• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد سے چند دن قبل کی بات ہے کہ الطاف حسن قریشی نے امریکہ سے آئےپاکستانی اسکولوں کی حالت زار بہتر بنانے کی غرض سے قائم تنظیم ’’علم و ادب‘‘ کے طلحہ خان اور ان کے ساتھیوں کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ان پاکستانی امریکیوں سے اس موضوع پر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا کہ آیا وہ کون سی وجوہات ہیں کہ جن کے سبب سے بھارتی اثرات تو امریکی پالیسی سازی میں نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں لیکن پاکستانی مؤقف کو مکمل طور پر سننے کیلئے امریکی تیار بھی نہیں ہیں۔ خلاصہ کلام یہ تھا کہ بھارتیوں نے امریکہ میں اپنے آپ کو ان کے معاشرے کا ایک حصہ بنا لیا ہے وہ وہاں کی سیاست سے معیشت تک غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔ اب تو کئی وہاں کے تھنک ٹینکوں کے سربراہان کے طور پر کام بھی کر رہے ہیں۔ پھر بھارت کا سیاسی استحکام کہ جسکا لازمی نتیجہ معاشی ترقی ہوتا ہے ان کو امریکیوں کی آنکھ کا تارا بنا دیتی ہے جبکہ پاکستانی وہاں بھی پاکستان کی داخلی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں اور امریکہ کی سیاست اور معیشت سے عمومی طور پر لاتعلق ہیں۔ پاکستان کا بدترین سیاسی عدم استحکام وطن عزیز کو معاشی مسائل کے گرداب سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔ لہٰذا امریکی پاکستان کے حوالے سے ڈنڈے اور گاجر کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں بلکہ اب تو وہ گاجر دکھانے سے بھی کنارہ کش ہو چکے ہیں جس کا واضح ثبوت کچھ ایام قبل 300 ملین ڈالر کی فراہمی سے انکار کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ ان حالات میں مائیک پومپیو کے دورہ پاکستان کو ایک ڈائریکٹ تھریٹ کال کے علاوہ کچھ سمجھنا مناسب نہیں ہوگا۔ نوزائیدہ حکومت نے امریکہ کو خوش کرنے کی غرض سے مائیک پومپیو کی آمد کے موقع پر مدارس کے نصاب کی ابتدائی سطح پر تبدیلی کا اعلان کیا تا کہ یہ تصور قائم کرایا جا سکے کہ ہم آپ کو مطمئن کرنے کی غرض سے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن امریکہ اب ان اقدامات تک صرف محدود نہیں رہنا چاہتا اور افغانستان میں ایسے پاکستانی کردار کا خواہش مند ہے کہ جس میں پاکستان صرف ایک Obedient کے طور پر موجود ہو۔ ویسے اس وقت Obedient تو ہم اس حد تک ہو چکے ہیں کہ امریکی وفد سے یہ تک براہ راست نہیں کہہ سکے کہ یہ 300ملین ڈالر کی معطلی غیر مناسب ہے۔ سخت الفاظ کیا استعمال کرتے۔ ہمارا دھیان تھا کہ کہیں معزز مہمان ہم سے ناراض نہ ہو جائے حالانکہ سفارتکاری میں جب مسائل براہ راست بیان نہ کئے جائیں تو اور بعد میں علیحدہ سے بیان کیے جائیں تو ان کی حیثیت ’’سیاسی بیان‘‘ سے زیادہ دوسرا فریق نہیں سمجھتا۔ امریکہ کے عزائم مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی باتوں یا 300ملین ڈالر کا تذکرہ تک نہ کرنے سے تبدیل نہیں ہو سکتے۔ امریکی عزائم اس خطے میں اور بالخصوص افغانستان میں کیا ہونگے۔ اسکو سمجھنے کے لئے زلمے خلیل زاد کہ امریکی نمائندہ برائے افغانستان کی تقرری کے اعلان سے کیا جا سکتا ہے۔ زلمے خلیل زاد اس سے قبل افغانستان اور عراق میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں اور وہ اس دوران پاکستان کے سخت ناقد رہے اور افغانستان میں امریکی مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں۔ اور افغانستان کے امور سے براہ راست تعلق رکھنے کی وجہ سے امریکی حکمت عملیوں میں ایک اہم عنصر کے طور پر موجود ہے۔ ٹرمپ نے اپنے عرصہ صدارت کے آغاز سے اب تک کسی کو اس عہدے پر تعینات نہیں کیا تھا۔ زلمے خلیل زاد کی تعیناتی کے اعلان اور اس کا وقت، مائیک پومپیو کی پاکستان آمد سے قبل چننا اس بات کی باقاعدہ وضاحت ہے کہ ٹرمپ اب افغانستان، افغان طالبان اور پاکستان کے حوالے سے اپنی نئی حکمت عملی جانب تیز رفتاری سے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اس حکمت عملی میں پاکستان پر معاشی اور سفارتی دبائو اس حد تک بڑھا دیا جائے کہ وہ افغان طالبان پر وہ بات پیش کرنے پر مجبور ہو جائے جو امریکی خواہش ہے۔ حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں کہ یہ صرف وہم ہے کہ افغان طالبان ہماری باتیں مانتے ہیں۔ مائیک پومپیو نے اپنی آمد سے قبل اور بعد میں اس بات کا برملا ذکر کیا کہ وہ افغانستان کے معاملات میں پاکستان سے معاملات کو طے کرنے کی غرض سے یہ سفر کر رہے ہیں۔ اور وہ اس دورے میں پاکستان سے کس حد تک اتفاق کر کے گئے اس کا اندازہ بھارت میں امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں پاکستان کا نام لیکر ممبئی حملوں، پٹھان کوٹ اور اڑی حملوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مائیک پومپیو کے دورے کو سفارتی کامیابی قرار دینا ’’سیاسی بیان‘‘ اور وہ بھی مقامی سطح سے زیادہ کوئی اور اہمیت نہیں رکھتا۔ ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ سفارتی آداب سے نابلد ہونے سے سفارتی کامیابیاں حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ ہماری قربانیوں کو ہماری غلطیوں سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں خون ریزی پاکستان کی ان حکمت عملیوں کے نتائج کے طور پر ہوئی کہ جن میں انتہا پسندوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں سے صرف نظر کیا گیا۔ قطع نظر اس کے کہ یہ درست ہے کہ غلط لیکن اس صورتحال کی موجودگی میں دنیا میں امریکہ یا کسی دوسری ریاست کے لئے یہ بہت آسان ہو گا کہ وہ پاکستان کے تشخص پر مزید حملہ آور ہو جائے۔ مدارس کے نصاب میں تبدیلی جیسے اقدامات سے وہ اپنے یہ مفادات بھی حاصل کر لیں گے اور پھر بھی اپنے دبائو کو حکمت عملی کے منفی تصور کے سبب سے بڑھاتے بھی چلے جائیں گے۔ اس لیے اس وقت حقیقی فیصلہ ساز قوت کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو پھر معاشی ترقی اور بین الاقوامی تعلقات میں کسی بہتری کی گنجائش کم سے کم ہوتی چلی جائے گی اور دبائو بڑھتا چلا جائے گا۔ یہ دبائو بڑھنے کی ہی نشانی ہے کہ افغانستان میں داعش کو مضبوطی سے قدم جمانے کا موقع امریکہ فراہم کر رہا ہے حالانکہ وہ اس سے مکر رہا ہے۔ لیکن ہم ان کے سامنے یہ تک کہنے کی ہمت نہیں دکھا پا رہے۔ اگر ہمت نہ دکھائی گئی تو خونریزی کا رخ پاکستان کی جانب مزید مڑ جائے گا۔ خدانخواستہ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین