• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ وفاقی حکومت نے اور کوئی کام کیا ہے یا نہیں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت ضروری پوری کر رہی ہے۔ اس انہونی کا کریڈٹ اپوزیشن کی معاملہ فہمی اور عسکری قیادت کی صبر و تحمل پر مبنی دور اندیشانہ پالیسیوں کے علاوہ بجا طور پر صدر آصف علی زرداری کو ملنا چاہئے۔ جنہوں نے اپنی سیاسی مفاہمت کی حکمت عملی کے تحت مختلف الخیال جماعتوں کو اقتدار کی چھتری تلے جمع کیا۔ وہ روٹھیں تو منانے کے لئے کبھی ایک اور کبھی دوسری کے دروازے پر خود پہنچے یا اپنے مصاحبین کو بھیجا اور جس نے جو فرمائش کی اسے کھلے دل سے پورا کیا۔ اس طرح اس حکومت کو جو آئینی لحاظ سے پارلیمانی مگر عملی طور پرصدارتی ہے ہر قسم کے سرد و گرم سے بچائے رکھا۔ یہ ان کی بہت بڑی کامیابی اور ان کے ایک زیرک سیاستدان ہونے کا عملی ثبوت ہے۔ مگر کاش وہ اس معاملہ فہمی صلاحیت اور چابکدستی کا مظاہرہ بلوچستان کا بحران حل کرنے کے لئے بھی کرتے جو گزرتے وقت کے ساتھ قومی یکجہتی کے لئے بہت بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
بلوچستان میں اس وقت علیحدگی کی تحریک سے بھی زیادہ بڑا مسئلہ وفاق پر عوام کے اعتماد کا فقدان ہے جو اس تحریک کو تقویت پہنچا رہا ہے۔ اس خلیج کو پاٹنے کیلئے صدر اور وزیر اعظم سمیت کوئی بھی مقتدر شخصیت یا مختلف اوقات میں قائم ہونے والی خصوصی کمیٹیوں کے ارکان کوئٹہ کے سوا اندرون بلوچستان کسی علاقے میں نہیں گئے۔ عوام سے براہ راست رابطہ کیا۔ نہ ان کی محرومیوں اور مایوسیوں کو میں بدلنے کی کوشش کی۔ حالانکہ مزاحمت اور بداعتمادی کا مرکز کوئٹہ نہیں صوبے کے اندرونی علاقے ہیں۔ عوام سے دور رہنے کے اس رویے کی بدولت آج عام بلوچوں یا پشتونوں کو ٹھیک طرح سے اپنے حکمرانوں کے نام بھی معلوم نہیں نہ وہ ان کی شکل و صورت سے آشنا ہیں۔ وفاقی تو کیا صوبائی حکمران بھی زیادہ تر کوئٹہ تک محدود ہیں۔ 65رکنی اسمبلی کے 63ارکان صوبائی حکومت کا حصہ ہیں۔ گویا تکنیکی اعتبار سے منتخب نمائندوں کے حوالے سے حکومت کو 90فیصد سے زائد عوام کی حمایت حاصل ہے اور جب عوام اتنی بھاری اکثریت کسی حکومت کے ساتھ ہو تو وہاں امن ہی امن اور سکون ہی سکون ہونا چاہئے۔ مگر زمینی حقائق یہ کہ علیحدگی کی تحریک ٹارگٹ کلنگ اغوا برائے تاوان فرقہ وارانہ دہشت گردی اور قتل و غارت نے پورے صوبے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے خود وزیر اعلیٰ زیادہ تر اسلام آباد میں رہتے ہیں اور وزراء کوئٹہ میں کوئی وزیر مشیر یا معاون خصوصی سکیورٹی کے بھاری لاؤ لشکر کے بغیر کوئٹہ سے باہر نہیں نکلتا۔ نکلتا بھی ہے تو سیدھا آبائی علاقے میں اپنے گھر جاتا ہے۔ لوگوں سے رابطے اور ان کے مسائل حل کرنا شاید ہی کسی کے بس کی بات ہو اب جبکہ ان کے اقتدار کے دن ختم ہونے والے ہیں نئے انتخابات قریب آ رہے ہیں اور 2008ء کے برخلاف اس مرتبہ قوم پرست پارٹیاں بھی بائیکاٹ ختم کر کے انتخابات میں حصہ لینے والی ہیں تو سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر چہرے نئی اسمبلی میں نظر نہیں آئیں گے۔
پاکستان سے بلوچوں کی وفاداری پر ہمیشہ شک کیا جاتا رہا ہے مگر اہل نظر جانتے ہیں کہ شدید ترین تحفظات کے باوجود بلوچ قیادت نے مختلف اوقات میں مقتدرہ سے مفاہمت کے جو سمجھوتے کئے ان کی پاسداری بھی کی۔ یہ طرز عمل اس سچائی کا واضح اظہار ہے کہ بلوچ اس ملک کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے اندر اپنے حقوق چاہتے ہیں۔ مگر یہ وفاقی اشرافیہ ہے جس نے وعدہ خلافیوں سے بلوچوں کو گلے لگانے کی بجائے ہمیشہ دور دھکیلا۔ اسی وجہ سے نواب اکبر بگٹی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یحییٰ خان کے دور میں ہم نے صوبے کے قیام پر اکتفا کرلیا۔ ہمارا خیال تھا کہ صوبے بنیں گے تو انہیں کم از کم امریکی ریاستوں جتنی آزادی ہوگی مگر صوبوں کو ترقی یافتہ ممالک کے اضلاع اور کاؤنٹی کے برابر بھی خودمختاری نہیں دی گئی۔ آج بھی وفاقی حکومت نیک نیتی سے چاہے تو بلوچستان میں امن و امان کی بحالی اور منحرفین کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے وہاں کی سیاسی و قبائلی شخصیات کی خدمات سے استفادہ کر سکتی ہے۔ اگرچہ جہاں سے سیاست کی حد شروع ہوتی ہے وہاں قبائلی سرداروں کا اثر و رسوخ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے مگر ان کی اہمیت سے آج بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ بیشتر سردار وسیع سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں اس لئے ان کی اجتماعی کوششوں سے مزاحمت کاری اور بدامنی کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔ خان آف قلات کی گدی کے وارث میر سلیمان داؤد نواب اکبربگٹی کے چہیتے پوتے براہمدغ بگٹی اور نواب خیر بخش مری کے سیماب صفت بیٹے میر حیر بیار مری تومیں چلے گئے ہیں مگر چیف آف سراوان نواب محمد اسلم رئیسانی چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ زہری سابق ریاست لسبیلہ کے والی جام میر محمد یوسف اور خاران و مکران کے والیوں کے جانشین ہمیشہ کی طرح آج بھی پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں۔ چیف آف سراوان (زیریں علاقے) اور چیف آف جھالاوان (بالائی علاقے) حفظ مراتب کے اعتبار سے خان قلات کے بعد بلوچوں کی سب سے معتبر شخصیات ہیں اور سیاست میں بھی سرگرم ہیں۔ ان کے ماتحت بہت سے قبائل ہیں جن کے اپنے اپنے سردار ہیں۔ ان قبائل میں رئیسانی رند زہری مینگل بزنجو محمد حسنی محمد شہی ساسولی قمبرانی گرگناڑی رودینی جتک شاہوانی لہڑی سرپرہ احمد زئی یوسف زئی موسیانی خدرانی دہوار کرد بنگلزئی لانگو ساتکزئی نوتیزئی باجوئی ساجدی پندرانی بادینی جمال دینی سنجرانی ذگر مگسی جمالی کھوسو جاموٹ عمرانی ابڑو اور ڈومکی وغیرہ کی حیثیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ لسبیلہ مکران خاران اور مری و بگٹی علاقوں کے قبائل ان کے علاوہ ہیں۔ قبائلی سرداروں کے علاوہ سیاسی شخصیات سردار عطاء اللہ مینگل میر ظفر اللہ جمالی جان محمد جمالی ڈاکٹر عبدالمالک بزنجو برادران ڈاکٹر عبدالحئی اختر مینگل طلال بگٹی جنرل عبدالقادر بلوچ اور پشتون قبائلی و سیاسی زعما محمود خان اچکزئی مولانا محمد خان شیرانی نواب ایاز جوگیزئی اورنگ زیب کاسی سردار یعقوب ناصر اور عبدالمتین اخونزادہ جیسی شخصیات بھی بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ ان سب رہنماؤں کی مشاورت سے اندرون اور بیرون ملک ناراض بلوچوں سے صدر زرداری خود یا حقیقی معنوں میں کوئی باختیار کمیشن رابطے کرے تو بلوچستان میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین