• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے کچھ دنوں سے اپنا ایک شعر بہت یاد آ رہا ہے؎

لگتا ہے بہت دیر رکے گی میرے گھر میں

اس رات کی آنکھوں میں شناسائی بہت ہے

ظاہر ہے شعر کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں، بس یہ ایک احساس ہے جسے محسوس ہی کیا جا سکتا ہے، تاہم ایک بات اس شعر سے ہٹ کر جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ سیاسی رونق ختم ہو کر رہ گئی ہے، غالب نے کہا تھا ؎

ایک ہنگامے پہ موقف ہے گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی

تو یارو ان دنوں حکومت نہ تو ’’نغمۂ شادی‘‘ کی پوزیشن میں ہے کہ لڑکیاں ڈھولک بجا رہی ہوں، دولہا میاں اور دلہن رانی کے حوالے سے صدیوں سے وابستہ رسمیں دہرائی جا رہی ہوں جبکہ ’’شادی والے گھر‘‘ یعنی حکومت کے ایوان غالبؔ ہی کے شعر کی زندہ تصویر لگتے ہیں ؎

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

کیونکہ حکومت ایسے تیسے کامیاب ہو چکی ہے، اب نہ اس کے دھرنوں کی رونقیں ہیں نہ بڑھکیں ہیں، اس کے حریف وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا جا چکا ہے، ان کی وزارتِ عظمیٰ چھین لی گئی ہے، ان کی ساری فیملی کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے، ان کے ساتھیوں پر مقدمات بنائے جا رہے ہیں، میڈیا کنٹرول کر لیا گیا ہے چنانچہ تحریک ِ انصاف کی ہر خواہش پوری کر دی گئی ہے، اب اس سیاسی دولہا کو ناچنے گانے اور اس طرح خلقت کو اپنے گرد جمع کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔

بھلے زمانوں میں حکومت کسی کی بھی بنے مگر اپوزیشن سارا عرصہ رونق لگائے رکھتی تھی، جیسے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران میں تحریک ِ انصاف نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ایک دن بھی چین سے رہنے نہ دیا۔ کوئی ایسا ویسا خیال ذہن کے قریب ہی نہیں آنے دیا کہ اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا یا حکومتی پارٹی کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اس ہلڑ بازی سے تاخیر کا شکار ہو گی، ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گا کہ ایسا سوچنے سے ایک ارفع و اعلیٰ مقصد یعنی پاکستان کو ریاست ِ مدینہ بنانے کا خواب ادھورا رہ جاتا ؎

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

خدا بنے گا یگانہؔ، مگر بنا نہ گیا

سو تحریک انصاف، پاکستان کے کونے کونے کی مالک تو بن گئی، مگر مدینے کی ریاست وجود میں نہ آسکی کیونکہ اتنے کم عرصے میں تو ظاہر ہے وہ کچھ نہیں ہو سکتا تھا جس کا وعدہ کیا گیا ہے، مقصد صرف یہ تھا کہ تحریک کے سارے مطالبات ’’عوام‘‘ نے پورے کر دیئے ہیں اور پاکستان کی چابیاں ان کے حوالے کر دی گئی ہیں چنانچہ جو رونق میلہ یہ جماعت لگایا کرتی تھی، وہ میلہ اسے اب لگانے کی ضرورت نہیں رہی چنانچہ میں جو میلوں ٹھیلوں کا رسیا ہوں، ان دنوں اداس سا رہنے لگا ہوں۔

دوسری طرف مجھے اپوزیشن نے بھی شدید مایوس کیا ہے۔ تحریک ِ انصاف کے میلوں ٹھیلوں سے جی خوش رہتا تھا، اس کی خاموشی کے بعد میں نے اپوزیشن سے امیدیں باندھیں کہ اب وہ یہ کام سنبھالے گی مگر افسوس صد افسوس کہ تحریک ِ انصاف کی کامیابی کو ’’دھاندلا‘‘ کہہ کر اس کی کامیابی کو مسترد کر دینے کے بعد وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئی ہے۔ اللہ جانے خواجہ سعد رفیق کہاں ہے، طلال چودھری کہاں ہے، ان کی ایک ترجمان وزیر ہوا کرتی تھی جو این جی او چلاتے چلاتے وزیر بن گئی تھی، اس کا نام یاد نہیں آ رہا، اللہ جانے وہ کہاں ہے، کہیں دوبارہ این جی او نہ چلا رہی ہو، اور ہاں! اپنے شہباز شریف جنہیں میں پنجاب کا محسن سمجھتا ہوں وہ مسلم لیگ کے صدر ہیں ان کی شعلہ فشانی سے بھی دلِ حزیں محروم ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ ایک بہت بڑے جلسے کا اہتمام کریں گے جس میں آج بھی وہ بہت بڑی تعداد میں مخلوقِ خدا جمع کر سکتے ہیں، اس موقع پر ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ اور ڈھول ڈھمکوں کے ساتھ گائے گئے گیت لوگوں کے دلِ مردہ میں زندگی کی رونقیں بحال کریں گے، شہباز صاحب کا شعری ذوق بھی بہت عمدہ ہے، وہ اس موقع پر یہ شعر بھی پڑھیں گے ؎

ہری ہے شاخِ تمنا ابھی جلی تو نہیں

جگر کی آگ دبی ہے مگر بجھی تو نہیں

جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی

کٹی ہے برسرِ میداں مگر جھکی تو نہیں

پر کتّھے جی (پنجابی) ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے، نہ حکومت میلوں ٹھیلوں سے دل ویراں میں پھول کھلا رہی ہے اور نہ اپوزیشن ہاتھ میں گنڈاسہ پکڑے سلطان راہی کے انداز میں حکومت کو للکارتے ہوئے کہتی ہے ’’مولے نوں مولا نہ مارے تے اونوں کوئی نہیں مار سکدا‘‘ اور نہ اس کے جواب میں حکومت کا کوئی مصطفیٰ قریشی کہتا ہے ’’نواں آیاں ایں سوہنیاں‘‘___شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے گندے کپڑے ڈرائی کلین کر دیئے گئے ہیں اور اپوزیشن رہنمائوں کو گندے کپڑے پہنا دیئے گئے ہیں جو خارش زدہ ہیں، چنانچہ انہیں خارش میں مصروف کر دیا گیا ہے۔ اب میں ان کی سسکاریوں کا مزہ لینے سے تو رہا۔

بہت زیادہ رونق ہمارے کچھ میڈیا چینلز بھی لگایا کرتے تھے، وہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر ایسے ایسے الزامات لگاتے تھے جنہیں سن کر ہنسی اتی تھی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسے جاری رکھنے کا کہا جائے گا۔ مگر سچی بات پوچھیں تو اب ان کے ٹاک شوز کا مزہ نہیں آتا، اب تو وہ سارے مقاصد حاصل کر لئے گئے ہیں جو حاصل کرنا تھے___‘‘ اب مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والی بات ہے، چنانچہ میں اپنے ان محترم دوستوں کو جو مجھ پر بھی تیر آزمائی کرتے رہتے ہیں، مشورہ دوں گا کہ وہ کسی ماہر ابلاغیات سے رجوع کریں، وہ انہیں کردار کشی کے ایسے طریقے بتائیں گے جن سے ریپٹیشن کا تاثر نہیں ملے گا۔ میں تو بس رونق میلہ چاہتا ہوں جو مجھے کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ چنانچہ میں نے اپنے جیسے دل زدگان کے لئے ایک عرصے سے غیرسیاسی طنز و مزاح کے کالم شروع کر رکھے ہیں اور یہ اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ریاست ِ مدینہ وجود میں نہیں آ جاتی اور یہ ریاست ِ مدینہ اِن شاء اللہ پانچویں دن وجود میں آ جائے گی؎

میرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا

کسی سے سن لیا ہو گا کہ دنیا چار دن کی ہے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین