• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اردشیرکاؤس جی کا انتقال ہو گیا۔ پاکستان میں بسنے والوں کی بھلائی سوچنے والا ذہن اب ایک پُرسکون نیند میں ہے۔ وہ قلم رک گیا جو تیس برس تک بدعنوانی، نااہلی اور جہالت کے خلاف پاکستان کا دکھ رقم کرتا رہا۔ کاؤس جی 86 برس کے تھے۔ ایک بھرپور، بے دھڑک اور مفید زندگی کے بعد کسی کا رخصت ہونا موت کے ملال سے زیادہ زندگی کا نغمہ قرار پانا چاہئے لیکن کاؤس جی کی موت ان کے ان گنت مداحوں کے لئے ایک بڑے نقصان کا سندیسہ لائی ہے۔ ہمارے ملک میں بزعم خود دانشور بھی بہت ہیں اور خود ساختہ مسیحا بھی۔ اس ملک میں نپولین کی ٹکر کے جنرل بھی بہت ہیں اور امامت دوراں کا دعویٰ رکھنے والے مفتی بھی۔ پاکستان میں شہری نام کی مخلوق عنقا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ قوموں کی تعمیر میں برخود غلط مشاہیر کا حصہ بہت کم ہوتا ہے۔ کسی قوم کے استحکام کی بنیادیں اصول پسند، قانون پسند اور درد مند شہری اٹھاتے ہیں۔ اردشیرکاؤس جی اوّل و آخر ایک شہری تھے۔ جب تاریخ کی دھند چھٹے گی اور ہم اپنے ہاتھوں سے کھودی ہوئی سرنگوں کی تاریکی سے برآمد ہوں گے تو روشنی کی لکیر کے پار جن مٹھی بھر پاکستانی شہریوں کے مجسمے نظر آئیں گے ان میں اردشیر کاؤس جی کی شبیہ بھی شامل ہو گی۔
اردشیر کاؤس جی عقیدے کے اعتبار سے پارسی تھے۔ پاکستان میں پارسی کمیونٹی کی تعداد کبھی بھی بہت زیادہ نہیں رہی اور یہ تعداد اب خوفناک حد تک کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس ننھی سی مہذب برادری نے پاکستان کی بہت خدمت کی۔ اس نے ہمیں دراب پٹیل جیسا منصف دیا ۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرنے والے سب سے پہلے جج دراب پٹیل تھے۔ فخر الدین جی ابراہیم ان کے ساتھ تھے لیکن فخرو بھائی بنچ کے سب سے جونیئر رکن تھے۔ دراب پٹیل نے اطاعت کا اقرار کیا ہوتا تو پاکستان کی تاریخ میں طویل ترین عرصے تک چیف جسٹس رہنے کا اعزاز پاتے۔ اب وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ پارسی برادری نے پاکستان کی پارلیمنٹ کو ایم پی بھنڈارا جیسا قانون ساز دیا۔ بیپسی سدھوا جیسی تخلیقی آواز بھی پارسی کمیونٹی کی دین ہے۔ اردشیر کاؤس جی کے مذہبی عقائد ان کی ذات کا لاینفک حصہ تھے۔ انہیں نہ تو پارسی ہونے پر بے جا فخر تھا اور نہ وہ مذہبی اقلیت کا حصہ ہونے کے ناتے کسی احساس کمتری کا شکار تھے۔ فخر اس لئے نہیں کہ وہ ہر مہذب انسان کی طرح تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ایک جیسا احترام کرتے تھے، رواداری اسی کا نام ہے۔ احساس کمتری کا سوال اس لئے پیدا نہیں ہوتا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح کا سیاسی نصب العین کاؤس جی کی ذات کا حصہ تھا۔ اس سیاسی فکر میں حقوق اور رتبے کے اعتبار سے تمام شہریوں میں مساوات کی ضمانت دی گئی ہے۔ کاؤس جی نے تحریر و تقریر میں محمد علی جناح کی بصیرت کو ایسی دردمندی سے بار بار دہرایا کہ معلوم ہوتا تھا یہ شخص پاکستان میں چھائے اندھیرے میں محمد علی جناح کے نام کا دیا اٹھائے کھڑا ہے۔ ربع صدی تک موٴقر روزنامہ ڈان میں ہفتہ وار کالم لکھنے کے بعد انہوں نے اپنا اختتامی کالم گزشتہ برس 25 دسمبر کو سپرد قلم کیا تھااور یہی حوالہ دیا تھا کہ انہیں محمد علی جناح کا پاکستان واپس ملنے کی امید باقی نہیں رہی۔ صحرا میں ان کی پکار چھ عشروں تک ریت کے ٹیلوں سے ٹکرا کر لوٹتی رہی۔ وہ اب تھک گئے تھے۔ بڑھاپے میں تھکاوٹ جان لیوا ہوتی ہے۔
ولہم رائخ اور حنا آرڈنٹ سے لے کر ہمارے مفکر خالد احمد تک ان گنت دانشوروں نے یہ المیہ بیان کیا ہے کہ جب ایک فرد سماج سے انحراف کرتا ہے تو کس جانکاہ تنہائی کا شکار ہوتا ہے۔میرے علم میں ایسا کوئی فکری مطالعہ نہیں جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ جب پورا سماج سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے تو منطق کی روشنی میں چلنے والے ذہن کی تنہائی کا عذاب کیا ہوتا ہے۔ اردشیر کاؤس جی نے پاکستا ن میں منطق کی شکست کا بار اٹھایا۔ یہ امانت کا وہ بوجھ ہے جسے ذمہ دار انسان صدیوں سے اٹھاتے آئے ہیں اور ان کے بارے میں ہم عصر بیان وقیع نہیں ہوتا۔ ایسے جری انسانوں کے لئے تاریخ کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جاتا ہے۔
اردشیر کاؤس جی دبنگ انسان تھے اور ان کا کردار جدید معنوں میں دبنگ تھا۔ پرانی لغت میں ’دبنگ‘ سے رعونت مراد لی جاتی تھی۔ جدید فکر میں دبنگ کا لفظ اس بے نیازی سے منسوب کیا جاتا ہے جو قانون کی پاسداری اور ضمیر کی اطاعت سے پیدا ہوتی ہے۔ کاؤس جی ذوالفقار علی بھٹو اور اکبر بگٹی کے دوست تھے۔ وہ جمشید مارکر اور کلدیپ نائیر کی صحبت میں یکساں سہولت محسوس کرتے تھے۔ انہیں منافقت اور ریاکاری سے کوفت ہوتی تھی۔ بھٹو صاحب نے انہیں سیاحت کے شعبے میں اعلیٰ منصب دیا ۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں اس وقت بھی خندہ پیشانی سے نبھائیں جب بھٹو صاحب نے ان کی شپنگ کمپنی قومی تحویل میں لے لی۔ 1976ء میں بھٹو نے انہیں گرفتار کرکے 72 روز تک قید رکھا۔ کاؤس جی کو کبھی نہیں بتایا گیا کہ انہیں کس الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ بھٹو صاحب کے شدید ناقد تھے لیکن انہوں نے ضیاء الحق کی چیرہ دستیوں کو کبھی معاف نہیں کیا۔ کاؤس جی نے کراچی میں زمینوں اور تعمیرات کے شعبے میں سرگرم منظم جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف اس بے جگری سے قلم اٹھایا جو کراچی جیسے پُرتشدد شہر میں انہی کا خاصا تھا۔ سچ پوچھیں تو جس شہر میں حکیم محمد سعید جیسے شریف آدمی کو قتل کیا جا سکتا ہے، اختر حمید خان جیسے انسان دوست پر زمین تنگ کی جا سکتی ہے، وہاں کاؤس جی کو راستے سے ہٹانا کیا مشکل تھا۔ یہ بتانا تو کاؤس جی کے بے لوث جذبے کی توہین ہو گی کہ وہ بے شمار تعلیمی اداروں، اسپتالوں، جرائد اور ثقافتی اداروں کی مالی اعانت کرتے تھے۔
انہوں نے اپنی بے پناہ شائستگی اور شخصی تہذیب پر بے تکلف لب و لہجے کا شعوری پردہ کھینچ رکھا تھا۔ کوئی پندرہ برس پہلے راقم نے انہیں اپنی ایک تحریر بھیجی۔ ڈاک واپس آ گئی۔ انگریزی میں ایک سطر تحریر تھی۔ ”معافی چاہتا ہوں، اردو پڑھنے سے قاصر ہوں“۔ میں نے جانے کس ترنگ میں انگریزی میں ایک سرپرستانہ جوابی جملہ لکھ بھیجا۔ ”کاؤس جی اپنا سربلند رکھو، ہمیں تم پر فخر ہے“۔ ترنت جواب آیا ۔”میرا سر کافی بلند ہے، تم کھڑے کیوں نہیں ہوتے “۔ کاؤس جی آپ نے پاکستان کے شہریوں کے لئے ایک لمبی لڑائی لڑی۔ اب آپ کو آرام کرنا ہے۔ ہمیں ابھی مزید انتظار کرنا ہو گا کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر ان بلندیوں کو دیکھ سکیں جو زندہ قوموں کے باضمیر شہریوں کے حصے میں آتی ہیں۔
تازہ ترین