• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہولی فیملی ہسپتال میں عملہ کی غفلت کی وجہ سے چوہے نے نومولود بچے کو کاٹ کر زخمی کر دیا۔ ایم ایس نے تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔
ہولی فیملی ہسپتال، سرکار چلاتی ہے، اس چوہے نے نومولود بچے کے ساتھ جو خونی ہولی کھیلی اس سے ہول سا اٹھتا ہے، اور یہ صفائی ستھرائی ہی کا کرشمہ ہے، کہ آدم خور چوہے اس سرکاری ہسپتال میں اس طرح پھرتے ہیں جیسے ایم ایس راؤنڈ پر ہو، لگتا ہے یہ ہسپتالی چوہے بھی عملے پر گئے ہیں۔ اسی لئے مریضوں کو نوچتے پھرتے ہیں، اور اب خیر سے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے کمیٹی انڈوں پر بٹھا دی ہے۔ ممکن ہے کچھ عرصے بعد انڈوں سے مزید چوہے نکل آئیں، وہ بھی کوئی ایسا ہی شفاخانہ ہو گا جہاں حافظ شیرازی کی محبوبہ زیر علاج تھی اور وہ بے چارہ بڑے ڈاکٹر سے پریشانی کے عالم میں بار بار اس کا حال پوچھتا تھا
پرسیدم از طبیبِ احوالِ دوست گفتا
فی بعدہا عذاب فی قربہا الندامة
(میں نے ڈاکٹر سے محبوبہ کی صحت کے بارے پوچھا تو اس نے کہا کچھ نہ پوچھو اس سے دور رہنے میں عذاب ہے اور قریب جانے میں پشیمانی)
ہمارے ہاں بیمار جب تک اپنے گھر میں ہوتے ہیں، ان کے ٹھیک ہونے کی امید ہوتی ہے، لیکن جوں ہی انہیں کسی ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے، تو ان کا علاج ہسپتالی و غیر ہسپتالی چوہے کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ مریض کا مرض جانے کے بجائے اس کے ذہن سے چوہے اور انسان میں فرق بھی مٹ جاتا ہے اور مریض مختلف قسم کے چوہوں کی نگرانی میں اپنے بیڈ پر کروٹیں بدلتا یوں کراہتا ہے
رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
یار نے مجھ کو مجھے یار نے سونے نہ دیا
امریکی جریدے فارن پالیسی نے دنیا کے سو بہترین مفکرین میں ملالہ، حسین حقانی سمیت 4 پاکستانیوں کو بھی شامل کیا ہے۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں سے بھی چار عدد بہترین مفکر نکل آئے، اب سمجھے کہ غالب کو بھی قیس ہندوستان میں نظر آیا ہو گا
شوق ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
اور ہندوستان تب اپنے اندر پاکستان کو بھی چھپائے ہوئے تھا، وہ نکل آیا سو نکل آیا۔ ملالہ یوسف زئی، اور حسین حقانی میں اگرچہ بڑا فرق ہے، لیکن ہمیں کیا ہماری تو نیک نامی ہے چاہے وہ کسی بھی پاکستانی کے وسیلے سے مل جائے، پاکستان میں سکولوں کے ساتھ صرف دہشت گرد ہی دہشت گردی نہیں کرتے، اپنے مہربان قدر دان بھی دہشت گردوں والا سلوک کرتے ہیں، مثلاً بچوں کے بجائے وہاں گائے بھینسیں اور دیگر مویشی باندھ دیئے جاتے ہیں، پچھلے دنوں ایک سرکاری پرائمری سکول کا ماہانہ کرایہ طویل مدت سے ادا نہ کرنے پر مالک نے اسے تالہ لگا دیا، اب وہ اقبال کے شاہین بچے اس مکان کے باہر گلی میں پڑھتے ہیں، اس کے باوجود بھی اگر ملالہ ایسے ہی کسی سکول سے نکل کر آج دنیا میں نام پیدا کر چکی ہے، تو کہئے اگر تالہ لگے سکول کو بھی کھول دیا جائے محکمہ تعلیم کرایہ ادا کر دے، تو میاں شہباز شریف کو کتنی خوشی ہو گی، اور کتنی ہی ملالائیں اور نکل آئیں گی اور کتنے ہی حسین حقانی ملک و قوم کا نام روشن کرنے مفکرین کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔ مصور پاکستان اقبال نے تو کہا تھا کہ بس ایک آنچ کی کسر ہے،
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!

مریدکے میں زیادتی کا شکار پانچوں بچیاں ذہنی طور پر مفلوج ہو گئیں جبکہ والدین دماغی توازن کھو بیٹھے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کہتے ہیں زیادتی کرنے والے قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ پاکستان کیوں قائد کا پاکستان نہیں بن سکا اس کا جواب تو ان کے پاس ہو گا جن کو قائد کے پاکستان کی بڑی فکر ہے، البتہ ہماری ناقص سوچ یہ کہتی ہے، کہ اس کی وجہ صف نازک کے ساتھ ہر سطح پر ناروا سلوک ہے، اگر سزا ملتی، قانون کی گرفت ہوتی، تو یہ ملک اللہ کی گرفت میں کیوں آتا، یہ پاکستان کی پانچ بیٹیاں جن کی اجتماعی آبرو ریزی ہوئی صدمے اور اذیت کے نتیجے میں ہوش و حواس کھو بیٹھی ہیں، اور ماں باپ کے دماغ بھی مفلوج ہو گئے ہیں، کیا اب یہ کہنا بجا نہ ہو گا کہ ہم من حیث القوم عاد و ثمود اور قومِ لوط کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں، جس روز عورت آزاد محفوظ اور باعزت ہو گی اسی دن ہم آزادی کے ثمرات سے فیضیاب ہو سکیں گے، اور قائد و اقبال کا پاکستان بھی ہمارے منظر نامے پر طلوع ہو گا، ابھی تو مطلع اس قدر ابر آلود ہے، کہ
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
روزانہ کی مکروہ خبریں پڑھ پڑھ کر دیکھ دیکھ کر بھی قومی بے حسی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، شاید ہم اتنے شور میں سونے کے عادی ہو گئے ہیں کہ یہ شور بند ہوا تو جاگ اٹھیں گے، گویا
ہیں خواب میں ہنوز جو سوئے ہیں شور میں
مریدکے پنجاب میں ہے اور پنجاب کے کسٹوڈین اس کے گورنر اور وزیر اعلیٰ ہیں، دیکھئے کہ ان پانچ اور دو سات انسانوں کو زندہ موت دینے والوں کو کتنی عبرتناک سزا دی جاتی ہے کہ آئندہ کوئی ایسی غیر انسانی حرکت کا سوچنے سے بھی لرز جائے، جن معاشروں میں بے جا پابندیاں عام ہوتی ہیں، وہاں با اثر افراد ہوں یا بے اثر افراد اپنی اپنی توفیق کے مطابق جرم کرتے اور دندناتے پھرتے ہیں۔

پی آئی اے کا پائلٹ دوران پرواز بے ہوش ہو گیا، آکسیجن لگانا پڑی، طیارہ دوسرے پائلٹ نے سنبھال لیا۔ قائمہ کمیٹی نے واقعہ کا نوٹس لے لیا۔
قومی ایئر لائنز پی آئی اے سے کوئی پوچھے کہ ”پی آئی ایں“ ہوش میں آنے کے لئے ترشی چاہئے، مگر ترشی دے گا کون؟ کیا قائمہ کمیٹی؟ جو حالتِ قیام میں ہے اس کے سلام پھیرنے پر ہی معلوم ہو گا کہ پی آئی اے کے دن پھرنے کی امید ہے یا نہیں پی آئی اے کے جہاز نگوڑے اتنے بیمار ہیں کہ پائلٹوں کو بھی بیمار کر دیا، اب وہ لوگ کیا کریں گے کیسے اڑیں گے جو کہتے پھرتے ہیں ”پا جی! پیسہ ہی بڑا ہے،“ بے چارے غریب عوام کو پی آئی اے کی ناکامی سے کیا غرض وہ تو چنگ چی میں سوار ہونے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔ اور اس میں بیٹھ کر کانکرڈ نامی بلند آہنگ جہاز کے مزے لیتے ہیں، اگر گاڑی اور طیارہ خراب ہو جائے، تو کہہ دیا جاتا ہے، اجی مشینری ہے کسی وقت بھی جواب دے سکتی ہے، مگر یہ انسان اور وہ بھی پائلٹ کیسے اچانک خراب ہو گیا، اس کی مشینری بھی پی آئی اے نے بگاڑ دی ہے، عام لوگ ریلوے کو روتے ہیں خاص لوگ پی آئی اے کو، کیسی مساوات ہے اس ملک میں قربان جایئے! ایک وقت آئے گا کہ پی آئی اے اڑنا بند کر دے گی اور یہ گیت گائے گی
تتلی اڑی، اڑ جو چلی پھول نے کہا آ جا میرے پاس
تتلی کہے میں چلی آکاش
قائمہ کمیٹی زاویہ قائمہ سے نکل کر فقط اس معاملے ہی کو نہ سنبھالے بلکہ پی آئی اے کے پورے تن داغ داغ پر مرہم رکھے شاید پی آئی اے کو اپنے پائلٹوں سمیت افاقہ ہو۔
تازہ ترین