• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی صورتحال کے حوالے سے لکھنے کے لئے بہت سے موضوعات منتظر ہیں لیکن میں اپنے’’خود پروردہ‘‘ شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر گیارہ ستمبر کے حوالے سے کالم لکھ رہا ہوں۔ گیارہ ستمبر قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم وفات ہے۔ بدقسمتی سے قائد اعظم کی زندگی کے آخری ایام کے بارے میں بہت سی سازش نما کہانیاں مشہور کردی گئی ہیں جنہیں میں زمانہ طالبعلمی سے سنتا رہا ہوں۔ سیدھے سادے واقعات کے خاکے میں رنگ بھر کر اسے رنگین بنا دینا ایک پاپولر فن(Popular)ہے کیونکہ ہمارے قومی مزاج کو رنگین داستانیں نہایت’’مرغوب‘‘ ہیں۔ ایک اور قباحت یہ ہے کہ ہمارے اکثر لکھاریوں نے قائد اعظم کی سینکڑوں صفحات پر محیط تقاریر اور ان پر لکھی گئی تحقیقی کتابیں پڑھنے کی زحمت نہیں کی لیکن ذہن میں ایک سطحی خاکہ بنالیا ہے، چنانچہ جب کوئی حقیقت ان کے خاکے کے خدوخال سے ٹکراتی ہے تو وہ بلا تحقیق اسے رد کردیتے ہیں۔ علمی دنیا کا ایک اصول ہے کہ اگر آپ کو کسی دلیل یا حوالے پر شک ہے تو اسے تحقیق سے غلط ثابت کریں نہ کہ طعنوں اور طنزوں پہ اتر آئیں۔

قائد اعظم شدید علالت کے سبب کوئٹہ میں تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ سرکاری فائلیں بھی نپٹا رہے تھے اور کبھی کبھار ملاقاتیں بھی کرلیتے تھے۔ ڈاکٹر ریاض علی شاہ قائد اعظم کے معالجین میں شامل تھے۔ ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے اپنے مضمون ’’قائد اعظم کے آخری ایام‘‘ میں لکھا ہے(ماہِ نو کراچی1948)کہ میں جب 17جولائی 1948 کو قائد اعظم کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ مسہری پر دراز تھے، جسم نحیف ہوچکا تھا لیکن چہرہ باوقار اور پرجلال، آنکھوں میں بلا کی چمک اور ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ کوئٹہ کی آب و ہوا میں ان کی صحت بہتر ہونے لگی تھی۔ ایک دن ہنستے ہنستے باتوں میں کرنل الٰہی بخش نے کہا کہ ہم دونوں کی انتہائی کوشش ہے کہ آپ کی صحت اتنی اچھی ہوجائے جتنی آج سے سات آٹھ برس قبل تھی۔ قائد اعظم مسکرائے اور فرمانے لگے’’چند سال قبل یہ یقیناً میری بھی آرزو تھی کہ میں زندہ رہوں۔ میں اس لئے زندگی کا طالب نہیں تھا کہ مجھے دنیا کی تمنا تھی اور میں موت سے خوفزدہ تھا بلکہ اس لئے زندہ رہنا چاہتا تھا کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا ہے اور قدرت نے جس کے لئے مجھے مقرر کیا ہے میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ وہ کام پورا ہوگیا ہے میں اپنا فرض ادا کرچکا ہوں، پاکستان بن گیا ہے اس کی بنیادیں مضبوط ہیں۔ اب چندماہ سے مجھے ایسے خیالات آتے رہتے ہیں کہ میں اپنا فرض ادا کرچکا ہوں اب قوم کا کام ہے کہ وہ اس کی تعمیر کرے، اسے ناقابل تسخیر اور ترقی یافتہ ملک بنادے حکومت کا نظم و نسق دیانتداری اور محنت سے چلائے۔ میں طویل سفر کے بعد تھک گیا ہوں۔ آٹھ سال تک مجھے قوم کے اعتماد و تعاون کے ساتھ تنہا عیار اور مضبوط دشمنوں سے لڑنا پڑا ہے۔ میں نے خدا کے بھروسے پر ان تھک محنت کی ہے، اپنے خون کا آخری قطرہ تک حصول پاکستان کے لئے صرف کردیا ہے۔ میں تھک گیا ہوں، آرام چاہتا ہوں اور اب مجھے زندگی سے زیادہ دلچسپی نہیں۔‘‘

قائد اعظم زندگی بھر قوم کو بیدار اور منظم کرنے اور حصول منزل کے لئے اس قدر مصروف رہے کہ انہیں کبھی اپنے باطن اور اندرونی احساسات کو بےنقاب کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ ان کی ساری تقاریر اپنی نوعیت کے اعتبار سے سیاسی، تاریخی اور قومی مسائل کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں، اگر آپ اوپر دئیے گئے قائد اعظم کے الفاظ کو بغور پڑھیں تو آپ کو ان میں باطنی سچائی، رضائے الٰہی کی تمنا دنیاوی زندگی کے بجائے زندگی برائے مقصد، قوم سے بےپناہ پرخلوص محبت، قدرت کی جانب سے ودیعت کردہ فرض کی انجام دہی، موت سے بے خوفی اور امانت و دیانت کی خوشبو آئے گی۔ میرے مطالعے کی روشنی میں اللہ پاک، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مومن کے لئے ایسی ہی صفات کا ذکر کیا ہے اور علامہ اقبال نے اسے اللہ کی برہان قرار دیا ہے۔ میں عرض کررہا تھا کہ قائد اعظم کی سوچ قانون، ضابطے، آئین اور امانت و دیانت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اس لئے ان کی تقاریر پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ عزم و استقامت کا اعلیٰ ترین ماڈل تھے اور شاید ہی کبھی جذبات سے مغلوب ہوئے ہوں۔ اسی منطقی انداز فکر کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے انہیں سرد مہری کا طعنہ دیا۔ اس سے قبل صرف ایک بار انہوں نے اپنی قلبی کیفیت اور باطنی سوچ کا اظہار کیا اور اپنا دل کھول کر مسلم لیگ کونسل کے اراکین کے سامنے رکھ دیا ورنہ انہوں نے ہمیشہ اپنی ذات کو الگ رکھا اور قومی مسائل کو حرز جان بنائے رکھا۔ ان کی بے غرض شخصیت کسی انعام یا صلے سے بلند و بالا تھی۔ میں نے بعض لکھاریوں اور دانشوروں کو اس تقریر کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار دیکھا ہے اس لئے اخبار سے ان کے صحیح الفاظ نقل کررہا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ بظاہر ایک ماڈرن، فیشن ایبل اور رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ کی شہرت رکھنے والا محمد علی جناح اندر اور باطن سے کیا تھا اور کون سا جذبہ ان کی شخصیت کا محور تھا۔

کئی سو افراد پر مشتمل آل انڈیا مسلم لیگ کونسل انتہائی اہم ادارے کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس میں ہندوستان بھر کے چیدہ چیدہ مسلمان سیاسی رہنما شامل تھے اور پارلیمنٹ کی مانند کونسل سے سارے فیصلوں کی منظوری لی جاتی تھی۔ قائد اعظم کونسل کے اجلاسوں کی صدارت بھی کرتے تھے اور سالانہ کارکردگی کے علاوہ اہم قومی مسائل پر بھی کھل کر اظہار کرتے تھے۔ اکتوبر1938کا آل انڈیا کونسل کا اجلاس وہ واحد موقع تھا جہاں قائد اعظم نے اپنی تقریر میں اپنی باطنی کیفیت کو بے نقاب کیا۔ روزنامہ انقلاب مورخہ 22اکتوبر 1938کے مطابق قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا، دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے، اب میری زندگی کی و احد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد و سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں آپ سے اس کی داد اور صلہ کا طلبگار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا دل، میرا ایمان اور میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کردیا۔جناح تم مسلمانوں کی تنظیم اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بےشک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔‘‘ ہر جدوجہد، تحریک اورعظیم نصب العین کے پس پردہ کچھ محرکات و مقاصد ہوتے ہیں۔ صحت اور آرام کی پروا کئے بغیر قائداعظم کی مسلسل جدوجہد، یقین محکم اور حصول منزل کے جذبے کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ مسلمانوں کی آزادی و سربلندی، رضائے الٰہی کہ میرا رب راضی ہو، مدافعت اسلام اور کفر کے خلاف اسلام کا جھنڈا بلند رکھنا، اور بحیثیت مسلمان موت!!یہ تھے وہ محرکات و مقاصد جن کے لئے قائد اعظم نے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ زندگی اور زندگی بھر کی کمائی قوم پر نچھاور کردی۔ اس فرض کو نہایت ایمانداری اور خلوص سے سرانجام دینے کا نتیجہ تھا کہ موت سے دو ماہ قبل انہوں نے ڈاکٹر ریاض علی شاہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نہ دنیامیری تمنا تھی نہ میں موت سے خوفزدہ ۔ جو مشن قدرت اور قوم نے میرے سپرد کیا وہ میں نے پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ گویا اب ان کا ضمیر مطمئن تھا اور انہیں رحمت خداوندی کا پورا یقین تھا۔ موت سے پہلے یہ اطمینان، یقین اور قلبی مسرت قرب الٰہی کی علامت ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اسے نفس مطمئنہ کہا ہے۔ یہ میرے رب کا سب سے بڑا انعام ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین