راہ پر چلنے والے اس کی پرواہ نہیں کیا کرتے“۔
اس موقع پر مجھے اپنے میڈیا سے ایک گلہ بھی کرنا ہے، ٹی وی چینلوں کی ”معاصرانہ چشمک“ اپنی جگہ لیکن اس کے نتیجے میں اپنے کسی ساتھی کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بلیک لسٹ کرنا یا بہت معمولی حیثیت دینا سوائے سنگدلی اور حماقت کے کیا ہے؟ آج یہ ”جنگ گروپ“ کے کارکن کے ساتھ ہوا ہے کل آپ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور یوں آپ سب کا مشترکہ دشمن ایک ایک کرکے آپ سب پر ہاتھ صاف کرتا جائے گا۔ میں جانتا ہوں یہ”ادلے کا بدلہ“ ہے، تمام چینلز اور اخبارات ایک دوسرے کے اداروں سے وابستہ کارکنوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو اسی طرح نظر انداز کرتے چلے آرہے ہیں بلکہ ان کی نام کی اشاعت بھی ممنوع ہے لیکن کیا یہ عقلمندی ہے؟میڈیا کے پالیسی سازوں کو اس پر غور ضرور کرنا چاہئے تاہم اس موقع پر مجھے ”جنگ“اور ”جیو“ کو یہ کریڈٹ بھی دینا ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں اسی ادارے نے دی ہیں، اس ادارے نے مختلف مواقع پر اس”گناہ“ کی پاداش میں جہاں اربوں روپے کا نقصان برداشت کیا وہاں اس کے کارکنوں نے اپنی جانوں کی قربانی بھی دی اور بدترین تشدد بھی برداشت کیا ،سو ادارے کو چاہئے وہ میڈیا باہمی رواداری کے حوالے سے بھی پہل کرے تاکہ کوئی بھی طبقہ کسی بھی ادارے سے وابستہ صحافی کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔
آخر میں ایک نامعلوم شاعر کے دو شعر آزادی صحافت کے لئے قربانیاں دینے والوں کی نذر
ہری ہے شاخ تمنا ابھی جلی تو نہیں
جگر کی آگ دبی ہے مگر بجھی تو نہیں
جفا کی تیغ سے گردن وفاشعاروں کی
کٹی ہے برسرمیداں، مگر جھکی تو نہیں
تازہ ترین